کیا پان کھانا جائز ہے؟

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

مسئلہ نمبر 46
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
حضرت مفتی صاحب آپ سے ایک مسئلہ کی وضاحت چاہتا ہوں کہ ہم کھانا وغیرہ کھانے کے بعد پان کھاتے ہیں یا کبھی کبھار ایسے ہی پان کھاتے ہیں تو اسکی شرعی حیثیت کیا ہے؟کیا پان کھانا جائز ہے؟بعض لوگ حرام کہتے ہیں۔آپ سے تفصیلی وضاحت مطلوب ہے۔(مستفتی مولانا محمد مشتاق احمد ،مدرس مدرسہ عربیہ حسینیہ ڈیڑھ گاؤں،گولاگھاٹ،آسام الھند)۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب وبہ التوفیق:۔
اس سلسلے میں فقہاء کے یہاں دو چیزوں کی تصریحات ملتی ہے،اول یہ ہے کہ پان کو چونے کے ساتھ کھانا
دوم یہ ہے کہ پان کو تمبا کو کے ساتھ کھانا۔دونوں میں قدرے اختلاف ہے،فقہاء نے لکھا ہے کہ چونا مٹی کے قبیل سے ہے اور مٹی کھانا منع ہے ، اس لئے کہ وہ صحت کے لئے مضر ہے اور صحت اللہ تعالی کی امانت ہے ، اس کی حفاظت ہر انسان کا اسلامی اور انسانی فریضہ ہے ، لیکن اس کی اتنی مقدار جو صحت کے لئے مضر نہ ہو ، کھالی جائے تو گناہ نہیں ہے۔اسی طرح چونا کے بارے میں نصاب الاحتساب و نفع المفتی والسائل میں بصراحت ذکر ہے کہ پان میں چونا کھانا مباح ہے۔  
دوسری صورت یہ ہے کہ پان میں تمباکو کا کھانا اس بارے میں فقہاء کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے بعض حرام کے قائل ہے،بعض کے نزدیک مباح ہے،اور بعض کے نزدیک مکروہ ہے۔تمباکو نوشی کے جواز کی رائے اختیار کر نے والوں میں حنفیہ میں سے شیخ عبد الغنی نابلسی ہیں ، تمباکو کی اباحت کے موضوع پر انہوں نے ایک رسالہ بھی لکھا ہے جس کا نام ہے ” الصلح بين الإخوان في إباحة شرب الدخان “ ، أن ہی میں صاحب الدر المختار،ابن عابدین، صاحب فتاویٰ مہدیہ شیخ محمد عباس مہدی اور الاشباہ والنظائر کے شارح حموی ہیں۔ان حضرات کے نزدیک تمباکو کھانا جائز ہے،ہاں کسی کو نقصان پہنچتا ہے تو ان کیلئے کھانا درست نہیں ہے،اسی طرح جو حضرات حرام قرار دیتے ہیں انکا جواب مسکر پر محمول ہے،اور جو حضرات مکروہ کہتے ہیں انکے نزدیک نشہ ومسکر نہ ہو نے کی صورت میں بدبو کی وجہ سے مکروہ تنزیہی ہیں۔

امداد الفتاوی میں لکھا ہے کہ
بلا ضرورت کراہت تو سمجھتا ہوں ، اور بضرورت کھانا اور پینا دونوں جائز ہیں ، اور ضرورت میں نفس اکل مکروہ نہیں ، دوسرے عوارض خارجیہ سے گو کراہت ہوجاوے اور عوارض کی خفّت و شدت سے کراہت کی شدّت وخفت میں تفاوت ہوگا، اور سُکر تمباکو میں نہیں ہے صرف حدّت ہے، اسی سے پریشانی ہوتی ہے؛ لیکن عقل موؤف نہیں ہوتی، اور اُن عوارض خارجیہ ہی کے اعتبار سے کھانا اخف ہے بہ نسبت پینے کے کما ہو مشاہد۔(امداد الفتاوی۱۱۶/۴ کھانے پینے کی حلال وحرام مکروہ ومباح چیزوں کا بیان،مکتبہ دارالعلوم کراچی)۔

احسن الفتاوی میں لکھا ہے کہ
مٹی کی حرمت بوجہ ضرر ہے اور پان میں چونا کھانے میں کوئی مضر نہیں بلکہ مفید ہے۔ تمباکو مسکر ومفتر نہیں اس سے دماغ میں فتور نہیں آتا بلکہ اس میں حدت ہے ، جیسے مرچ زیادہ کھانے سے پریشانی تو ہوتی ہے لیکن نشہ آور نہیں ، تمباکو کا کھانا پینے کی بنسبت اخف ہے پینے میں بدبو کی قباحت زائد ہے۔
 الحاصل : بغیر تمباکو کے صرف چونے وغیرہ کے ساتھ پان کھانے میں کوئی قباحت نہیں ہے ،عند الضرورة تمباکو کی بھی اجازت ہے بلا ضرورت نہیں کھانا چاہئے البتہ کسی کو چونا یا تمباکو نقصان دیتا ہو تو اس کیلئے جائز نہیں ہے۔(احسن الفتاوی ۱۱۰/۸تا۱۱۱،کتاب الحظر والاباحۃ،ایچ ایم سعید)۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں
وان كان يتناول منه قليلاً أو كان يفعل ذلك أحيانا لا بأس به.(الفتاوی الہندیہ ۴۱۹/۵کتاب الکراہیۃ باب الکراہۃ فی الاکل،دار الکتاب العلمیہ)وکذا المحیط البرہانی ۳۵۳/۵کتاب الاستحسان والکراہیۃ،دار الکتاب العلمیہ)۔
قلت: فیفہم منہ حکم النبات الذي شاع في زماننا المسمی بالتتن وہو الإباحۃ علی المختار أو التوقف، وفیہ إشارۃ إلی عدم تسلیم إسکارہ وتفتیرہ وإضرارہ الخ۔ (الدرالمختار مع الشامي، کتاب الأشربۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۱۰/ ۴۴، کراچی ۶/ ۴۶۰)۔
یباح أکل النورۃ مع الورق المأکل في دیار الہند؛ لأنہ قلیل نافع، فإن الغرض المطلوب من الورق المذکور لا یحصل بدونہا۔ (نفع المفتي والسائل، کتاب الحظر والإباحۃ / قبیل ذکر ما یحل لبسہ وما لا یحل، من مجموعۃ رسائل اللکنوي ۴؍۱۴۸ إدارۃ القرآن کراچی)۔
سئل بعض الفقہاء عن أکل الطین البخاري ونحوہ قال: لا بأس بذلک ما لم یضر وکراہیۃ أکلہ لا للحرمۃ بل لتہییج الداء۔ (ہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب الحادي عشر: في الکراہۃ في الأکل، قدیم زکریا دیوبند ۵/ ۳۴۱، جدید زکریا دیوبند ۵/ ۳۹۴)۔
ومثلہ زہر القطن فانہ قوي التفریح یبلغ الإسکار (إلی قولہ) یحرم استعمال القدر المسکر منہ دون القلیل الخ۔(شامي، کتاب الأشربۃ زکریا۱۰/۴۱،کراچي ۶/۴۵۸)۔
فیفہم منہ حکم النبات الذی شاع فی زمانناالمسمی بالتتن وقد کرہہ العمادی فی ہدیتہ إلحاقالہ بالثوم والبصل بالأولیٰ الخ۔(الدرالمختار،کتاب الاشربہ،زکریا،۱۰/۴۴،کراچي،۶/۴۶۰)
منذ ظهور الدخان – وهو الاسم المشهور للتبغ – والفقهاء يختلفون في حكم استعماله، بسبب الاختلاف في تحقق الضرر من استعماله، وفي الأدلة التي تنطبق عليه، قياسا على غيره، إذ لا نص في شأنه
فقال بعضهم: إنه حرام، وقال آخرون: إنه مباح، وقال غيرهم: إنه مكروه.وبكل حكم من هذه الأحكام أفتى فريق من كل مذهب.(الموسوعة الفقهیة الكويتية١٩٤/١٠)۔
ذهب إلى القول بإباحة شرب الدخان من الحنفية: الشيخ عبد الغني النابلسي، وقد ألف في إباحته رسالة سماها (الصلح بين الإخوان في إباحة شرب الدخان) ومنهم صاحب الدر المختار، وابن عابدين، والشيخ محمد العباسي المهدي صاحب الفتاوى المهدية، والحموي شارح الأشباه والنظائر.(الموسوعة الفقهیة الكويتية،٢٠٠/١٠)۔

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں بھی کافی وضاحت ہے ملاحظہ فرمائیں
أنه لم يثبت إسكاره ولا تخديره، ولا إضراره (عند أصحاب هذا الرأي) وقد عرف ذلك بعد اشتهاره، ومعرفة الناس به،فدعوى أنه يسكر أو يخدر غير صحيحة، فإن الإسكار غيبوبة العقل مع حركة الأعضاء، والتخدير غيبوبة العقل مع فتور الأعضاء، وكلاهما لا يحصل لشاربه. نعم من لم يعتده يحصل له إذا شربه نوع غشيان. وهذا لا يوجب التحريم. كذا قال الشيخ حسن الشطي وغيره
وقال الشيخ علي الأجهوري: الفتور الذي يحصل لمبتدئ شربه ليس من تغييب العقل في شيء، وإن سلم أنه مما يغيب العقل فليس من المسكر قطعا؛ لأن المسكر يكون معه نشوة وفرح، والدخان ليس كذلك، وحينئذ فيجوز استعماله لمن لا يغيب عقله، وهذا يختلف باختلاف الأمزجة، والقلة والكثرة، فقد يغيب عقل شخص ولا يغيب عقل آخر، وقد يغيب من استعمال الكثير دون القليل
 الأصل في الأشياء الإباحة حتى يرد نص بالتحريم، فيكون في حد ذاته مباحا، جريا على قواعد الشرع وعموماته، التي يندرج تحتها حيث كان حادثا غير موجود زمن الشارع، ولم يوجد فيه نص بخصوصه، ولم يرد فيه نص في القرآن أو السنة، فهو مما عفا الله عنه، وليس الاحتياط في الافتراء على الله تعالى بإثبات الحرمة أو الكراهة اللذين لا بد لهما من دليل، بل في القول بالإباحة التي هي الأصل، وقد توقف النبي صلى الله عليه وسلم – مع أنه هو المشرع في تحريم الخمر أم الخبائث – حتى نزل عليه النص القطعي، فالذي ينبغي للإنسان إذا سئل عنه أن يقول: هو مباح، لكن رائحته تستكرهها الطباع، فهو مكروه طبعا لا شرعا
إن فرض إضراره لبعض الناس فهو أمر عارض لا لذاته، ويحرم على من يضره دون غيره، ولا يلزم تحريمه على كل أحد، فإن العسل يضر بعض الناس، وربما أمرضهم، مع أنه شفاء بالنص القطعي
اتفق المحققون على أن تحكيم العقل والرأي بلا مستند شرعي باطل، إذ ليس الصلاح بتحريمه، وإنما الصلاح والدين المحافظة بالاتباع للأحكام الواردة بلا تغيير ولا تبديل، وهل الطعن في أكثر الناس من أهل الإيمان والدين، والحكم عليهم بالفسق والطغيان بسبب شربهم الدخان، وفي العامة من هذه الأمة فضلا عن الخاصة، صلاح أم فساد؟
حرر ابن عابدين أنه لا يجب تقليد من أفتى بحرمة شرب الدخان؛ لأن فتواهم إن كانت عن اجتهاد فاجتهادهم ليس بثابت، لعدم توافر شروط الاجتهاد، وإن كانت عن تقليد لمجتهد آخر، فليس بثابت كذلك لأنه لم ينقل ما يدل على ذلك، فكيف ساغ لهم الفتوى وكيف يجب تقليدهم؟
ثم قال: والحق في إفتاء التحليل والتحريم في هذا الزمان التمسك بالأصلين اللذين ذكرهما البيضاوي في الأصول، ووصفهما بأنهما نافعان في الشرع
الأول: أن الأصل في المنافع: الإباحة، والآيات الدالة على ذلك كثيرة
الثاني: أن الأصل في المضار: التحريم والمنع لقول النبي صلى الله عليه وسلم: لا ضرر ولا ضرار
ثم قال: وبالجملة إن ثبت في هذا الدخان إضرار صرف عن المنافع فيجوز الإفتاء بتحريمه، وإن لم يثبت إضراره فالأصل الحل. مع أن الإفتاء بحله فيه دفع الحرج عن المسلمين، فإن أكثرهم يبتلون بتناوله، فتحليله أيسر من تحريمه، فإثبات حرمته أمر عسير لا يكاد يوجد له نصير. نعم لو أضر ببعض الطبائع فهو عليه حرام، ولو نفع ببعض وقصد التداوي فهو مرغوب
قال ابن عابدين: كذا أجاب الشيخ محيي الدين أحمد بن محيي الدين بن حيدر الكردي الجزري رحمه الله تعالى.( الموسوعة الفقهیة الكويتية٢٠٠/١٠تا٢٠٥) فتاویٰ محمودیہ۳۸۰/۱۸تا۴۰۶، باب شرب الدخان واستعمال النورۃ وغیرہا،مکتبہ فاروقیہ کراچی) کتاب النوازل ۱۴۹/۱۶)(کتاب الفتاویٰ ۱۸۲/۶)(کفایت المفتی ۱۴۵/۹ دارالاشاعت )امداد الفتاوی جدید مطول۲۷/۹تا۲۹ زکریا بکڈپو انڈیا)۔
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام الھند
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
۔۱۲شوال المکرم ۱۴۴۱؁ھ م ۵ جون ۰۲۰۲؁ء بروز جمعہ

تائید کنندہ
مفتی شاھد جمال پشاوری غفرلہ
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ 
مفتی مرغوب الرحمن القاسمی غفرلہ
مفتی سعود مرشد القاسمی غفرلہ
منتظم مجلس شوریٰ المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے