کیا لاک ڈاؤن کی وجہ سے اعتکاف کو ترک کرنا جائز ہے۔؟

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں



مسئلہ نمبر 38
 السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکات
معزز علمائے کرام و مفتیان شرع دین متین۔۔
رمضان الکریم کی آخری عشرہ کی جو اعتکاف سنت مؤکدہ کفایہ محلہ والوں پر ہے، وہ 
اعتکاف لوک ڈاؤن کے چلتے جہاں مسجد میں تین چار آدمی رہتے ہیں وہ سب محلے کے 
نہیں ہیں، اب اعتکاف کو چھوڑ دیا جائے یا کیسے کیا جائے؟براہ مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں۔(
المستفتی: مولانا محمد ولی الرحمن غفرلہ،آسام، ہوجائی۔الھند۔امام وخطیب پابیجوری انچلک بڑی مسجد ہوجائی آسام
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب وبہ التوفیق
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے،یعنی محلہ کی مسجد میں کسی ایک شخص کا بہ نیت اعتکاف بیسویں تاریخ کو غروب آفتاب سے کچھ دیر پہلے مسجد پہنچ جانا اور عید کا چاند ثابت ہونے تک مسجدہی میں رہنا سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے،اسلئے ہر محلہ کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اپنی مسجد میں اعتکاف کریں چاہے ایک آدمی ہی کیوں نہ ہو،ہاں اگر دوسرے محلے کے لوگوں کو مدعو کرکے اپنی مسجد میں اعتکاف میں بٹھایا جائے تو اس سے بھی سنیت ادا ہو جائے گا اور جس مسجد میں بٹھایا جائے گا اس مسجد کے متعلق لوگ گناہ سے بچ جائیں گے،مگر محلہ والوں کو چاہیے کہ خود ہی اعتکاف کریں، دوسرے شخص سے اعتکاف کراکے خود اس عظیم کام سے محروم نہ رہیں۔لہذا صورت مسئولہ میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے مسجد میں مقیم امام یا خادم صاحبان اگر اعتکاف کرلیں تو متعلق مسجد کے سب افراد سے سنت مؤکدہ علی الکفایہ ساقط ہو جائیگا،اور سب لوگ گناہ سے بچ جائیں گے۔اور اگر کوئی بھی اعتکاف نہ کریں تو سب کے سب گناہ گار ہونگے۔
مزید ایک بات کی وضاحت مناسب سمجھتا ہوں کہ بعض کتب میں ہر ہر محلے کے ہر ہر مسجد میں اعتکاف کرنا سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ لکھا ہے،اور بعض میں شہر یا محلے کے کسی بھی مسجد میں اعتکاف کرنے سے دوسرے لوگ گناہ سے بچ جائیں گے لکھا ہے،یعنی ہر محلے کی مسجد میں اعتکاف کرنا ضروری نہیں ہے۔
تو اسکا جواب یہ ہے کہ اولا تو یہ کوشش کرنا چاہیے کہ ایک بھی مسجد اعتکاف سے خالی نہ رہے،ہاں اگر عذر ہو تو پھر محلے کی کسی بھی ایک مسجد میں اعتکاف کرلیا جائے تو پورے محلہ کے لوگ ترکِ سنت کے گناہ سے ان شاء اللہ بری ہوجائیں گے۔ لیکن عام دنوں میں اس پر عمل نہ کریں۔بلکہ عام دنوں میں ہر مسجد میں اعتکاف کرنا چاہیے۔

فتاویٰ محمودیہ میں لکھا ہے کہ
اعلی بات یہ ہے کہ ہر مسجد میں کم از کم ایک آدمی اعتکاف کرے، اس سنت علی الکفایہ کی طرف بہت غفلت ہے،جو کہ بہت بڑی محرومی ہے،اگر محلہ یا شہر میں ایک بھی معتکف ہے تو کافی ہوجائیگا،مطلب یہ ہے کہ اگر کسی محلہ میں کئی مسجدیں ہو تو بہتر یہ ہے کہ ہر مسجد میں اعتکاف ہو لیکن اگر محلہ کی کسی ایک مسجد میں بھی اعتکاف کرلیا جائے تو پورے محلہ کے لوگ ترکِ سنت کے گناہ سے ان شاء اللہ بری ہوجائیں گے۔(فتاویٰ محمودیہ فاروقیہ کراچی،۲۲۲/۱۰) (محقق ومدلل جدید مسائل،۲۶۳/۱

دارالعلوم دیوبند کے ویب سائٹ پر ایک سوال کا جواب اس طرح لکھا ہوا ہے۔
اگرچہ واجب تو نہیں مگر اعلیٰ وافضل یہی ہے کہ شہر اور گاوٴں کی ہرمسجد میں اعتکاف کیا جائے تاہم چھوٹے گاوٴں میں ایک مسجد میں اور شہر میں ہرمحلہ کی کم ازکم ایک مسجد میں اعتکاف کرلیا جائے تو سنت علی الکفایہ ادا ہوجائے گی، ہکذا یفہم من احسن الفتاوی فی باب الاعتکاف۔۔(دارالافتاء دارالعلوم دیوبند: فتاویٰ نمبر:41527

کتاب الفتاویٰ میں لکھا ہے کہ
اعتکاف سنت کفایہ ہے ،یعنی ایک یا چند اشخاص اعتکاف کرلیں تو سب بریٔ الذمہ ہوجائیں گے، اور اگر کسی نے اعتکاف نہیں کیا تو سبھی تارکِ سنت کہلائیں گے ،البتہ یہ سوال اہم ہے کہ ایک ہی محلہ میں کئی مسجدیں ہوں، تو کیا سنتِ اعتکاف کی ادائیگی کے لئے ہر مسجد میں اعتکاف ضروری ہے ، یا محلہ کی ایک مسجد میں اعتکاف کرلینا کافی ہے ؟ اس سلسلہ میں اعتکاف کی نسبت سے کوئی صراحت نہیں ملتی ، البتہ جیسے اعتکاف سنت کفایہ ہے، اسی طرح مسجد میں تراویح کی جماعت بھی سنت کفایہ ہے، اور تراویح کے بارے میں فقہاء نے اس سوال کو اٹھایاہے کہ پورے شہر میں ایک مسجد میں جماعت تراویح سنت کی ادائیگی کے لئے کافی ہے یا ہر محلہ میں ، ایک مسجد میں تراویح کافی ہے؟ یا محلہ کی ہر مسجد میں تراویح ضروری ہے ؟ فقہاء کے یہاں اس سلسلہ میں تینوں اقوال موجود ہیں، علامہ طحطاوی ؒ نے شہر کی ایک مسجد میں کافی قرار دیا ہے، علامہ حصکفی ؒنے ہر مسجد کے لئے ضروری قرار دیا ہے ، اور خاتم الفقہاء علامہ شامی ؒ نے محلہ کی ایک مسجد میں تراویح کی ادا ئیگی کو کافی سمجھا ہے ، اور اس سلسلہ میں فقہاء کی بعض عبارتوں سے اپنے نقطۂ نظر کی تائید و توثیق بھی نقل کی ہے، علامہ شامی ہی کا قول زیادہ درست اور مبنی بر اعتدال معلوم ہوتا ہے ، پس جو حکم تراویح کاہے وہی حکم اعتکاف کا بھی ہونا چاہئے ،یعنی اگر ایک محلہ میں کئی مسجدیں ہوں ، تو بہتر یہ ہے کہ ہر مسجد میں اعتکاف ہو، لیکن اگر ان میں سے ایک مسجد میں بھی اعتکاف کرلیا جائے تو پورے محلہ کے لوگ ترک سنت کے گناہ سے ان شاء اللہ بری ہوجائیں گے۔(کتاب الفتاویٰ،۴۵۴/۳)احسن الفتاوی،۵۰۸/۴تا۵۰۹،ایچ ایم سعید۔

فتاویٰ دارالعلوم زکریا میں لکھا ہے کہ 
اعتکاف سنت علی الکفایہ ہے،لہذا ہر محلہ کی مسجد میں ہونا چاہیے،اگر چہ کوئی صریح عبارت نہیں ملی،لیکن تراویح پر قیاس کرتے ہوئے یہ کہاں جاسکتا ہے کہ جس طرح تراویح ہر محلہ کی مسجد میں مسنون ہے اس طرح اعتکاف بھی ہر محلہ کی مسجد میں مسنون ہے۔(فتاویٰ دارالعلوم زکریا ۳۲۸/۳)(فتاویٰ حقانیہ ۲۰۵/۴)

فتاویٰ حقانیہ میں لکھا ہے کہ 
رمضان کے مہینے میں اعتکاف سنت علی الکفایہ ہے،لیکن فقہی ذخائر میں اس بات کی کوئی تصریح نظر سے نہیں گزری ہے کہ ہر محلے کے ہر مسجد میں اعتکاف کرنا ضروری ہے،البتہ علامہ شامی کی ایک تشبیہ سے جو انہوں نے اعتکاف کو تراویح کے ساتھ دی ہے معلوم ہوتا ہے کہ تراویح کی طرح اعتکاف بھی ہر محلے کی ہر مسجد میں مسنون ہے(فتاویٰ حقانیہ ۲۰۵/۴

عبارت ملاحظہ فرمائیں
وقیل سنۃ علی الکفایۃ حتی لو ترک أہل بلدۃ بأسرہم یلحقہم الاسائۃ وإلا فلا کالتاذین۔ (مجمع الأنہر جدید۳۷۶/۱،قدیم۲۵۵/۱)( شامی زکریا۴۳۰/۳
وسنۃ مؤکدۃ في العشر الأخیر من رمضان أي سنۃ کفایۃ(درمختار) فإذا قام بھاالبعض سقط الطلب عن الباقین فلم یأثموا۔(شامی، کتاب الصوم ، باب الاعتکاف، کراچی۴۴۴/۲،زکریا۴۳۰/۳
الاعتکاف سنۃ مؤکدۃ مطلقاً ، وقیل سنۃ علی الکفایۃ حتی یترک في بلدۃ لاساءوا.(جامع الرموز،۱/۳۷۶ ، فصل في الاعتکاف،ط:کریمیہ
والمشہور عند مشایخنا ان یدخل المعتکف بعد العصر قبل الغروب من الیوم العشیر من شہر رمضان لیدخل اللیلۃ اتحادیۃ والعشرین فی الاعتکاف،(رسائل الارکان،ص:۱۲۰
قال الشافعی:اذا اراد ان یعتکف العشر الاواخر دخل قبل المغرب،فاذا اہل ھلال شوال فقد اتم العشر،وھو قول ابی حنیفۃ واصحابہ۔(الاستذکار،۲۹۷/۱۰، دار قتیبۃ للطباعۃ والنشر،دمشق
وکل من یرید ان یتم لہ اعتکاف العشر لزمہ ان یدخل المسجد معتکفا قبیل غروب الشمس من العشرین والا لم یتم لہ العشر،فان اللیال الماضیۃ لا حقۃ بلایام التالیۃ.(معارف السنن،۵۱۷/۵،ط: المکتبۃ العشرفیۃ دیوبند
 {وسارعوا إلی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضہا السمٰوٰت والأرض ، أعدت للمتقین
(آل عمران :۱۳۳
وقولہ تعالی : {فاستبقوا الخیرات} (سورۃ البقرۃ : ۱۴۸ 
وسنۃ مؤکدۃ ۔۔۔۔ سنۃ کفایۃ ، نظیرہا إقامۃ التراویح بالجماعۃ ، فإذا قام بہا البعض سقط الطلب عن الباقین۔(الدر المختار مع رد المحتار،۳/۳۸۳ ، کتاب الصوم ، باب الاعتکاف
قولہ : (والجماعۃ فیہا سنۃ علی الکفایۃ) أفاد أن أصل التراویح سنۃ عین ، وہل المراد أنہا سنۃ کفایۃ لأہل کل مسجد من البلدۃ أو مسجد واحد منہا أو من المحلۃ ، ظاہر کلام الشارح الأول ، حتی لو ترک أہل محلۃ کلہم الجماعۃ فقد ترکوا السنۃ وأساء وا.(رد المحتار،۲/۴۳۱ ، کتاب الصلاۃ ، صلاۃ التراویح ، مجمع الأنہر:۱/۳۷۹ ، باب الاعتکاف)(مستفاد :محقق ومدلل جدید مسائل۲۶۷/۱)(المسائل المہمہ۱۷۴/۳)( فتاوی محمودیہ فاروقیہ کراچی،۲۳۰/۱۰) فتاویٰ قاسمیہ۵۵۱/۱۱تا۵۵۲) (مسائل رفعت قاسمی،۱۸/۴تا۱۹)(فتاوی محمودیہ ۲۲۲/۱۰،فاروقیہ کراچی)(کتاب الفتاوی ۴۵۴/۳
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام الھند
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
15رمضان المبارک 1441 ھ بمطابق 9مئی 2020ء، بروز سینچری، بعد نماز تراویح۔
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے