مسئلہ نمبر 43
السلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ۔
معزز علمائے کرام و مفتیان شرع دین مبین۔
عیدین کی خطبہ سنت مؤکدہ ہے یا غیر مؤ کدہ؟
مفتی بہ قول کیا ہے؟براہ مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں۔(المستفتی:ولی الرحمن بن شفیق الرحمن غفر لھما،ہوجائی،آسام الھند
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب وبہ التوفیق
اس سلسلے میں کوئی صریح جزئیہ نہیں ملا البتہ فقہاء کے اصطلاحات سے معلوم ہوتا ہے کہ عیدین میں دو خطبے بعد نماز عید پڑھنا سنّت مؤکدہ ہے،اسلئے کہ فقہاء جب مطلق سنت بولتے ہیں اس سے عموماً سنت مؤکدہ مراد ہوتا ہے،اور عیدین میں خطبہ کا سنت مؤکدہ ہونا اکابرین کے بعض فتاویٰ سے بھی ثابت ہوتا ہے۔
امداد المفتین میں للشیخ مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ؛
خطبہ عید کا پڑھنا اور سننا سنت مؤکدہ ہے ۔ لیکن جب خطبہ پڑھا جاوے اور کوئی شخص وہاں موجود ہو تو خطبہ سننا واجب ہو جاتا ہے ۔ اس وقت کلام وغیرہ کرنا نا جائز ہے اور شور مچانا سخت گناہ ہے۔(امداد المفتین۳۴۶/۲فصل فی العیدین،کتاب الصلٰوۃ،دارالاشاعت)۔
کتاب النوازل میں لکھا ہے کہ
عید کی نماز میں خطبہ سے پہلے نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور عیدین میں خطبہ سنتِ مؤکدہ ہے، درمیان میں نماز جنازہ پڑھنے سے اس کی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ (کتاب النوازل۱۳۹/۶)۔
عبارت ملاحظہ فرمائیں
خُطْبَتَا الْعِيدِ سُنَّةٌ لاَ يَجِبُ حُضُورُهُمَا وَلاَ اسْتِمَاعُهُمَا، لِحَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ قَال: شَهِدْتُ مَعَ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِيدَ فَلَمَّا قَضَى الصَّلاَةَ قَال: إِنَّا نَخْطُبُ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَجْلِسَ لِلْخُطْبَةِ فَلْيَجْلِسْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَذْهَبَ فَلْيَذْهَبْ.(أخرجه أبو داود۶۸۳/۱، تحقيق عزت عبيد دعاس) والحاكم ۲۹۵/۱، دائرة المعارف العثمانية) وصححه ووافقه الذهبي.(الموسوعة الفقهیة الكويتية،٣٦٣/١٩
ويخطب بعدها خطبتين وهما سنة۔ (الدر المختار علی رد المحتار / کتاب الصلاۃ باب العیدین ۵۷/۳ زکریا،۱۷۵/۲ کراچی،۵۷/۳،دار الکتاب العلمیہ،ہدایہ۱۷۴/۱)۔
قولہ: فإنہا سنۃ بعدہا… حتی لو لم یخطب أصلاً صحّ وأساء لترک السنۃ۔ (البحر الرائق / کتاب الصلاۃ، باب العیدین ۱۶۶/۲کراچی)۔
(قَوْلُهُ: لَكِنَّهُ تَعْرِيفٌ لِمُطْلَقِها) أيْ لِمطْلق السنة الشامل لِقسميها، وهما السنة المؤَكّدَة المسَماةُ سُنةَ الهَدْيِ، وغيْرُ المُؤكدةِ المسَماةُ سُنةَ الزوائِدِ
وأمّا المُسْتَحَبُّ المُرادِفُ لِلنَّفْلِ والمَندُوبِ فَهُوَ قَسِيمٌ لَها لا قِسْمٌ مِنها، كَما قَدَّمْناهُ، فافْهَمْ، وأفادَ بِالِاسْتِدْراكِ أنَّ المُرادَ مِن السُّنَّةِ هُنا هُوَ القِسْمُ الأوَّلُ، وبِهِ صَرَّحَ فِي النَّهْرِ تَأمَّلْ.(شامي ٢٢١/١كتاب الطہارت،دارالکتاب العلمیہ)۔
السنة:اذا اطلق فالمراد به السنة المؤكدة وکذا سنۃ الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وان کان بہ یطلق علی سنۃ الصحابۃ ایضا اشارہ الیہ الاسفر ایینی فی حواشیہ وغیرہ.(دراسات وابحاث المفتی المشایخ خلیل المیس۹۰/۲تا۹۱،دار الکتاب العلمیہ)وکذا جامع المضمرات والمشکلات۳۷/۲القسم الاول والفصل الثانی،دار الکتاب العلمیہ)(فتاویٰ محمودیہ۲۰۹/۸ فاروقیہ کراچی)جواہر الفقہ ۵۲۲/۲)(آپ کے مسائل اور انکا حل۱۵۸/۴مکتبہ لدھیانوی کراچی)(کتاب النوازل ۱۳۹/۶،نماز عید کے بعد خطبہ سے قبل نماز جنازہ پڑھنا)(امداد المفتین۳۴۶/۲کتاب الصلٰوۃ،دارالاشاعت)(فتاویٰ دارالعلوم زکریا ۵۸۹/۲تا۵۹۰)۔
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام الھند
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
۲۷رمضانُ المبارک ۱۴۴۱ھ م ۲۱ مئی ۲۰۲۰ء بروز جمعرات بعد نماز فجر
الجواب صحیح
مفتی سعود مرشد القاسمی غفرلہ
مفتی محمد زبیر القاسمی غفرلہ
مفتی عطاء الرحمن بڑودوی گجرات
مفتی مرغوب الرحمن القاسمی غفرلہ
مفتی محمد مختار حسین الحسینی غفرلہ
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الھند