جمعہ کے دن مرنے والے کی فضیلت

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

جمعہ کے دن مرنے والے کی فضیلت

سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ جمعہ کے دن مرنے والے کے متعلق کیافضیلت وارد ہوئی ہے؟ اس سلسلے میں حدیث شریف تحریر فرمادیں؟

باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جمعہ کی فضیلتوں میں سے ایک اہم فضیلتیہ بھی ہے کہ جو شخص جمعہ اور جمعرات کی درمیانی رات یاجمعہ کے دن وفات پاتاہے،تو وہ عذاب قبر سے محفوظ ہوجاتاہے۔اور عذاب قبر سے حفاظت کے تین اسباب ہیں،جو حسب ذیل ہیں۔
(۱) عظمت ذات کی وجہ سے عذاب قبر سے حفاظت ہوتی ہے، جیساکہ حضرات انبیاء علیہم السلام، شہداء اور معصوم بچے، اﷲ کے یہاں ان کی ذات کی عظمت ہے، جس کی وجہ سے اﷲ کے یہاں ان کی عذاب قبر سے حفاظت کی جاتی ہے۔
(۲) عظمت عمل کی وجہ سے بھی اﷲ تعالیٰ عذاب قبر سے محفوظ رکھتے ہیں، مثلاً کوئی شخص سونے سے پہلے سورۂ ملک (تبارک الذی) پڑھنے کامعمول بنا لیتا ہے، تو اس عمل خیر کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ عذاب قبر سے اس کی حفاظت فرمادیتے ہیں، جیساکہ حسب ذیل روایت سے واضح ہوتا ہے۔
عن ابن عباسؓ قال ضرب بعض أصحاب النبي صلی اﷲ علیہ وسلم خباء ہ علی قبر وہولا یحسب أنہ قبر، فإذا قبر إنسان یقرأ سورۃ الملک حتی ختمہا، فأتی النبي صلی اﷲ علیہ وسلم، فقال: یا رسول اﷲ! إني ضربت خبائي علی قبر وأنا لا أحسب أنہ قبر، فإذا فیہ إنسان یقرأ سورۃ الملک حتی ختمہا، فقال النبي صلی اﷲ علیہ وسلم ہي المانعۃ، ہي المنجیۃ تنجیہ من عذاب القبر۔ (ترمذي، فضائل القرآن، باب ماجاء في سورۃ الملک، النسخۃ الہندیۃ۲/۱۱۷، دار السلام رقم:۲۸۹۰، مسند البزار مکتبۃ العلوم والحکم۱۱/۴۳۹، رقم: ۵۳۰۰، المعجم الکبیر للطبراني، دار إحیاء التراث العربي ۱۲/۱۷۴، رقم:۱۲۸۰۱)
(۳) عظمت زمان کی وجہ سے بھی عذاب قبر سے حفاظت ہوجاتی ہے جیسا کہ کوئی شخص جمعہ اور جمعرات کی درمیانی رات یا جمعہ کے دن مرتاہے، تو جمعہ کے دن کی عظمت کی وجہ سے اللہ تعالی اسے عذاب قبر سے محفوظ فرمالیتے ہیں اور یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اگر کوئی ظالم آدمی جمعہ کے دن مرتا ہے، تو وہ بھی عذاب قبر سے محفوظ ہوجائے گا جیساکہ روایت سے واضح ہوتا ہے، مگر آخرت کے حساب و کتاب سے نہیں بچ پائے گا وہاں کی پکڑ اپنی جگہ ہے۔
روایت ملاحظہ فرمائیے:
عن عبد اﷲ بن عمروؓ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ، أو لیلۃ الجمعۃ إلا وقاہ اﷲ فتنۃ القبر۔ (ترمذي شریف، کتاب الجنائز، باب ماجاء في من یموت یوم الجمعۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/۲۰۵، دار السلام رقم:۱۰۸۰، مسند أحمد ۲/۱۶۹، رقمخ ۶۵۸۲، المعجم الأوسط للطبراني۲/۲۳۱، رقم: ۳۱۰۷)
عن أنسؓ أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: من مات یوم الجمعۃ وقي عذاب القبر۔ (مسند أبي یعلی الموصلي، دار کتب العلمیۃ بیروت ۳/۴۰۰، رقم:۴۰۹۹)
عن ابن شہاب أن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم قال: من مات لیلۃ الجمعۃ، أو یوم الجمعۃ برئ من فتنۃ القبر، أو قال وقي فتنۃ القبر، وکتب شہیداً۔ (المصنف لعبد الرزاق، باب من مات یوم الجمعۃالمجلس العلمي۳/۲۶۹، رقم: ۵۵۹۵)
(۴) مزید ایک چوتھی چیز یہ ہے کہ اللہ کے یہاں عظمت مکان کی وجہ سے بھی مرنے والوں کی فضیلت آئی ہے جیساکہ حدود حرم مکی اور حدود حرم مدنی کی سر زمین کا تقدس اﷲ کے یہاں اس قدر ہے کہ وہاں پر مرنے والوں کی بڑی فضیلت آئی ہے ، ایک حدیث میں وارد ہوا ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ جس شخص کو اس بات کی گنجائش ہو کہ مدینہ کی سرزمین پر آکر مرے، تو وہ ضرور وہاں کی رہائش اختیار کر کے وہاں پر مرنے کی کوشش کرے؛ اس لئے کہ مدینہ میں مرنے والوں کی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ضرور شفاعت فرمائیں گے۔
حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے:
عن ابن عمرؓ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: من استطاع أن یموت بالمدینۃ، فلیمت بہا، فإني أشفع لمن یموت بہا۔ (ترمذي، المناقب، باب ماجاء في فضل المدینۃ، النسخۃ الہندیۃ ۲/۲۲۹، دار السلام رقم:۳۹۱۷)
اور دوسری حدیث شریف میں وار د ہوا ہے کہ جو شخص حرمین میں سے کسی ایک مقام پر مرتا ہے، قیامت کے دن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت اس کے لئے لازم ہوجائیگی اور قیامت کے دن اس کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا، اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس کو امن و حفاظت کا پروانہ مل جائے گا۔حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے:
عن أنس بن مالکؓ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: من مات في أحد الحرمین، بعث من الآمنین یوم القیامۃ، ومن زارني محتسباً إلی المدینۃ کان جواري یوم القیامۃ۔(شعب الإیمان للبیہقي، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۳/۴۹۰، رقم:۴۱۵۸)
عن جابرؓ قال: قال رسول اﷲ صلی علیہ وسلم: من مات في أحد الحرمین بعث اٰمناً۔ (المعجم الأوسط للطبراني، دار الفکر بیروت ۴/۲۵۰، رقم: ۵۸۸۳)
عن سلمانؓ عن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم قال: من مات في أحد الحرمین استوجب شفاعتي، وکان یوم القیامۃ من الاٰمنین۔ (المعجم الکبیر للطبراني، دار إحیاء التراث العربي ۶/۲۴۰، رقم:۶۱۰۴)(فتاوی قاسمیہ۷۷/۹)
فقط وﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
جمعہ کے دن کی موت کی فضیلت کیا ہے؟
جب کوئی شخص اللہ کوپیارا ہوچکا ہے تواپنے ایک مسلمان بھائی کے لئے دعاءِ مغفرت کرنی چاہئے، اس کے بارے میں اچھا گمان رکھنا چاہئے اور اچھی بات ہی ذکر کرنا چاہئے، اپنے مسلمان بھائی کی کوتاہیوں کا ذکر کرنا مناسب نہیں، حدیث میں جمعہ کے دن مرنے کیفضیلت آئی ہے، حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
جومسلمان جمعہ کے دن یاجمعہ کی شب مرتا ہے اللہ تعالیٰ قبر کی آزمائش سے اس کی حفاظت فرماتے ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
جمعہ کے دن جس کی موت ہوگی وہ عذاب قبر سے محفوظ رہے گا۔
یہ روایتیں عام طور پراہلِ فن کے نزدیک کلام سے خالی نہیں ہیں؛ لیکن فضائل میں اس درجہ کی روایات بھی معتبر تسلیم کی جاتی ہیں، شارحینِ حدیث کی وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کا منشا یاتواس شخص کا یوم وفات ہے کہ خاص اس جمعہ کواس پرعذاب قبر نہیں ہوگا یایہ مراد ہے کہ ہمیشہ جمعہ کے دن عذاب قبر سے محفوظ رہے گا اور اگرہمیشہ عذاب قبر سے حفاظت مراد ہوتو اس حدیث کا منشا یہ ہے کہ جمعہ کے دن اس کی وفات ہو اور اس نے اپنی زندگی کودین کے اہتمام کے ساتھ گزارا ہو، واللہ اعلم۔
جمعرات کا دن گزرکے جوشب آتی ہے وہی شب جمعہ ہے؛ کیونکہ غروب آفتاب سے تاریخ تبدیل ہوتی ہے؛ بہرحال آدمی کوچاہئے کہ وہ جس حال میں بھی ہو اللہ تعالیٰ کے احکام پرحتی المقدور عمل کرنے کی کوشش کرے اور صحت کا انتظار نہ کرے کہ نہ معلوم صحت نصیب ہویانہ ہو۔(کتاب الفتاویٰ:۳/۲۴۷،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند۔ فتاویٰ رحیمیہ:۷/۱۲۴، مکتبہ دار الاشاعت ، کراچی۔ احسن الفتاویٰ:۴/۱۵۸، زکریا بکڈپو، دیوبند)
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
کیا رمضان میں وفات پانے والے سے برزخ کا عذاب تاقیامت ختم کردیا جاتا ہے؟
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: احسن الفتاوی اور فتاوی محمودیہ وغیرہ میں لکھا ہے اورخطبات حکیم الاسلام میں بھی لکھا ہے کہ اگر کسی مسلمان کا انتقال رمضان میں ہوجائے تو اس سے برزخ کا عذاب قیامت تک کے لئے ختم کردیا جاتا ہے؛ لیکن ہمارے بعض علماء اس سے اتفاق نہیں کررہے ہیں، اس لئے دارالافتاء سے رجوع کیا جارہا ہے، فیصلہ فرمادیں، جب کہ جمعہ کے بارے میں متفق ہیں کہ جمعہ میں اگر انتقال ہوجائے تو برزخ کا عذاب قیامت تک کے لئے ختم ہوجاتا ہے، اس لئے مع حوالہ تحریر فرمائیں۔
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: رمضان المبارک میں انتقال کرنے والے شخص سے قبر کا عذاب ہٹائے جانے کا ثبوت بعض ضعیف روایات سے ہوتا ہے؛ لیکن ان میں تا قیامت کی قید نہیں ہے، انہی کو بنیاد بناکر مذکورہ کتابوں میں رمضان المبارک میں وفات پانے والوں کے متعلق مذکورہ بات لکھی گئی ہے؛ اورجمعہ کے دن وفات پانے سے متعلق عذابِ قبر نہ ہونے کی بات متعدد احادیث سے ثابت ہے، وہ احادیث اگر چہ متکلم فیہ ہیں؛ لیکن تعدد طرق کی وجہ سے فضائل میں انہیں قبول کیا جا سکتا ہے۔
عن عبد اللّٰہ بن عمرو ص قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ إلا وقاہ اللّٰہ فتنۃ القبر۔ (سنن الترمذي أبواب الجنائز/ باب ما اء فیمن یموت یوم الجمعۃ ۱؍۲۰۵، وقال: ہذا حدیث غریب و لیس اسنادہ بمتصل)
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أن عذاب القبر یرفع عن الموتی في شہر رمضان۔ (شرح الصدور للسیوطي ۲۵۴ مکتبۃ دار التراث بیروت)
ویرفع العذاب یوم الجمعۃ وشہر رمضان بحرمۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لأنہ ما دام في الأحیاء لا یعذبہم اللّٰہ تعالیٰ بحرمتہ۔ فکذلک في القبر یرفع عنہم العذاب یوم الجمعۃ وکل رمضان بحرمتہ۔ (شرح الفقہ الأکبر ۱۷۲ بیروت)
قال ابن عابدینؒ في اٰخر باب الجمعۃ: قال أہل السنۃ والجماعۃ: عذاب القبر حق، وسؤال منکر ونکیر وضغطۃ القبر حق لکن إن کان کافراً فعذابہ یدوم إلی یوم القیامۃ ویرفع عنہ یوم الجمعۃ وشہر رمضان۔ (شامی / باب الجمعۃ، مطلب ما اختص بہ یوم الجمعۃ ۲؍۱۶۵ کراچی، ۳؍۴۴ زکریا)
ثم المؤمن علی وجہین: إن کان مطیعاً لا یکون لہ عذاب ویکون لہ ضغطۃ، فیجد ہول ذٰلک وخوفہ، وإن کان عاصیاً یکون لہ عذاب القبر وضغطۃ القبر، لکن ینقطع عنہ عذاب القبر یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ، ثم لا یعود العذاب إلی یوم القیامۃ، وإن مات یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃیکون لہ العذاب ساعۃً واحدۃً، وضغطۃ القبر، ثم ینقطع عنہ العذاب، کذا في المعتقدات للشیخ أبي المعین النسفي۔ (الأشباہ والنظائر مع: الفن الثالث، الجمع والفرق / القول في أحکام الجمعۃ ۳؍۲۰۰، شرح الحموي ۵۶۴)
فقط وﷲ تعالیٰ اعلم
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
جمعہ کے دن وفات پانے والوں کے لئے فضیلت
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کیا یہ بات صحیح ہے کہ جمعہ کے دن یا اس کی رات میں مرنے والوں کو قبر کا عذاب اور سوال وجواب نہیں ہوتا ؟ اور کیا قیامت تک ان سے عذاب ہٹا رہتا ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: متعدد طرق سے یہ حدیث مروی ہے کہ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جو شخص جمعہ کے دن یا اس کی رات میں انتقال کر جائے وہ قبر کے فتنہ سے محفوظ رکھا جاتا ہے‘‘ اور قبر کے فتنہ میں بظاہر سوال وجواب اور عذاب دونوں شامل ہیں، یعنی ایسا شخص دونوں باتوں سے بچا رہتا ہے، اب یہ صورت قیامت تک یونہی برقرار رہے گی یا بعد میں کسی وقت عذاب ممکن ہے؟ اس بارے میں علماء کی آراء مختلف ہیں:
حکیم ترمذیؒ نے نوادر الاصول میں لکھا ہے کہ’’ تکوینی طور پر کسی شخص کی موت کا جمعہ کے دن یا رات کے موافق ہو جانا اس کی سعادت مندی کی دلیل ہے، اور یہ سعادت صرف اسی کو حاصل ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ کی جانب سے فتنۂ قبر سے محفوظ رکھا جانا منظور ہوتا ہے، جس کا تقا ضہ یہ ہے کہ وہ تاقیامت اس سے محفوظ رہے۔ بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ بعض روایات میں جمعہ کے دن وفات پانے والے کو درجہ شہادت کا مستحق بھی قرار دیا گیا ہے۔ اور شہید کا عذابِ قبر سے محفوظ رہنا طے شدہ امر ہے‘‘۔
اس کے برخلاف ملاعلی قاریؒ نے شرح فقہِ اکبر میں اس موضوع پرکلام کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ :’’اس مسئلہ کا تعلق چونکہ عقائد سے ہے؛ لہٰذا اس کے بارے میں جب تک کوئی مضبوط روایت یانص قطعی نہ ہو کوئی قطعی بات نہیں کہی جاسکتی‘‘۔
تاہم علماء کے اس اختلاف کے باوجود اگر کوئی شخص جمعہ کے دن وفات سے متعلق فضیلت کی حدیث کو عمومی معنی میں رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید رکھے تو اس میں کوئی مضائقہ معلوم نہیں ہوتا۔
عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ ا: ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ إلا وقاہ اللّٰہ فتنۃ القبر۔ (سنن الترمذي، الجنائز / باب ما جاء في من یموت یوم الجمعۃ ۱؍۲۰۵ وقال ہذا حدیث غریب ولیس اسنادہ بمتصل)
عن ابن شہاب موقوفا: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من مات لیلۃ الجمعۃ أو یوم الجمعۃ برئ من فتنۃ القبر وکتب شہیداً۔ (مصنف عبد الرزاق ۳؍۲۶۹) 
قال الحکیم الترمذي في نوادر الأصول: ومن مات یوم الجمعۃ فقد انکشف لہ الغطاء عما لہ عند اللّٰہ؛ لأن یوم الجمعۃ لا تسجر فیہ جہنم وتغلق أبوابہا، ولا یعمل سلطان النار فیہ ما یعمل سائر الأیام، فإذا قبض اللّٰہ عبداً من عبیدہ فوافق قبضہ یوم الجمعۃ کان ذلک دلیلا لسعادتہ وحسن ماٰبہ، وإنہ لایقبض في ہذا الیوم إلا من کتب لہ السعادۃ عندہ فلذلک یقیہ فتنۃ القبر۔ (شرح الصدور بشرح حال الموتیٰ والقبور للسیوطی ۲۰۹ مکتبۃ دار التراث المدنیۃ المنورۃ، مرقاۃ المفاتیح للملا علی القاري ۲؍۲۴۲)
وقال الملا علي قاريؒ: فلا یخفی أن المعتبر في العقائد ہو الأدلۃ الیقینیۃ وأحادیث الأحاد لو ثبت إنما تکون ظنیۃ، نعم ثبت في الجملۃ أن من مات یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ یرفع العذاب عنہ إلا أن لا یعود إلیہ إلی یوم القیامۃ فلا أعرف لہ أصلا الخ۔ (شرح الفقہ الأکبر للملا علي قاري ۱۷۳) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
فاسق وفاجر مسلمان اگر جمعہ کے دن مرجائے تو عذابِ قبر ہوگا یا نہیں
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک مسلمان جو کہ شرابی ہے، جواری، فاسق ہے، بے نمازی ہے اور بدعتی ہے، اس آدمی کا اگر جمعہ کے روز انتقال ہو جائے تو اس کو عذاب قبر ہوگا یانہیں؟ حدیث شریف میں جو فضائل جمعہ کے دن انتقال ہونے والے کے لئے آئے ہیں، اس میں یہ آدمی داخل ہوگا یا نہیں؟ یا پھر یہ فضائل صرف مؤمن کے لئے ہیں؟ 
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جمعہ کے دن مرنے والے کے عذاب قبر سے محفوظ رہنے کے بارے میں جو روایت مروی ہے اس میں صرف مسلم کی قید ہے اور بظاہر اس میں صالح وفاسق دونوں شامل ہیں، اس لئے امید رکھنی چاہئے کہ بلا امتیاز ہر مسلمان اس بشارت کا مستحق ہوگا، مگر واضح ہو کہ اس بشارت کا تعلق صرف اَحوالِ قبر سے ہے، یہ آخرت میں حساب وکتاب اور عذاب سے محفوظ ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ إلا وقاہ اللّٰہ فتنۃ القبر۔ (سنن الترمذي ۱؍۲۰۵)
فقط وﷲ تعالیٰ اعلم 
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
جمعہ کے دن مرنے والے کا حکم
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: مؤمن شخص جمعہ کے روز مرتا ہے تو اس کا شریعت میں کیا مرتبہ ہے؟ اور اس سے قبر کے اندر سوال وجواب منکر نکیر کرتے ہیں یا نہیں؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جمعہ کے دن یا رات میں مرنے والے کے متعلق ایک ضعیف روایت میں یہ مضمون وارد ہے کہ وہ قبر کے سوال وجواب اور فتنہ سے محفوظ رہتا ہے۔
عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ إلا وقاہ اللّٰہ فتنۃ القبر۔ (سنن الترمذي ۱؍۲۰۵)(کتاب النوازل۳۲۰/۱تا۳۲۴)
فقط واﷲ تعالیٰ اعلم
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
سوال# 19065
میں نے آن لائن فتوی میں پڑھا ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان کے مہینہ میں مرتا ہے یا جمعہ کے دن، تو وہ قبر میں حساب کتاب کے دن تک عذاب قبر سے محفوظ رہے گا۔اس لیے برائے کرم اس کے بارے میں بتائیں کہ اگر کسی شخص کا ذی الحجہ میں انتقال ہوتا ہے تو کیاوہ بھی عذاب قبر سے محفوظ رہے گا؟
Published on: Feb 24, 2010 جواب # 19065
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(م): 291=291-3/1431
ماہ ذی الحجہ میں مرنے والے کے متعلق اسی طرح فضیلت کی تشریح نظر سے نہیں گزری، ہاں البتہ ذی الحجہ میں شب جمعہ یا جمعہ کے دن میں کوئی مسلمان انتقال کرجائے تو ان شاء اللہ اس کو عذاب قبر سے حفاظت رہے گی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
تفصیل دیکھئے:(فتاوی محمودیہ۶۲۶/۱تا۶۳۰)
احسن الفتاوی۲۰۹/۴)
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے