کیا بہو پر ‏ساس ‏وخسر ‏کی ‏خدمت ‏لازمی ‏ہے؟

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

مسئلہ نمبر 47

حضرت مفتی صاحب آپ سے ایک مسئلہ معلوم کرنا چاہتا ہو کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے اپنے ماں باپ کی خدمت کرائے،اور خود اپنے ماں باپ کی خدمت نہ کرے،تو کیا اس صورت میں اس شخص کو کچھ ثواب ملے گا یا نہیں،جو اپنی بیوی سے اپنے ماں باپ کی خدمت کرا رہا ہے،اور خود اپنے ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا ہے۔مہربانی کر کے مدلل جواب جلد از جلد ارسال کریں۔(المستفتی: محمد کوثر علی غفرلہ جمو کشمیر انڈیا)۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب وبہ التوفیق
بہو پر اپنے ساس، خسر کی خدمت شرعی طور پر لازم نہیں ہے،اگر شوہر کے والدین خدمت کے محتاج ہے،اور خدمت کرنے والا کوئی نہیں ہے،تو شوہر کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ماں باپ کی خدمت خود کرے یا خادم وغیرہ کا بندوبست کردے، بیوی کو مجبور نہیں کرسکتا ہے،اسی طرح شوہر پر بھی بیوی کی دوائی ڈاکٹر فیس آپریشن وغیرہ کا خرچہ بھی لازم نہیں ہے،لیکن ہر ایک کا اخلاقی فریضہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں،بہو شوہر کے والدین کو اپنے والدین کے نظر سے دیکھے،اور انکی خدمت کرے،(خسر کی جسمانی خدمت نہ کرے) اور ساس وخسر کو بھی چاہیے کہ بہو کو بیٹی کی نظر سے دیکھے،اور اسکے ساتھ محبت وشفقت سے پیش آئے،اور شوہر اپنی بیوی کو وقتاً فوقتاً خدمت خلق وحسن اخلاق کی فضیلت بتاتا رہے ان شاءاللہ ہر ایک کو ثواب ملے گا۔

بہشتی زیور میں لکھا ہے کہ
جب تک ساس خسر زندہ رہیں ان کی خدمت کو، ان کی تابع داری کو فرض جانو، اور اسی میں اپنی عزت سمجھو، اور ساس نندوں سے الگ ہوکر رہنے کی ہرگز فکر نہ کرو، ساس نندوں سے بگاڑ ہوجانے کی یہی جڑ ہے، خود سوچو کہ ماں باپ نے اسے پالا پوسا اور بڑھاپے میں اس آسرے پر اس کی شادی بیاہ کیا کہ ہم کو آرام ملے اور جب بہو آئی، ڈولے سے اترتے ہی یہ فکر کرنے لگی کہ میاں آج ہی ماں باپ کو چھوڑدیں ۔۔۔ جو کام ساس نندیں کرتی ہیں تو اس کے کرنے سے عار نہ کرو، تم خود بے کہے ان سے لے لو اور کردو، اس سے ان کے دلوں میں تمہاری محبت پیدا ہوجائے گی‘‘۔ (بہشتی زیور۴۷/۴تا۴۸ نکاح کا بیان،ط: تاج کمپنی کراچی)۔

المسائل المہمہ میں لکھا ہے کہ
شوہر کی وجہ سے عورت کے ساس سُسر والدین کے حکم میں ہوتے ہیں، اور بہو بیٹی کے درجے میں ہوتی ہے، اس لیے عورت کو چاہیے کہ حسبِ ہمت وطاقت اپنے حقیقی ماں باپ اور شوہر کی طرح ساس سُسر کی بھی خدمت کرے، یہ در حقیقت شوہر کی خدمت کا حصہ ہے، اور اخلاقی تقاضا ہے، البتہ شرعی اعتبار سے عورت پر ساس سُسر کی خدمت نہ قضاء ً واجب ہے اور نہ دیانۃً، صرف شوہر کی خدمت دیانۃً واجب ہے، لہٰذا اگر وہ ساس سُسر کی خدمت کے لیے راضی نہ ہو، تو شوہر اسے اس پر مجبور نہیں کرسکتا، اور اگر وہ اپنی مرضی وخوشی سے ساس سُسر کی خدمت کرے، تو سُسر کی کوئی جسمانی خدمت نہ کرے، ورنہ شوہر سے اس کا رشتہ خراب ہوجانے کا اندیشہ ہے، اور ساس سُسر کو بھی چاہیے کہ بہو کو بیٹی کی طرح رکھیں، اور اس کی معمولی غلطیوں کو نظر انداز کردیا کریں، اور اگر کسی بات پر تنبیہ کرنا ہو ، تو محبت وشفقت کے ساتھ تنبیہ کریں، اگر وہ ایسا کریں گے، تو ان شاء اللہ گھر کا ماحول عمدہ ہوگا، اور ساس بہو کے جھگڑوں سے گھر محفوظ رہے گا۔(المسائل المہمہ۲۰۰/۸تا۲۰۱)۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قلت یا رسول اللّٰہ! أي الناس أعظم حقًا علی المرأۃ، قال: زوجہا، قلت: فأي الناس أعظم حقًا علی الرجل، قال: أمہ۔(المستدرک للحاکم١٦٧/٤،رقم: ۷۲۴۴) ۔

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: جاء رجل إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال یا رسول اللّٰہ! من أحق بحسن صحابتي؟ قال: أمک، قال: ثم من؟ قال: ثم أمک، قال: ثم من؟ قال: ثم أمک، قال: ثم من؟ قال: ثم أبوک۔ (صحیح البخاري، کتاب الأدب / باب من أحق الناس بحسن الصحبۃ ۲؍۲۸۲-۲۸۳ رقم: ۵۹۷۱ دار الفکر بیروت)۔

قال الله تعالى: {وقضى ربك ألا تعبدوا إلا إياه وبالوالدين إحسانا}بنی اسرائیل)۔
عبد الله بن مسعود – رضي الله عنه – قال: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم: أي العمل أحب إلى الله؟ قال: الصلاة على وقتها، قلت: ثم أي؟ قال: بر الوالدين، قلت: ثم أي؟ قال: الجهاد في سبيل الله.فهذه النصوص تدل على وجوب بر الوالدين وتعظيم حقهما.(الموسوعة الفقهیة الكويتية١١٣/٨)۔

إذا تعذر علیہ مراعاۃ جمیع حقوق الوالدین، رجح جانب الأب فیما یرجع إلی التعظیم والاحترام، وحق الأم فیما یرجع إلی الخدمۃ والإنہام۔ (فتاویٰ اللکنوي المسمیٰ: نفع المفتي والسائل/ما یتعلق بإطاعۃ الوالدین ۴۲۲ دار ابن حزم)۔

وصلة الأم مقدمة على صلة الأب بالإجماع لقول النبي صلى الله عليه وسلم لرجل سأله من أحق الناس بحسن صحابتي؟ : أمك ثم أمك ثم أمك ثم أبوك.(الموسوعة الفقهی الكويتية١٥٦/٣)۔

لیس للرجل أن یستخدم امرأتہ الحرۃ۔(المحیط البرہاني، المجلس العلمی ۴/۲۳۷،رقم:۴۱۵۱،الفتاویٰ التاتار خانیۃ،زکریا ۴/۳۰۹،رقم:۶۲۷۱)۔

ولیس علیہا أن تعمل بیدیہا شیئًا لزوجہا قضاء من الخبز والطبخ وکنس البیت وغیر ذلک(فتاویٰ قاضی خان۳۸۳/۱،کتاب النکاح،فصل في حقوق الزوجیۃ،دارالکتاب العلمیۃ،البحر الرائق۳۱۱/۴،کتاب الطلاق،باب النفقہ،دار الکتب العلمیہ) الفتاوی الھندیہ،۲۶۴/۷،کتاب النکاح،دار الفکر)۔

لا خلاف بین الفقہاء في أن الزوجۃ یجوز لہا أن تخدم زوجہا في البیت سواء أکانت ممن تخدم نفسہا أو ممن لا تخدم نفسہا إلا أنہم اختلفوا في وجوب ہذہ الخدمۃ ۔۔۔۔۔ وذہب الحنفیۃ إلی وجوب خدمۃ المرأۃ لزوجہا دیانۃ لا قضاء( الموسوعة الفقهیة الكويتية،ج١٩ص٤٤)۔

والسکنی في بیت خال عن أہلہ وأہلہا … أي تجب السکنی في بیت أي الإسکان للزوجۃ علی زوجہا؛ لأن السکنی من کفایتہا فتجب لہا کالنفقۃ … وإذا وجبت حقا لہا لیس لہ أن یشرک غیرہا فیہ؛ لأنہا تتضرر بہ فإنہا لا تأمن علی متاعہا ویمنعہا ذلک من المعاشرۃ مع زوجہا، ومن الاستمتاع إلا أن تختار؛ لأنہا رضیت بانتقاص حقہا۔ (البحرالرائق کوئٹہ ۴/ ۱۹۳-۱۹۴، زکریا ۴/ ۳۲۸)۔

ذهب الفقهاء إلى عدم وجوب ثمن الدواء وعدم وجوب أجرة الطبيب على الزوج. مستندين في ذلك إلى قوله تعالى: {لينفق ذو سعة من سعته ومن قدر عليه رزقه فلينفق مما آتاه الله}سورۃ الطلاق)۔
موجهين استدلالهم بأن الله عز وجل ألزم الزوج بالنفقة المستمرة على زوجته، وليست نفقة العلاج داخلة تحتها؛ لأنها من الأمور العارضة.ولأن شراء الأدوية وأجرة الطبيب إنما تراد لإصلاح الجسم، فلا تلزم الزوج۔(الموسوعة الفقهية الكويتية٧٨/٤١)۔

ولایجب الدواء للمرض ولا أجرۃ الطبیب ولاالفصد ولاالحجامۃ کذا فيالسراج الوہاج۔ (ہندیۃ،کتاب الطلاق، الباب السابع عشرفي النفقات،الفصل الأول في نفقۃ الزوجۃ، مکتبہ زکریا دیوبند قدیم۵۴۹/۱،جدید۵۹۹/۱،ردالمحتار،کتاب الطلاق،باب النفقۃ،مطلب لاتجب علی الأب نفقۃ زوجۃ ابنہ الصغیر،مکتبہ زکریا دیوبند۲۸۵/۵،کراچی۵۷۵/۳)۔

وقید بالنفقۃ لأن المداواۃ لاتجب علیہ أصلا۔ (البحرالرائق، کتاب الطلاق، باب النفقۃ، مکتبہ زکریا دیوبند۳۰۹/۴،کوئٹہ۱۸۲/۴)(فتاویٰ حقانیہ۲۳/۵کتاب النفقات) فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۸۴/۱۱،باب النفقہ،دار الاشاعت کراچی)کتاب النوازل ۵۴۸/۸) المسائل المہمہ ۱۶۲/۱۰) محقق ومدلل جدید مسائل۲۱۹/۱) فتاویٰ قاسمیہ۹۲/۲۳) فتاویٰ محمودیہ ۶۱۵/۱۸تا۶۱۶،باب احکام الزوجین،دار العلوم کراچی)خزینۃ الفقہ۲۷۴/۱،فی مسائل النکاح)۔

واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام الھند
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
۔۱۴شوال المکرم ۱۴۴۱؁ھ م ۷ جون ۰۲۰۲؁ء بروز اتوار

تائید کنندہ
مفتی محمد سرفراز گجراتی غفرلہ
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ
مفتی مرغوب الرحمن القاسمی غفرلہ
مفتی عطاء الرحمن بڑودوی غفرلہ
مفتی مختار حسین الحسینی عفی عنہ
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الھند

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے