کیا نائی کو دکان یا مکان کرایہ پر دینا جائز ہے؟

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں



مسئلہ نمبر 48
حضرت مفتی صاحب ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے.مسئلہ یہ ہے کہ ایک دکان ہے مسجد کی اور اس دکان کو کرایہ پر کسی نے لیا اور اس نے اس دکان پر سیلون کھول دیا اور اس دکان میں ڈاڑھی اور بال کاٹتے ہے ،کیا انتظامیہ کے لیے ایسے افراد کے ہاتھ دکان کرایہ پر دینا اور اس سے کرایہ اصول کرنا جائز ہے۔؟(مستفتی: مولانا محمد فضیل احمد،متعلم جامعۃ الشیخ حسین احمد المدنی،دیوبند ہندوستان)۔

الجواب وبہ التوفیق:۔
نائی کو دکان کرایہ پر دینا کیسا ہے،؟اس مسئلے کو سمجھ نے سے پہلے آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ نائی کی کمائی حلال ہے یا حرام یا مکروہ؟۔
نائی کا پیشہ اختیار کرنا جائز ہے اور اسکی آمدنی بھی حلال ہے۔لیکن وہ نائی جو فیشن وانگریزی بال کاٹتے ہیں اسی طرح داڑھی بھی مونڈ تے ہیں انکی کمائی تعاون علی المعصیت کی وجہ سے مکروہ تنزیہی ہے،اب جو نائی شریعت کے دائرے میں بال وداڑھی کی کٹنگ کرتے ہیں انکی آمدنی مطلقاً حلال ہے اور اسکو دکان کرایہ پر دینا بھی درست ہے،اور جو نائی فیشن وانگریزی کٹنگ وداڑھی مونڈتے ہیں انکی کمائی میں اختلاف ہے ،امام صاحب کے نزدیک بلا کراہت حلال ہے،اور صاحبین کے نزدیک کراہت تنزیہی کے ساتھ حلال ہے۔لیکن اس سلسلے میں کوئی صریح جزئیہ نہیں ملا،البتہ فقہاء کی تصریحات سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ فقہاء نے تعمیر مندر، فساق لباس سینے، در و دیوار پر تصویری نقش و نگار کرنے کی اجرت کو حق المحنت کی وجہ سے حلال لکھا ہے،لہذا صورت مسئولہ میں نائی کی کمائی بھی حق المحنت کی وجہ سے حلال ہوگی ،جب کمائی حلال ہوگئی ہے تو اس کو دکان کرایہ پر دینا بھی درست ہے،اگر کوئی کراہت کہے تو زیادہ سے زیادہ کراہت تنزیہی ہی مراد ہوگا جس کا مطلب ہے خلاف اولی۔
الحاصل:مکان یا دکان ان کاموں کیلئے دینا جائز تو ہے،لیکن خلاف اولی ہے،اور جب یہ دکان مسجد کی ہے تو احتیاط زیادہ بہتر ہے۔

فتاویٰ مفتی محمود میں لکھا ہے کہ
 مسجد کی دکان حجام کو کرایہ پر دینا جس میں وہ بیٹھ کر لوگوں کی داڑھیاں منڈےگا۔شرعا جائز ہے لیکن احتیاط کے خلاف ہے۔(فتاویٰ مفتی محمود۴۶۴/۱،کتاب المساجد)اس میں سوال و جواب آسانی کےلئے ایک ساتھ لکھ دیا گیا ہے)۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں
عن ابن عباس رضي الله تعالی عنه، قال احتجم النبي صلى الله تعالى عليه وسلم واعطى الحجام أجره ولو علم كراهية لم يعطه(صحيح البخاري، كتاب الإجارة، باب خراج الحجام: ۳۰۴/۱، قدیمی)۔
واختلف العلماء بعد ذلك في هذه المسألة فذهب الجمهور إلى أنه حلال واحتجوا بهذا الحديث، وقالوا: هو کسب فيه دناءة وليس بمحرم“. (فتح الباري، كتاب الإجارة، باب خراج الحجام ۵۷۸/۴ قدیمی)۔
فأما استئجار الحجام لغير الحجامة، كالفصد وحلق الرأس وتقصيره والختان و قطع شيء من الجسد للحاجة إليه فجائز ولأن هذه الأمور تدعو الحاجة إليها ولا تحريم فيها، فجازت الإجارة فيها وأخذ الأجرة عليها كسائر المنافع المباحة. (إعلاء السنن،۱۹۰/۱۹تا۱۹۱ کتاب الإجارة، باب كسب الحجام, إدارة القرآن کراچی)۔
وفي نوادر ہشام عن محمدؒ رجل استأجر رجلاً لیصور لہ صوراً أوتماثیل الرجال في بیت أو فسطاط فاني أکرہ ذالک وأجعل لہ الأجرۃ۔ قال ہشام: تاویلہ إذا کان الإصباغ من قبل الأجیر…وإن استاجرہ لینحت لہ طنبوراً أو بربطا ففعل طاب لہ الأجر إلا أنہ یاثم بہ۔ (ہندیۃ، زکریا ۴/۴۵۰، اتحاد ۴/۴۸۶)۔
وفي فتاوی اہل سمر قندؒ إذا استأجر رجلا ینحت لہ طنبورًا أو بربطا ففعل یطیب لہ الأجر إلا أنہ یاثم في الإعانۃ علی المعصیۃ وإنماا وجب لہ الأجر في ہذہ المسائل۔ (المحیط البرہاني ۱۱/۳۴۶، رقم: ۱۳۷۹۳، البحر الرائق، زکریا ۸/۳۶)۔
وجاز إجارۃ بیت بسواد الکوفۃ لیتخذ بیت نار، أو کنیسۃ، أو بیعۃ، أو یباع فیہ الخمر، وقالا: لا ینبغي ذالک؛ لأنہ إعانۃ علی المعصیۃ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ، باب الإستبراء وغیرہ، زکریا ۹/۵۶۲، کراچي۶/۳۹۲)۔
إذا أستاجر رجلا لیحمل لہ خمراً فلہ الأجر في قول أبي حنیفۃؒ۔ (ہندیۃ، الباب السادس عشر، زکریا قدیم ۴/۴۴۹، جدید ۴/۴۸۶)۔
ولو آجر نفسہ لیعمل في الکنیسۃ ویعمرہا لا بأس بہ لأنہ لا معصیۃ في عین العمل وہذا عنہ، وقالا: ہو مکروہ۔ (شامي، زکریا ۹/۵۶۲، کراچي ۶/۳۹۲)۔
أواٰجر نفسہ لیرعی لہ الخنازیر یطیب لہ الأجر عندہ وعندہما یکرہ۔ (رد المحتار زکریا ۹/۵۶۲، کراچي ۶/۳۹۲)۔
أو خیاطا أمرہ أن یتخذ لہ ثوبا علی زي الفساق یکرہ لہ أن یفعل؛ لأنہ سبب التشبہ بالمجوس والفسقۃ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع، زکریا ۹/ ۵۶۲، کراچی ۶/ ۳۹۲، تبیین الحقائق، إمدادیہ ملتان ۶/ ۲۹، زکریا ۷/ ۶۵، مجمع الأنہر، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۴/ ۱۸۸، مصري قدیم ۲/ ۵۳۰)۔
کراہۃ تنزیہیۃ ماکانت إلی الحل أقرب وہی تقابل ترک السنۃ۔ (لغۃ الفقہاء ص:۳۷۹)(فتاویٰ محمودیہ۴۱۰/۲۳تا۴۱۲ دارالعلوم فاروقیہ کراچی) فتاویٰ قاسمیہ ۶۵۶/۲۳تا۶۵۸)و۴۲۳/۲۴تا۴۲۵)دار الافتاء دارالعلوم دیوبند جواب نمبر:149085)۔
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام الھند
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
۱۶شوال المکرم ۱۴۴۱؁ھ م ۹ جون ۰۲۰۲؁ء بروز منگل

تائید کنندہ
مفتی عطاء الرحمن بڑودوی غفرلہ
مفتی مرغوب الرحمن القاسمی عفی عنہ
مفتی محمد زبیر بجنوری سلمہ
مفتی محمد سعود مرشد القاسمی غفرلہ
مفتی محمد سرفراز گجراتی غفرلہ
در اصل میرا موقف یہی ہے کہ داڑھی منڈانے پر اجرت کا لین دین ناجائز ہے، اجرت بھی جائز نہیں۔
دار العلوم دیوبند کا بھی موقف یہی ہے۔
تاہم اگر علم کے باوجود دوکان کرایہ پر دی ہے، تو مکروہ تنزیہی اور خلافِ اولی ہے، مکروہ تحریمی اور ناجائز نہیں ؛کیونکہ یہاں معصیت پر تعاون کا قصد نہیں۔
مفتی مدثر کاسگنجی القاسمی عفی عنہ 
منتظم مجلس شوریٰ المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
۔۱۷شوال المکرم ۱۴۴۱ھ
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے