ایک مجلس میں متعدد آیت سجدہ پڑھنے اور سننے کا حکم کیا ہے۔؟

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

مسئلہ نمبر 14
السلام علیکم ورحمتہ اللہْ کیافرماتےہیں علماءکرام کہ دور میں دوطالب العلموں کےایک آیت سجدہ ایک دفعہ پڑھنے اوردوسری دفعہ سننےسےایک یادوسجدےواجب ہوتےہیں وضاحت فرمائیں مہربانی ہوگی۔؟(المستفتی:محمد علی بغلانی)
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب:
اگر ایک ہی آیت سجدہ متعدد لوگوں سے ایک ہی مجلس میں سنے تو ایک ہی سجدہ واجب ہوتا ہے٫اسی طرح ایک آیت سجدہ ایک نے پڑھا دوسرے نے سنا اور پھر وہی آیت سجدہ دوسرے نے بھی اسی مجلس میں سنا تو اس صورت میں بھی ایک سجدہ واجب ہوگا٫(یعنی سامع پر ایک اور قاری پر ایک سجدہ واجب ہوگا)جیسا کہ کوئی آدمی ایک سجدہ والی آیت کو ایک مجلس میں بار بار پڑھے تو اس پر ایک ہی سجدہ واجب ہوتا ہے۔اسی طرح کوئی استاذ متعدد بچوں سے ایک ہی آیتِ سجدہ ، ایک ہی مجلس میں سنے، تو استاذ پر ایک ہی سجدہ واجب ہوگا، اور اگر ایک ہی مجلس میں مختلف آیاتِ سجدہ سنے ، تو جتنی آیاتِ سجدہ سنی اتنے سجدے واجب ہوں گے، اور اگر مجلس بدل جائے ، تو جتنی مجلسیں ہوں اتنے سجدے واجب ہوں گے۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں
ولو کررہا في مجلسین تکررت ، وفي مجلس واحد لا تتکرر بل کفتہ واحدۃ ۔۔۔۔ والأصل أن مبناہا علی التداخل دفعًا للحرج بشرط اتحاد الآیۃ والمجلس ۔ الدر مع التنویر ۔ قال الشامي رحمہ اللہ تعالی : قولہ : (دفعًا للحرج) لأن في إیجاب السجدۃ لکل تلاوۃ حرجًا خصوصًا للمعلّمین والمتعلّمین ، وہو منفي بالنص ۔ بحر۔ قولہ: (بشرط اتحاد الآیۃ والمجلس) أي بأن یکون المکرر آیۃ واحدۃ ، فلو تلا آیتین في مجلس واحد أو آیۃ واحدۃ في مجلسین فلا تداخل۔(التنویر مع الدر والرد,۲/۵۱۵ ، ۵۱۶ ، کتاب الصلاۃ ، باب سجود التلاوۃ ، البحر الرائق : ۲/۲۲۰ ، باب سجود التلاوۃ ، الفتاوی الہندیۃ : ۱/۱۳۴ ، الباب الثالث عشر في سجود التلاوۃ)
والأصلوالأصل أن السجدۃ لا یتکرر وجوبہا إلا بأحد أمور ثلاثۃ : اما اختلاف المجلس ، أو التلاوۃ ، أو السماع ، حتی ان من تلا آیۃ واحدۃ مرارًا في مجلس واحد تکفیہ سجدۃ واحدۃ ، والأصل فیہ ما روي أن جبریل علیہ السلام کان ینزل بالوحي فیقرأ آیۃ السجدۃ علی رسول اللہ ﷺ ، ورسول اللہ ﷺ کان یسمع ویتلقّن ثم یقرأ علی أصحابہ ، وکان لا یسجد إلا مرۃ واحدۃ ۔ وروي عن أبي عبد الرحمن السلمي معلم الحسن والحسین رضي اللہ عنہم أنہ کان یعلّم الآیۃ مرارًا ، وکان لا یزید علی سجدۃ واحدۃ ، والظاہر أن علیًا رضي اللہ عنہ أنہ کان عالمًا بذلک ولم ینکر علیہ ۔ وروي عن أبي موسی الأشعري رضي اللہ عنہ أنہ کان یکرر آیۃ السجدۃ حین کان یعلّم الصبیان ، وکان لا یسجد إلا مرۃ واحدۃ ، ولأن المجلس الواحد جامع للکلمات المتفرقۃ کما في الإیجاب والقبول ، ولأن في إیجاب السجدۃ في کل مرۃ إیقاع في الحرج لکون المعلّمین مبتلین بتکرار الآیۃ لتعلیم الصبیان ، والحرج منفي بنص الکتاب ، ولأن السجدۃ متعلقۃ بالتلاوۃ ، والمرۃ الأولی ہي الحاصلۃ للتلاوۃ ، فأما التکرار فلم یکن لحق التلاوۃ بل للتحفظ أو للتدبر والتأمل في ذلک من عمل القلب ، ولا تعلق لوجوب السجدۃ بہ ، فجعل الاجراء علی اللسان الذي ہو من ضرورۃ ما ہو فعل القلب أو وسیلۃ إلیہ من أفعالہ فالتحق بما ہو فعل القلب ، وذلک لیس بسبب ، کذا علل الشیخ أبو منصور رحمہ اللہ تعالی ۔(بدائع الصنائع,۱/۴۳۱، کتاب الصلاۃ، فصل في سبب وجوب السجدۃ ، اللباب في شرح الکتاب: ۱/۱۰۹ ، باب سجود التلاوۃ)(مستفاد: المسائل المہمہ ،۱۲۸/۵)(خیر الفتاویٰ۲/۶۵۶)(فتاویٰ رحیمیہ،۲۰۶/۵)
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
۱۶ شعبان المعظم,۱۴۴۱ھ  ۱۱,اپریل ۲۰۲۰ ء,بروز سنیچر۔
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے