کیا فرائض کی آخری رکعتوں میں ضم سورہ جائز ہے

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

مسئلہ نمبر 49

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ فرض کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد اگر کسی نے تسمیہ یا کوئی سورۃ پڑھ لیا تو کیا سجدہ سہو واجب ہوگا یا نہیں.)(مستفتی:حافظ شمشاد معروفی،یوپی ،انڈیا)۔

الجواب وبہ التوفیق:۔
فقہاء نے لکھا ہے کہ فرائض کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانا واجب ہے،اور آخر کی دو رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھنا اور اسکے ساتھ سورت نہ ملانا سنت ہے،اسی طرح ان رکعتوں میں تسبیح پڑھنے اور تین تسبیح بقدر خاموش رہ کر رکوع کرلیں تب بھی کوئی حرج نہیں ہے،لہذا صورت مسئولہ میں کوئی فاتحہ کے ساتھ قصدا کوئی سورت یا تسمیہ پڑھ لیا ہے تو یہ خلاف سنت کی وجہ سے مکروہ تنزیہی ہوگا اور راجح قول کے مطابق سجدہ سہو بھی واجب نہ ہوگا۔

احسن الفتاوی میں لکھا ہے کہ
سب فرائض میں یکساں حکم ہے یعنی صرف پہلی دو رکعتوں میں سورت ملانا واجب ہے،بعد والی میں واجب نہیں جائز ہے نہ ملانا بہتر ہے، اگر سورت ملالی تو سجدہ سہو واجب نہیں۔(احسن الفتاوی۵۰/۴،باب سجود السہو،ایچ ایم سعید)۔

دارالافتاء دارالعلوم دیوبند میں ہے کہ
تین یا چار رکعت والی فرض نماز میں تیسری یا چوتھی رکعت میں صرف سورہ فاتحہ پڑھنا ، اس کے ساتھ کوئی سورت یا آیت نہ ملانا سنت ہے، واجب نہیں؛ لہٰذا اگر کسی نے فرض نماز کی تیسری یا چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورت یا آیت پڑھ لی تومفتی بہ قول کے مطابق سجدہ سہو واجب نہ ہوگا۔جواب نمبر67347)۔
وحدیث أبي قتادۃ أخرجہ ابن أبي شیبۃ في مصنفہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقرأ في الرکعتین الأولیین بفاتحۃ الکتاب وسورۃ، وفي الأخریین بفاتحۃ الکتاب۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ۲۶۱/۳رقم: ۳۷۴۱) ۔
وعلي وابن مسعود کان یقولان: المصلي بالخیار في الأخریین إن شاء قرأ وإن شاء سکت وإن شاء سبّح، وسأل رجل عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہ عن قراءۃ الفاتحۃ في الأخریین فقالت: ’’لکن علی وجہ الثناء‘‘ ولم یرو عن غیرہم خلاف ذٰلک فیکون ذٰلک إجماعاً ولأن القراءۃ في الأخریین ذکر یخافت بہا علی کل حالٍ فلا تکون فرضا کثناء الافتتاح۔ (بدائع الصنائع / الکلام في القراءۃ۲۹۵/۱زکریا،۵۲۴/۱تا۵۲۵کتاب الصلٰوۃ،دار الکتب العلمیہ،بذل المجہود ۷۵/۳تا۷۶،کتاب الصلٰوۃ،دار الکتاب العلمیہ،۷۲/۳تا۷۳ کتاب الصلاۃ/باب صلوٰۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود،دار الفکر بیروت)۔
وأما الكلام في محلها فنقول: محل القراءة في التطوع الركعات كلها حتى يفترض القراءة في الركعات كلها ، وفي الفرائض محل القراءة الركعتان حتي يفترض القراءة في الركعتين ان كانت الصلاة من ذوات المثنى يقرا فيهما جميعا، وإن كانت من ذوات الأربع يقرأ في الركعتين الأوليين، وفي الأخريين بالخيار : إن شاء قرأ، وإن شاء سبح، وإن شاء سكت، ۔
وفي الحجۃ : إن شاء سكت قدر ثلاث آيات، وإن كان القيام أقل من ذلك لا يقطع صلاتہ ،…….. وإن ترك القراءة والتسبيح في الأخريين لم يكن عليه حرج، ولم يكن عليه سجدتا السهو إن كان ساهيا، لكن القراءة أفضل، هذا هو الصحيح من الروايات، وروی الحسن عن أبي حنيفة رح أنه لو سبح في كل ركعة ثلاث تسبیحات اجزاء، وقراءة الفاتحة أفضل، وإن لم يقرأ ولم یسبح کان مسیٔا إن كان متعمدة، وإن كان ساہية فعليه سجدتا السهو(الفتاوی التاتار خانیۃ۲۷۵/۱کتاب الصلوۃ،دار الکتاب العلمیہ)۔
وإذا قرأ في الأخریین من الظہر، أو العصر الفاتحۃ والسورۃ ساہیا، وفي الحجۃ: أو قرأ السورۃ دون الفاتحۃ، فلا سہو علیہ وہو المختار، وفي النصاب وعلیہ الفتوی۔ (الفتاوی التاتار خانیۃ، کتاب الصلاۃ، الفصل السابع عشر في سجود السہو، زکریا ۲/۳۹۲، رقم:۲۷۶۴، وہکذا في المحیط البرہاني، کتاب الصلاۃ، الفصل السابع عشر في سجود السہو، المجلس العلمي جدید ۲/۳۱۰، رقم:۱۸۵۳، ہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الثاني عشر في سجو السہو، قدیم زکریا۱/۱۲۶، جدید زکریا۱/۱۸۶)ًً۔
ہل یکرہ في الأخریین؟ المختار لا وتحتہ في الشامیۃ: أي لایکرہ تحریماً ؛ بل تنزیہًا؛ لأنہ خلاف السنۃ…وفي أظہر الروایات لایجب، لأن القراءۃ فیہما مشروعۃ من غیر تقدیر والاقتصار علی الفاتحۃ مسنون لاواجب۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، کراچي۱۵۹/۱،دار الکتاب العلمیہ۱۵۰/۲)(الحلبی الکبیر٦٦/۲ صفۃ الصلاۃ/فصل فی صفۃ الصلاۃ،دار الکتاب العلمیہ)ولو قرأ في الأخریین الفاتحۃ والسورۃ لایلزمہ السہو وہوالأصح الخ(ہندیۃ،کتاب الصلاۃ،الباب الثاني عشر في سجود السہو،قدیم زکریا ۱/۱۲۶،جدید زکریا ۱/۱۸۶)نماز کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا ۱۹۹/۳تا۲۰۲) احسن الفتاوی ۷۱/۳باب القراءۃ والتجوید،ایچ ایم سعید)نجم الفتاوی ۲۹۴/۲کتاب الصلاۃ) آپ کے مسائل اور انکا حل ۵۷/۴سجدۃ سهو،مکتبہ لدھیانوی)کتاب النوازل ۶۱۴/۳) فتاویٰ دارالعلوم زکریا ۴۶۴/۲ کتاب الصلاۃ) فتاویٰ رحیمیہ۱۸۵/۵ احکام سجدہ سہو،دار الاشاعت کراچی) فتاویٰ فلاحیہ ۶۶۱/۲) (فتاویٰ قاسمیہ۵۹۳/۷)۔
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی 
احمد نگر ہوجائی آسام الھند
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
۔۲۰شوال المکرم ۱۴۴۱؁ھ م ۱۳ جون ۰۲۰۲؁ء بروز سنیچر

تائید کنندہ
مفتی محمد زبیر بجنوری عفی عنہ
مفتی مرغوب الرحمن القاسمی غفرلہ

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے