قربانی کے ایام تین ہیں اسکی دلیل احادیث مرفوعہ وآثار صحابہ سے

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

قربانی کے ایام تین ہیں اسکی دلیل احادیث مرفوعہ وآثار صحابہ سے:

اَحادیثِ مرفوعہ اور اَقوال وآثار صحابہ سے استدلال:
حضراتِ صحابہ رضوانﷲ علیہم اجمعین کی ایک جماعت کا مسلک اِس سلسلہ میں یہی منقول ہے کہ قربانی صرف تین دن یعنی ۱۰؍۱۱؍ اور ۱۲؍تاریخ تک ہی جائز ہے، اور یہی مسلک صحیح روایات مرفوعہ اور اقوال وآثار صحابہ سے ثابت ہے، اور یہ بات متفق علیہ ہے کہ حضرات اصحابؓ اگر ایسی بات کہیں جس کا تعلق قیاس سے نہ ہو؛ بلکہ سماع سے ہو تو وہ حکما مرفوع ہوتا ہے، اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اُنہوں نے یہ بات حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر ہی کہی ہوگی، اِس لئے اَب ہم وہ روایات پیش کرتے ہیں: 
پہلی روایت:
عن جابر بن عبد اللّٰہ الأنصاري
حضرت جابر بن عبدﷲ نے حضرت کعب بن عاصم عن کعب بن عاصم الأشعريؓ أن رسول اللّٰہ ا خطب بمنیٰ أوسط أیام الأضحی یعني الغد من یوم النحر۔ (سنن الدارقطني ۲؍۲۱۵ رقم: ۲۵۱۵ مکتبۃ دار الإیمان سہارنفور)
اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم علیہ السلام نے قربانی کے درمیانی دن یعنی دسویں ذی الحجہ کے بعد والے دن منی میں خطبہ دیا، یہ روایت دارقطنی میں ہے۔
ظاہر ہے کہ اَوسط اَیام کا تحقق اُسی وقت ہوگا جب کہ قربانی کے تین دن مانیں، جیساکہ یہی صراحت روایت میں بھی موجود ہے کہ درمیانی دن یعنی دسویں ذی الحجہ جو قربانی کا دن ہے، اُس کے بعد والے دن میں آپ نے خطبہ دیا۔ 
دوسری روایت:
حضرت نبی اکرم صلیﷲ علیہ وسلم نے شروع میں قربانی کا گوشت تین دن سے زائد رکھنے سے منع فرمایا تھا، جیسا کہ یہ روایت بخاری، مسلم اور اِس کے علاوہ دیگر کتبِ اَحادیث میں بھی موجود ہے:
إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہاکم أن تأکلوا لحوم نسککم فوق ثلاث۔ (صحیح البخاري ۲؍۸۳۵)
نبی کریم علیہ السلام نے تم کو منع کیا ہے کہ تم اپنی قربانی کا گوشت تین دن سے زائد کھاؤ۔
علامہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اِس روایت کی تشریح میں لکھا ہے کہ ’’وأولہا یوم النحر‘‘ یعنی آپ علیہ السلام نے جوتین دن سے زائد کھانے سے منع فرمایا ہے، اُس کا پہلا دن یوم نحر یعنی دسویں ذی الحجہ ہے۔ (فتح الباری ۱۳؍۳۴)
اِس روایت سے معلوم ہوا کہ قربانی کرنا تو تین دن بہر حال جائز ہے، اَب اگر چوتھے دن بھی جائز قرار دیںگے، تو اِس روایت کا کوئی معنی نہیں رہے گا؛ اِس لئے کہ ِاس سے تو منع کرنا ایسے وقت میں لازم آرہا ہے کہ جب جمع کرکے رکھنا اور کھانا دونوں ممنوع ہے، اور یہ مہمل بات ہے،یہاں اگر کوئی یہ کہے کہ قربانی کے گوشت کو تو رکھنے کی اجازت بعد میں دے دی گئی ہے، لہٰذا قربانی کی بھی اجازت ہوگی تو اس کا جواب یہ ہے کہ قربانی کا گوشت تو سالوں سال رکھنے کی اجازت ہے، تو کیا قربانی کی اجازت بھی پورے سال ہوگی؟ حالاںکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں؛ لہٰذا یہ اعتراض قابل التفات نہیں، الحاصل یہ کہ تین دن سے زائد جمع نہ کرنے کی روایت سے دو باتیں ثابت ہوئیں:
(۱) قربانی تین دن تک شروع ہے۔

(۲) تین دن سے زائد قربانی کا گوشت جمع کرکے رکھنا منع ہے؛ لیکن بعد میں آپ نے قربانی کے گوشت کو جمع کرکے رکھنے کی اجازت مرحمت فرمادی، اِس لئے پہلے ثابت شدہ دونوں باتوں میں سے دوسری بات ختم ہوگئی، مگر پہلی بات تو اب بھی اپنی جگہ ثابت ہے کہ قربانی تین دن تک مشروع ہے۔ (مستفاد از: اعلاء السنن ۱۷؍۲۳۸ مطبوعہ پاکستان) 

تیسری روایت:
عن نافع أن عبد اللّٰہ ابن عمر قال: الأضحی یومان بعد یوم الأضحی۔ (المؤطا للإمام مالک، کتاب الضحایۃ / الضحیۃ عما في بطن المرأۃ ۱۸۸ المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)
حضرت عبدﷲ ابن عمر رضیﷲ عنہ نے فرمایا کہ قربانی عید کے بعد مزید دو دن تک مشروع ہے۔
واضح رہے کہ جس سند سے یہ روایت بیان ہورہی ہے یہ علماء اُصولِ حدیث کے نزدیک اصح الاسانید میں شمار ہوتی ہے؛ لہٰذا اِس روایت سے صحیح ہونے میں کسی کو بھی ادنی تأمل نہیں۔ 
چوتھی روایت:
قال وحدثنا مالک أنہ بلغہ أن علی ابن أبي طالب کان یقول: الأضحی یومان بعد یوم الأضحیٰ۔
حضرت امام مالک رحمۃﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھ تک یہ بات پہنچی کہ حضرت علی رضیﷲ عنہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ قربانی عید کے بعد دو دن تک(السنن الکبری / باب من قال الأضحی یوم النحر ویومین بعدہ ۹؍۵۵۲ رقم: ۱۹۲۵۴ دار الحدیث القاہرۃ)مشروع ہے۔ 
پانچویں روایت:
عن قتادۃ عن أنس قال: الذبح بعد النحر یومان۔ (السنن الکبریٰ / باب من قال الأضحی یوم النحر ویومین بعدہ ۹؍۵۵۳ رقم: ۱۹۲۵۵ دار الحدیث القاہرۃ)
حضرت انس رضیﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ قربانی عید کے بعد دو دن تک مشروع ہے۔ 
چھٹی روایت:
وقد ذکر الطحاوي في أحکام القرآن بسند جید عن ابن عباس قال: الأضحی یومان بعد یوم النحر۔ (إعلاء السنن ۱۷؍۲۳۸)
حضرت اما م طحاوی رحمہﷲ نے اچھی اور عمدہ سند سے احکام القرآن میں حضرت ابن عباس رضیﷲ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ قربانی یوم نحرکے بعد دو دن ہے۔ 
ساتویں روایت

من طریق ابن أبي شیبۃ قال: حدثنا زید بن حباب عن معاویۃ بن صالح حدثني أبو مریم سمعت أبا ہریرۃ یقول: الأضحی ثلاثۃ أیام۔ (إعلاء السنن ۱۷؍۲۳۶)

ابن ابی شیبہ نے زید بن حباب عن معاویہ بن صالح عن ابی مریم عن ابی ہریرہ رضی اﷲ عنہ یہ روایت نقل کی ہے کہ یہ فرماتے تھے کہ قربانی تین دن تک مشروع ہے۔
اِس روایت کی بھی سند صحیح ہے؛ اِس لئے کہ معاویہ بن صالح یہ رجال مسلم میں سے ہیں، اور بقیہ چاروں بھی صدوق ہیں، اور ابو مریم کے بارے میں حافظ ابن حجر نے یہ لکھا ہے کہ یہ ثقہ ہیں،مزید تفصیل کے لئے دیکھئے اعلاء السنن ۱۷؍۲۳۶۔ 
آٹھویں روایت:
من طریق ابن أبي شیبۃ نا جریر عن منصور عن مجاہد عن ماعز بن مالک بن ماعز الثقفي أن أباہ سمع عمر بن الخطاب یقول: إنما النحر في ہٰذہ الأیام الثلاثۃ۔ (إعلاء السنن ۱۷؍۲۳۵)
ابن ابی شبیہ نے بطریق جریر عن منصور عن مجاہد عن ماعز بن مالک بن ماعز الثقفی عن ابیہ یہ روایت بیان کی ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے تھے کہ قربانی اُن ہی تین دنوں یعنی ۱۰؍۱۱؍ اور ۱۲؍ذی الحجہ میں مشروع ہے۔ 
حضرت مجاہد رحمہﷲ کے مراسیل باتفاق علماء مقبول ہوتے ہیں؛ اِس لئے کہ وہ صرف ثقہ راوی ہی سے نقل کرتے ہیں؛ لہٰذا اِس روایت کے حجت ہونے میں بھی کوئی تأمل نہیں۔ 
نویں روایت:
وذکرہ ابن وہب عن ابن مسعود رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ (عمدۃ القاري شرح بخاري ۲۱؍۱۴۷)
اور یہی مسلک ابن وہب نے حضرت ابن مسعود رضیﷲ عنہ کا نقل کیا ہے کہ قربانی کے تین ہی دن ہیں۔ 
دسویں روایت:
عن عليؓ کان یقول: أیام النحر ثلاثۃ أیام أولہن أفضلہن۔ (عمدۃ القاري ۲۱؍۱۴۸)
حضرت علی رضیﷲ عنہ فرماتے تھے کہ قربانی کے تین دن ہیں پہلا دن افضل دن ہے۔ 
گیارہویں روایت:
عن ابن عباس وابن عمر مثلہ
حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہ اور حضرت ابن عمر قالا: النحر ثلاثۃ أیام، أولہا أفضلہا۔ (عمدۃ القاري ۲۱؍۱۴۸)
رضی ﷲ سے مروی ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں، پہلا دن افضل ہے۔کتاب النوازل ۵۶۹/۱۴تا۵۸۷)نوادر الفقہ:۸۰تا۸۳)شیخ یونس جون پوری)(ایام قربانی کی صحیح تعداد ۲۲تا۲۳)(قربانی صرف تین دن صفحہ: ۸)
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
7086592261
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے