کیا منت کی قربانی کا گوشت کھانا جائز ہے

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

مسئلہ نمبر 122

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت مفتی صاحب سلمہ ۔۔۔۔ حضرت نذر قربانی کا گوشت کون کھا سکتا ہے اور کون نہیں کھا سکتے ،بعض کتب فقہ دیکھ کر مجھے اشکال ہورہا ہے ،آںجناب سے امید ہے کہ مسئلہ کو تفصیلا لکھیں گے۔(مفتی محمد فضیل احمد غفرلہ بیچاماری الہند)

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق:
حامداً ومصلیا اما بعد:
جناب مفتی ۔۔۔۔۔ سلمہ آنجناب کے حکم سے چند کتب دیکھنے کا شرف ہوا ۔
عموماً سبھی کتب فقہ اردو و عربی میں یہ مسئلہ مطلقا لکھا ہوا ہے کہ اضحیہ منذورہ کا گوشت خود ناذر اور مالدار کیلئے کھانا درست نہیں ہے۔ اور اُنہیں کتب فقہ کے مطابق احقر نے بھی ۵،ذوالقعدہ ۱۴۴۱؁ھ م ۲۷ جون ۰۲۰۲؁ء میں جواب مرتب کیا تھا اور اسی طرح مسئلہ بتاتا رہا۔
اب چند کتب دیکھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ اضحیہ منذورہ کی دو قسمیں ہیں:
(۱)نذر ذبح (۲) نذر اضحیہ۔
اب اسکی تفصیل اس طرح ہے کہ” نذر ذبح میں صرف ذبح اور تصدق مقصود ہوتا ہے، اس ذبح میں تقرب الی اللہ مقصود نہیں ہوتا ہے، اور اس ذبح کا وقت بھی متعین نہیں ہوتا ہے بلکہ کسی بھی وقت نذر پوری کرنے کے لیے جانور ذبح کرنا جائز ہوتا ہے، اور اس نذر کا گوشت ناذر اور انکی بیوی اسی طرح ان کے اصول و فروع اور صاحب ثروت کے لیے کھانا درست نہیں ہے، اس کا تصدق واجب ہے۔(٢)اور نذر اضحیہ میں اصل مقصد تقرب الی اللہ ہوتا ہے، اس میں محض ذبح کرنا مقصد نہیں ہوتا بلکہ ذبح کے ذریعہ سے ایک عبادت کی ادائیگی اور رضائے الٰہی مقصد ہوتی ہے اور ضمنا اس کا گوشت کھانا بھی مقصد ہوتا ہے اور اس ذبح میں تصدق اصل مقصد نہیں ہوتا ہے ۔
اگر مذکورہ فرق ملحوظ نہ رہے تو طرح طرح کے اشتباہ و شبہ اور تردد کی وجہ سے حکم لگانے میں فرق آئیگا، اور بعد کے فقہاء کے اقوال اسی وجہ سے مختلف ہو چکے ہیں ، چنانچہ بعض فقہاء نے نذر اضحیہ کا گوشت کھانا ناذر اور غنی دونوں کے لیے ناجائز لکھا ہے، جیسا کہ امام فخر الدین زیلعی نے صراحت کے ساتھ ناجائز لکھا ہے، اور باقی جتنے فقہاء نے اس کے ناجائز ہونے کو لکھا ہے وہ سب ان کے بعد کے فقہاء متأخرین ہیں ، کسی نے مجمل لکھا اور کسی نے صراحتاً لکھا، اور یہ اشتباہ صرف اس وجہ سے ہوا ہے کہ نذر ذبح اور نذر اضحیہ کے حکم کے درمیان فرق کو واضح کرکے نہیں لکھا گیا ہے، بلکہ مجمل اور مجموعی حکم لکھا گیا کہ ناذر اور غنی کے لیے منذورہ کا گوشت کھانا جائز نہیں ، پھر اسی اصول کے اندر اضحیہ منذورہ کو بھی شامل کردیا گیا ہے، اس تمہید کے بعد اضحیہ منذورہ کے متعلق جو کچھ سمجھ میں آیا ہے وہ حسب ذیل ہے کہ جو آدمی صاحب نصاب نہ ہو یا بالکل فقیر ہو اس نے قربانی کی نیت سے جو جانور خریدا ہے اس کے خریدنے کے وقت وہ اضحیہ منذورہ کے حکم میں ہو جاتا ہے، اب اس کا گوشت کھانا اس کے لیے اور غنی کے لیے جائز ہے یا نہیں ؟ تو اس بارے میں متأخرین فقہاء میں اسی بنیاد پر اختلاف ہوا جو اوپر ذکر کیا گیا ہے، چنانچہ متأخرین فقہاء میں سے فقیہ ابو السعود اور قاضی برہان الدین وغیرہ نے فقیر اور غنی کے لیے اس کا گوشت کھانے کو ناجائز لکھا ہے.

وذكر ابو السعود ان شرائه لها بمنزلة النذر فعليه التصدق بها اقول التعليل بانها بمنزلة النذر مصرح به في كلامهم وفي التاتارخانية سئل القاضي بديع الدين عن الفقير اذا اشترا شاة لها هل يحل له الأكل قال نعم قال القاضي برهان الدين: لا يحل. (شامي ٤٧٣/٩ كتاب الاضحية ،دارالكتب العلمية بيروت)

اسی کے پیش نظر حضرت تھانویؒ نے ہندیہ کے اس جزئیہ کو نقل فرما کر ناجائز لکھا ہے جو نہایہ کے حوالہ سے ہندیہ میں لکھا ہوا ہے۔

اما في الاضحية المنذورة سواء كانت من الغني او الفقير فليس لصاحبها ان ياكل ولا ان يأكل الغني هكذا في النهاية.(الفتاوي الهندية ٣٤٦/٥كتاب الاضحية ،قبیل الباب السادس فی بیان ما یستحب فی الأضحیة،دارالفكر بيروت)

اور ساتھ میں ہندیہ کے حوالے سے زیلعی کا جزئیہ بھی نقل فرمادیا ہے اور دوسرے فتویٰ میں حضرت تھانویؒ نے یہ لکھا ہے کہ اگر زبان سے نذر مانی ہے تو اس کا کھانا خود اس کیلئے تو جائز نہیں ہے، اور اگر مثل نذر کے اس کے اوپر واجب ہو گیا ہو تو اس کا کھانا جائز ہے، اور اس میں مطلق نذر سے متعلق جزئیہ نقل فرمایا ہے، اضحیہ منذورہ سے متعلق جزئیہ نقل نہیں فرمایا ہے۔ (امداد الفتاویٰ٥٤٣/٣و۵۵۵,كتاب الذبائح والاضحية والصيد والعقيقة،مكتبه:تهانوي ديوبند)امداد الفتاوی جدید مطول۲۴۷/۸تا ۲۴۹ و۲۷۵تا۲۷۸،كتاب الذبائح والاضحية والصيد والعقيقة،زکریا بکڈپو دیوبند الہند)میں یہ دونوں فتوے موجود ہیں ، اس کے برخلاف علامہ شامی علیہ الرحمہ نے صاحب بدائع کی صراحت کی طرف اشارہ کرکے لکھا ہے کہ فقیر نے قربانی کے لیے جو جانور خریدا ہے اس کا گوشت خود فقیر کے لیے جائز اور حلال ہے، اور پھر تاتارخانیۃ کے حوالہ سے قاضی بدر الدین کا قول بھی نقل فرمایا ہے کہ اس کا گوشت کھانا جائز اور حلال ہے.

ظلاہر کلامہ أن الواجبۃ علی الفقیر بالشراء لہ الأکل منہا وقولہ: وفی التاتارخانیۃ: سئل القاضی بدیع الدین عن الفقیر: إذا اشتری شاۃ لہا ہل یحل لہا الأکل؟ قال: نعم۔(شامی، زکریا ۹/۴۷۳، کراچی ۶/۳۲۷، تاتارخانیۃ ۱۷/۴۱۳، رقم: ۲۷۶۷۳)

ظاهر كلامه ان الواجبة على الفقير بالشراء له الاكل منها وقوله وفي التاتارخانية: سئل القاضي بديع الدين عن الفقير اذا اشترى شاة لها هل يحل لها الاكل قال: نعم. (شامي ٤٧٣/٩كتاب الاضحية دارالكتب العلمية بيروت)

شامی اور تاتارخانیہ کی ان عبارات سے فقیر کے خریدے ہوئے اضحیۂ منذورہ کا گوشت خود فقیر اور غنی کے لیے کھانا بلا شبہ جائز ہے، اسی کے پیش نظر حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانیؒ نے اپنے فتاویٰ میں واضح الفاظ کے ساتھ لکھا ہے کہ فقیر پر اضحیہ خریدنے سے اضحیہ واجب ہوجاتا ہے، اور وہ اضحیہ مثل منذورہ کے ہو جاتا ہے، اور نذر میں سے خود کھانا اور اغنیاء کو کھلانا درست نہیں ہے۔ ساتھ میں مفتی صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب بڑے جانور کو سات آدمیوں نے مل کر خریدا ہو جن میں ایک فقیر بھی ہو تو فقیر کا حصہ منذورہ کے حکم میں ہونے کے باوجود سب کی قربانی بلا تردد جائز ہو جاتی ہے، اور خود فقیر کا اس میں سے کھانا اور اغنیاء کو کھلانا درست ہے۔ (مستفاد: فتاویٰ دار العلوم دیوبند ٥٦٨/١٥ قرباني كا بيان ،مكتبه:دارالعلوم ديوبند)
مفتی صاحب کی عبارت پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے پہلے یہ بات واضح کردی ہے کہ نذر کے گوشت میں سے خود کھانا اور اغنیاء کو کھلانا درست نہیں ہے پھر اس کے بعد قول راجح نقل فرمایا ہے کہ جائز اور درست ہے، لہٰذا اب غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کس نذر میں سے کھانا جائز نہیں اور کس نذر میں سے کھانا جائز ہے؟
لہذا صورت مسئولہ میں اگر ناذر نے ایام نحر میں جانور قرباني کرنے کی منت مانی ہے تو اسکا گوشت ہر کوئی کھا سکتا ہے اور اگر ناذر نے عام دنوں میں جانور ذبح کرنے کی منت مانی ہے تو اسکا گوشت خود ناذر اور انکے اصول وفروع اور اسکی بیوی نہیں کھا سکتے ہیں۔ اور اسی کو صاحب بدائع نے وضاحت کے ساتھ تحریر فرمایا ہے، اور فقیہ العصر حضرت اقدس مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ نے بھی بذل المجہود میں اسی کو واضح فرمایا ہے، اس سے ان کا رجحان بھی یہی ثابت ہوا کہ نذر اضحیہ کا گوشت کھانا ناذر اور غنی دونوں کے لیے جائز ہے، چاہے ناذر فقیر ہو یا غنی، ہر ایک کا حکم یکساں ہے۔

وجملة الكلام فيه أن الدماء أنواع ثلاثة:.
نوع يجوز لصاحبه أن يأكل منه بالإجماع، ونوع لا يجوز له أن يأكل منه بالإجماع، ونوع اختلف فيه، الأول دم الأضحية نفلا كان أو واجبا منذورا كان أو واجبا مبتدأ، والثاني دم الإحصار وجزاء الصيد ودم الكفارة الواجبة بسبب الجناية على الإحرام كحلق الرأس ولبس المخيط والجماع بعد الوقوف بعرفة وغير ذلك من الجنايات، ودم النذر بالذبح، والثالث دم المتعة والقران، فعندنا يؤكل وعند الشافعي – رحمه الله – لا يؤكل، وهي من مسائل المناسك ثم كل دم يجوز له أن يأكل منه لا يجب عليه أن يتصدق به بعد الذبح؛ إذ لو وجب عليه التصدق لما جاز له أن يأكل منه، وكل دم لا يجوز له أن يأكل منه يجب عليه أن يتصدق به بعد الذبح إذ لو لم يجب لأدى إلى التسييب.(بدائع الصنائع ٣٢٨/٦، كتاب التضحية، فصل في بيان ما يستحب قبل التضحية وبعدها وما يكره،دارالكتب العلمية بيروت)(بذل المجهود ٢٥/٧كتاب الضحايا،دارالكتب العلمية بيروت)

وان نذر اضحية في ذمته ثم ذبحها فله أن ياكل منها وقال القاضي من اصحابنا من منع الأكل منها وهو ظاهر كلام احمد وبناه على الهدي المنذور.( المغنى للابن قدامة٢٥/٨،كتاب الاضاحي ،دارالكتب العلمية بيروت)

لا يجوز الدفع الى ابيه وجد وان علا ولا الى ولاده وولد ولده وان سفل……………….. وهذا الحكم لا يختص الزكاة بل كل صدقة واجبة لا يجوز دفعها له كاحد الزوجين والكفارات وصدقة الفطر والنذور …………….. واما بقية الصدقات المفروضة الواجبة كالعشر والكفارات والنذور وصدقة الفطر فلا يجوز صرفها للغني لعمو قوله عليه السلام” لا تحل صدقة للغني.(البحر الرائق ٤٢٥/٢تا٤٢٨،کتاب الزکاۃ/باب المصرف،دار الکتاب العلمیة بیروت)۔

وهو مصرف ايضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة.(شامي۲۸۳/۳،کتاب الزکاۃ/باب المصرف،دار الکتاب العلمیة بیروت)(مستفاد: فتاویٰ قاسمیہ ٤٩٥/٢٢,و ۷۹/۱۷تا ۸۳ کتاب الایمان والنذر)(احسن الفتاوي ٥٢٥/٧تا٥٣٠،كتاب الاضحية والعقيقة،ایچ ایم سعید کراچی)امداد الفتاوی جدید مطول۲۴۷/۸تا ۲۴۹ و۲۷۵تا۲۷۸،كتاب الذبائح والاضحية والصيد والعقيقة،زکریا بکڈپو دیوبند الہند)

واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الہند
٢٣،ذی الحجہ ۱۴۴۳ھ م ٢٣ جولائی ۲۰۲۲ء بروز اتوار

تائید کنندگان
مفتی مرغوب الرحمن القاسمی غفرلہ
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ
مفتی محمد اویس احمد القاسمی غفرلہ
مفتی امام الدین القاسمی غفرلہ

 

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے