غیر مسلم اور اہلِ کتاب کو سلام کرنا اور اسکا جواب دینا۔

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ماہنامہ ’’تحفۂ خواتین‘‘ میں غیر مسلم کو سلام کرنے کے سلسلہ میں آپ کا فتویٰ بحوالہ مرقاۃ نظر نواز ہوا، حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ کی درج ذیل عبارت:
’’{وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ} فعل مجہول ہے، مگر اِجماعاً اِس کا فاعل مسلم ہے قطعاً یا احتمالاً، پس اگر یقینی کافر سلام کرے تو جواب دینا واجب نہیں گو جائز ہے۔ اور حدیث میں جو اِس کے جواب کا خاص صیغہ آیا ہے کہ صرف ’’علیکم‘‘ کہے، تو وہ جب ہے جب احتمال ہو کہ اُس نے شرارت سے سلام کیا ہے، ورنہ جائز ہے؛ بلکہ حاجت کے وقت ابتداء بھی درست ہے۔ نقلہ في الروح عن الحسن وعن الشعبي وقتادۃ وابن عباس رضي اللّٰہ عنہم‘‘۔ (بیان القرآن [النساء: ۸۶] ۱؍۱۴۰ مکتبۃ الحق جوگیشوري ممبئي)
آپ کے نقل کردہ قول کے خلاف ہے، اِس سلسلہ میں راجح قول کیا ہے، اگر وضاحت فرمادیں تو نوازش ہوگی، اگر آپ کا نقل کردہ قول ہی راجح ہے، تو حضرت تھانویؒ کے قول کی وضاحت کیا ہوگی؟
الجواب وباللہ التوفیق:
غیر مسلم کو سلام کرنے کی تحقیق کی گئی، جس سے یہ معلوم ہوا کہ اِس بارے میں شروع ہی سے علماء کے درمیان دو قول رہے ہیں، ایک بڑی جماعت اِس بات کی قائل ہے کہ کسی بھی غیر مسلم کو ’’السلام علیکم‘‘ کے لفظ سے ابتدائً سلام نہ کیا جائے، اور اگر کوئی غیرمسلم مسلمان کو سلام کرے، تو اُس کے جواب میں صرف ’’وعلیکم‘‘ یا ’’وعلیک‘‘ کہا جائے، ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ‘‘ نہ کہا جائے، اِس جماعت کا استدلال اُس حدیث سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تبدؤوا الیہود ولا النصاریٰ بالسلام، فإذا لقیتم أحدہم في طریقٍ فاضطروہ إلی أضیقہ۔ (صحیح مسلم، کتاب السلام / باب النہي عن ابتداء أہل الکتاب بالسلام وکیف یُردُّ علیہم ۲؍۲۱۴ رقم: ۲۱۶۷، سنن أبي داؤد رقم: ۵۲۰۵، سنن الترمذي / باب ما جاء في کراہیۃ التسلیم علی الذمي ۲؍۹۹ رقم: ۲۷۰۰)
نیز دوسری روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:إذا سلّم علیکم أہل الکتاب فقولوا: وعلیکم۔ (صحیح البخاري / کیف الرد علی أہل الذمۃ السلام ۲؍۱۴۲۶ رقم: ۶۲۵۸، صحیح مسلم ۲؍۲۱۳ رقم: ۲۱۶۳ بیت الأفکار الدولیۃ، سنن أبي داؤد ۲؍۷۰۷ رقم: ۵۲۰۷ دار الفکر بیروت)
جمہور علماء وفقہاء اور شارحین حدیث کی یہی رائے ہے، نیز اِمام ابو حنیفہ اور امام اَبویوسفؒ سے بھی صراحۃً یہی منقول ہے، اِس کے برخلاف ایک دوسری جماعت کی رائے یہ ہے کہ اگر کسی ضرورت سے کسی کافر کو ابتداء اً سلام کرلیا جائے، یا اس کے جواب میں ’’وعلیکم السلام‘‘ کہہ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، یہ رائے حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت ابوامامہؓ، حضرت حسن بصریؒ اور حضرت عمر بن عبد العزیز رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف منسوب ہے، یہ حضرات اُس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس میں یہ مضمون ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم اور غیر مسلم کے مخلوط مجمع پر سلام سے ابتداء فرمانے کا ذکر ہے۔ (صحیح البخاری ۲؍۹۲۴)
نیز سلام کو مطلقاً عام کرنے کی روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں، اِسی اعتبار سے آیت: {وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا} کی تفسیر میں دو رائے ہوگئیں: بعض نے اُسے مسلمانوں کے ساتھ خاص فرمایا اور بعض نے اُس کو عام فرمایا ہے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بیان القرآن میں اِسی دوسری رائے کی طرف اِشارہ فرمایا ہے، مگر عموماً فقہی کتابوں اور شروحاتِ حدیث میں فتویٰ پہلی رائے پر دیا گیا ہے، خاص کر اِس لئے کہ ’’السلام علیکم‘‘ محض ایک دعا ہی نہیں؛ بلکہ ایک اِسلامی شعار ہے، اِس لئے اُس کا استعمال اِسلامی علامت کے طور پر ہونا چاہئے، جیساکہ دیگر شعار صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہیں، اَب اِس سلسلہ میں چند عبارات برائے ملاحظہ تحریر کی جاتی ہیں:
۱:- ثم اختلف في أنہ خاص في أہل الإسلام، أو عام في أہل الإسلام وأہل الکفر، فقال عطاء: ہو في أہل الإسلام خاصۃ؛ وقال ابن عباس وإبراہیم وقتادۃ: ہو عام في الفریقین۔ (أحکام القرآن لأبي بکر الجصاص ۲؍۲۱۸)
۲:- ولو سلّم یہودي أو نصراني أو مجوسي فلا بأس بالرد، ولکن لا یزید في الجواب علی قولہ: وعلیک؛ کما في الخانیۃ: وروي ذٰلک مرفوعًا في الصحیح، ولا یسلم ابتداء علی کافر لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لا تبدؤوا الیہود ولا النصاریٰ بالسلام، فإذا لقیتم أحدہم في طریق فاضطروہ إلی أضیقہ۔ (صحیح البخاري رقم: ۲۱۶۷، سنن أبي داؤد ۲؍۷۰۷ رقم: ۵۲۰۵)
وأوجب بعض الشافعیۃ رد سلام الذمي بعلیک فقط، وہو الذي یقتضیہ کلام الروضۃ، لکن قال البلقیني والآذرعي والزرکشي: إنہ یسن ولا یجب، وعن الحسن یجوز أن یقال للکافر: وعلیک السلام؛ ولا یقل: ورحمۃ اللّٰہ تعالیٰ؛ فإنہا استغفار، وعن الشعبي أنہ قال لنصراني: سلم علیہ ذلک، فقیل لہ فیہ، فقال: ألیس في رحمۃ اللّٰہ یعیش؟
وأخرج ابن المنذر من طریق یونس بن عبید الحسن أنہ قال في الآیۃ: إن حیوا بأحسن منہا – للمسلمین – أو ردوہا – لأہل الکتاب، وورد مثلہ عن قتادۃ، ورخّص بعض العلماء ابتداء ہم بہ إذا دعت إلیہ داعیۃ، ویؤدي حینئذ بالسلام، فعن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما أنہ کان یقول للذمي: والظاہر عند الحاجۃ السلام علیک ویرید – کما قال اللّٰہ تعالیٰ علیک – أي ہو عدوک، ولا مانع عندي إن لم یقصد ذٰلک من أن یقصد الدعاء لہ بالسلامۃ بمعنی البقاء حیا لیسلم، أو یعطي الجزیۃ ذلیلاً۔ وفي الأشباہ النص علی ذٰلک في الدعاء لہ بطول البقاء۔ (روح المعاني ۴؍۱۴۷، تحت رقم الآیۃ: ۸۶ زکریا)
۳:- لنذکر المواضع التي لا یسلم فیہا، وہي ثمانیۃ: الأول: روی أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’لا یبدأ الیہودي بالسلام‘‘ وعن أبي حنیفۃ أنہ قال: لا یبدأ بالسلام في کتاب ولا في غیرہ ، وعن أبي یوسفؒ: لا تسلم علیہم ولا تصافحہم، وإذا دخلت فقل: السلام علی من اتبع الہدیٰ، ورخص بعض العلماء في ابتداء السلام علیہم، إذا دعت إلی ذٰلک حاجۃ، وأما إذا سلموا علینا، فقال أکثر العلماء: ینبغي أن یقال: وعلیک۔ (تفسیر الفخر الرازي الجزء العاشر، النساء: ۸۶، ۵؍۲۲۱ دار الفکر بیروت)
۴:- التاسعۃ: وأما الکافر فحکم الرد علیہ أن یقال لہ: وعلیکم؛ قال ابن عباس وغیرہ: المراد بالآیۃ: {وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ} فإذا کانت من مؤمن {فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْہَا} وإن کانت من کافرٍ فردوا علی ما قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن یقال لہم: ’’وعلیکم‘‘۔ وقال عطاء: الآیۃ في المؤمنین خاصۃ، ومن سلّم من غیرہم، قیل لہ: ’’علیک‘‘ کما جاء في الحدیث۔ (الجامع لأحکام القرآن لأبي عبد اللّٰہ محمد بن أحمد القرطبي ۳؍۲۶۱ المکتبۃ التجاریۃ، ۵؍۳۰۳ بیروت)
۵:- وہو مفرع علی منع ابتداء الکافر بالسلام، وقد ورد النہي عنہ صریحًا في ما أخرجہ مسلم والبخاري في ’’الأدب المفرد‘‘ من طریق سہل بن أبي صالح عن أبیہ عن أبي ہریرۃ رفعہ: لا تبدؤا الیہود والنصاری بالسلام، واضطروہم إلی أضیق الطریق؛ وللبخاري في ’’الأدب المفرد‘‘ والنسائي من حدیث أبي بصرۃ وہو بفتح الموحدۃ وسکون المہملۃ الغفاري أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إني راکبٌ غدًا إلی الیہود فلا تبدء وہم بالسلام، وقالت طائفۃ: یجوز ابتداء ہم بالسلام: فأخرج الطبري من طریق بن عیینۃ قال: یجوز ابتداء الکافر بالسلام لقولہ تعالیٰ: {لاَیَنْہَاکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ} وقول إبراہیم لأبیہ: سلام علیک۔ وأخرج ابن أبي شیبۃ من طریق عون بن عبد اللّٰہ عن محمد بن کعب أنہ سأل عمر بن عبد العزیز عن ابتداء أہل الذمۃ بالسلام، فقال: نرد علیہم ولا نبدء ہم۔ قال عون: فقلت لہ: فکیف تقول أنت؟ قال: ما أری بأسًا أن نبدؤہم، قلت: لم؟ قال: لقولہ تعالی: {فَاصْفَحْ عَنْہُمْ وَقُلْ سَلاَمٌ} وقال البیہقي بعد أن ساق حدیث أبي أمامۃ أنہ کان یسلم علی کل من لقیہ، فسئل عن ذلک، فقال: إن اللّٰہ جعل السلام تحیۃ لأمتنا وأمانا لأہل ذمتنا، ہٰذا رأي أبي أمامۃ، وحدیث أبي ہریرۃ في النہي عن ابتداء ہم أولی، وأجاب عیاض عن الآیۃ، وکذا عن قول إبراہیم علیہ السلام لأبیہ، بأن القصد بذلک المتارکۃ والمباعدۃ، ولیس القصد فیہما التحیۃ۔ وقد صرح بعض السلف بأن قولہ تعالی: {وَقُلْ سَلاَمٌ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ} نسخت بآیۃ القتال۔ وقال الطبري: لا مخالفۃ بین حدیث أسامۃ في سلام النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی الکفار حیث کانوا مع المسلمین، وبین حدیث أبي ہریرۃ في النہي عن السلام علی الکفار؛ لأن حدیث أبي ہریرۃ عام، وحدیث أسامۃ خاص، فیختص من حدیث أبي ہریرۃ ما إذا کان الابتداء لغیر سبب ولا حاجۃ من حق صحبۃ أو مجاورۃ أو مکافأۃ أو نحو ذلک، والمراد منع ابتداء ہم بالسلام المشروع، فأما لو سلّم علیہم بلفظ یقتضي خروجہم عنہ، کأن یقول: السلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین فہو جائز، کما کتب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی ہرقل وغیرہ: سلام علی من اتبع الہدی۔ (فتح الباري ۱۱؍۳۹-۴۰ دار الکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴؍۴۷ رقم: ۶۲۵۴ دار الفکر بیروت)
۶:- واختلف العلماء في رد السلام علی الکفار وابتداء ہم بہ، فمذہبنا تحریم ابتداء ہم بہ، ووجوب ردہ علیہم، بأن یقول: وعلیکم أو علیکم فقط، ودلیلنا في الابتداء قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تبدؤا الیہود ولا النصاریٰ بالسلام، وفي الرد قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فقولو: وعلیکم، وبہذا الذي ذکرنا عن مذہبنا، قال أکثر العلماء وعامۃ السلف: وذہبت طائفۃ إلی جواز ابتداء نا لہم بالسلام، روی ذلک عن ابن عباس وأبي أمامۃ وابن أبي محیریز، وہو وجہ لبعض أصحابنا، حکاہ الماوردي، لکنہ قال: یقول: السلام علیک، ولا یقول: علیکم بالجمع، واحتج ہؤلاء بعموم الأحادیث بإفشاء السلام، وہي حجۃ باطلۃ؛ لأنہ عام مخصوص بحدیث: لا تبدؤا الیہود ولا النصاری بالسلام، وقال بعض أصحابنا: یکرہ ابتداء ہم بالسلام ولا یحرم، وہذا ضعیف أیضًا؛ لأن النہي للتحریم، فالصواب تحریم ابتداء ہم، وحکی القاضي عن جماعۃ أنہ یجوز ابتداء ہم بہ للضرورۃ والحاجۃ أو سبب، وہو قول علقمۃ والنخعي، وعن الأوزاعي أنہ قال: إن سلمت فقد سلم الصالحون، وإن ترکت فقد ترک الصالحون، وقالت طائفۃ من العلماء: لا یرد علیہم السلام، ورواہ ابن وہب وأشہب عن مالک، وقال بعض أصحابنا: یجوز أن یقول في الرد علیہم: وعلیکم السلام، ولکن لا یقول: ورحمۃ اللّٰہ، حکاہ الماوردي، وہو ضعیف، مخالف للأحادیث، واللّٰہ أعلم۔ ویجوز الابتداء بالسلام علی جمع فیہم مسلمون وکفار أو مسلم وکفار، ویقصد المسلمین للحدیث السابق أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: سلّم علی مجلس فیہ أخلاط من المسلمین والمشرکین۔ (شرح النووي علی صحیح مسلم ۲؍۲۱۴)
۷:- ولابأس برد السلام علی أہل الذمۃ، ولکن لا یزاد علی قولہ وعلیکم، قال الفقیہ أبو اللیث رحمہ اللّٰہ: إن مررت بقوم وفیہم کفار، فأنت بالخیار إن شئت قلت: السلام علیکم، وترید بہ المسلمین، وإن شئت قلت: السلام علی من اتبع الہدی، کذا في الذخیرۃ۔ (الفتاوی الہندیۃ ۵؍۳۲۵)
(کتاب النوازل۲۵۴/۱۵تا۲۶۰)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے