ووٹ کی خریدوفروخت کا شرعی حکم

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

الجواب وباللہ التوفیق:
ووٹ کی خریدوفروخت کا حکم شرعی
مسئلہ: شرعاً ووٹ کی حیثیت شہادت، شفاعت اور وکالت کی سی ہے، گویا کہ جس شخص کو ووٹ دیا جاتا ہے اس کے حق میں ملک وملت کے خیر خواہ ہونیکی شہادت دی جاتی ہے، متعلقہ وکیل اورنمائندہ بنایاجاتا ہے اور ان تینوں حیثیتوں کے اعتبار سے ووٹ مالِ متقوم نہیں یعنی ایسا مال نہیںہے جس سے شرعاً نفع اٹھانا ممکن ہو، جبکہ شرعاً کسی بھی چیز کی خریدو فروخت جائز ہونے کیلئے اس کا مالِ متقوم ہونا ضروری ہے، اس لیے ووٹ کی خرید وفروخت شرعاًجائز نہیں ہے۔(۱)(المسائل المہمہ۱۶۷/۲)
واللہ اعلم بالصواب
——————————————————
الحجۃ علی ماقلنا
(۱) ما في ’’ الشامیۃ ‘‘: الشہادۃ إخبار صدق لإثبات حق ۔ (۱۱/۷۰)
ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘: الشفاعۃ ھي التوسط بالقول في وصول شخص إلی منفعۃ دنیویۃ أو أخرویۃ أو إلی خلاص من مضرۃ کذلک۔ (۲۶/۱۳۱)
ما في ’’ حاشیۃ الجوھرۃ النیرۃ ‘‘: الوکالۃ عقد تفویض ینیب فیہ شخص شخصاً آخر عن نفسہ في التصرف ۔ (۱/۶۳۶، کتاب الوکالۃ)
ما في ’’ معجم لغۃ الفقھاء ‘‘: المال المتقوم المال الذي یمکن الانتفاع بہ ۔
things with commercial value ۔ (ص۳۹۷)
ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘: اتفق الفقھاء علی صحۃ البیع إذا کان المعقود علیہ مالاً متقوماً محرزاً موجوداً مقدوراً علی تسلیمہ معلوماً للعاقدین لم یتعلق بہ حق الغیر ۔
(۵/۳۴۹۶، البیوع الممنوعۃ لسبب المعقود علیہ)
===========================
ووٹ کے عوض ملے روپیوں سے مسجد کی تعمیر
مسئلہ: آج کل الیکشن کے موقع پر مختلف پارٹیوں کے امیدواروں کی طرف سے ووٹروں کو ان کے حق میں ووٹ ڈالنے کیلئے جو روپئے دیئے جاتے ہیں، وہ رشوت ہے، جو نص قطعی سے حرام ہے، اس لیے اس طرح کے روپئے مسجد کی تعمیر ، یا مسجد ، عیدگاہ اور قبرستان کی زمین کی خریدی، اور ان کی چہار دیواری وغیرہ بنانے میں صرف کرنا شرعاً ناجائز وحرام ہے۔(۱)(المسائل المہمہ۲۵۴/۳)

واللہ اعلم بالصواب
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_
—————————————————–
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما فی ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {سمّٰعون للکَذِبِ أکّٰلون للسُّحْت} ۔ (المائدۃ : ۴۲)
ما فی ’’ أحکام القرآن للجصاص ‘‘ : ولا خلاف فی تحریم الرشا علی الأحکام لأنہ فی السحت الذی حرمہ اللہ فی کتابہ، واتفقت الأمۃ علیہ ۔ (۲/۵۴۱، باب الرشوۃ، سورۃ المائدۃ)
ما فی ’’روح المعاني ‘‘ : عن ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما قال : قال رسول اللہ ﷺ : ’’ کل لحم نبت من سحت فالنار أولی بہ، قیل: یا رسول اللہ ! ما السحت ؟ قال : الرشوۃ فی الحکم ‘‘ ۔ (۴/۲۰۵)
ما فی ’’ الجامع الصغیر ‘‘ : ’’ لعن اللہ الراشی والمرتشی الذی یمشی بینہما ‘‘ ۔
(ص:۴۴، رقم الحدیث: ۷۲۵۵، السنن للترمذی ، رقم الحدیث: ۱۳۳۶، کتاب الأحکام، السنن لأبی داود، رقم الحدیث:۳۵۸۰، کتاب الأقضیۃ، باب کراہیۃ الرشوۃ، السنن لإبن ماجۃ ، رقم الحدیث:۲۳۱۳،کتاب الأحکام ، باب التغلیظ فی الرشوۃ) ما فی ’’ سبل السلام شرح بلوغ المـرام ‘‘ : الرشوۃ حرام بالإجماع سواء کانت للقاضی أو للعامل علی الصدقۃ أو لغیرہما ۔ (۴/۱۴۷۱، الرشوۃ للقاضی والہدیۃ، المال المأخوذ ظلماً:۱/۴۰۸)

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے