روپیہ ادھار دیکر زیادہ لینا درست ہے

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
مسئلہ نمبر 09
صورت مسٔلہ۔۔۔۔۔ایک شخص کچھ رقم مثلا 10000 ہزار روپے ادھار دیتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ میں نے تم سے ان پیسوں کا جو یا چاول خرید لیا ہے 500 روپے من کے حساب سے 20 من 
   اور تم فلاں مہینے میں 600 روپے من کے حساب سے واپس کروگے
 اس ادھار میں جو یا چاول کا صرف نام لیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔تو کیا اس طرح ادھار دینا جائز ہے  ۔۔مع دلیل جواب مطلوب ہے۔(المستفتی محمد اسعد)
#الجواب_وباللہ_التوفیق 
مذکورہ طریقہ سود ہونے کی بنا پر درست نہیں ہے۔جواز کی صورت یہ ہے مذکور معاملہ بیع سلم کے دائرہ میں داخل ہوکر اس وقت جائز ہوسکتا ہےکہ معاملہ کرتے وقت چاول کا وصف مثلاً باسمتی، ہنسراج، سرجو باون،یا جو کا وصف بیان کردی جائے, نیز ادائے گی کا مقام وغیرہ بیان کردیا جائے، اگر یہ شرائط عقد کے وقت واضح نہ ہوں ، تو پھر یہ معاملہ جائز نہ ہوگا۔لہذا صورت مسئولہ میں جب آپنے قرض دیتے وقت صرف شیئ کا نام لیا ہے نہ اسکا وصف بیان کیا ہے اور نہ ہی جگہ ووقت اسلئے یہ بیع درست نہیں ہے۔واضح رہے کہ بیع سلم میں روپیہ کے عوض مبیع کا لینا درست ہے چاہے ادائےگی کے وقت مبیع کا بھاؤ کم وزیادہ کچھ بھی ہو اس کا اعتبار نہیں ہے لیکن اگر مسلم الیہ مسلم فیہ دینے سے عاجز ہو تو رأس المال جتنا روپیہ دیا تھا اتنا ہی روپیہ لیں زیادہ لینا درست نہیں ہے۔ہاں اگر آپ بیع سلم کرلی ہے اور مسلم فیہ اصول بھی کرلیا بعدہ اسکو اسی شخص کے ہاتھ زیادہ قیمت میں فروخت کردیا ہے تو 
اسکی گنجائش ہے۔
عبارت ملاحظہ فرمائیں
کل قرض جر نفعًا حرام۔ (شامي، کتاب البیوع / باب المرابحۃ والتولیۃ، فصل في القرض ۵؍۱۶۶ دار الفکر بیروت، ۷؍۳۹۵ زکریا، الأشباہ والنظائر، کتاب المداینات / الفن الثاني ۱۴۴، قواعد الفقہ ۱۰۲ رقم القاعدۃ: ۲۳۰)
عن ابن عباس -رضي ﷲ عنہ- قال: قدم رسول ﷲ ﷺ والناس یسلفون، فقال لہم رسول ﷲ صلیﷲ علیہ وسلم: من أسلف فلا یسلف إلا في کیل معلوم، ووزن معلوم۔ (صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب السلم، النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۳۱، بیت الأفکار، رقم: ۱۶۰۴، صحیح البخاري، کتاب السلم ۱/ ۲۹۸، رقم: ۲۱۸۷، ف: ۲۲۴۰، سنن الترمذي، أبواب البیوع، باب ماجاء في السلف في الطعام والتمر، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۲۴۵، دارالسلام، رقم: ۱۳۱۱)
ہو جائز في المیکلات والموزونات لقولہ علیہ السلام: من أسلم منکم فلیسلم في کیل معلوم، ووزن معلوم إلی أجل معلوم۔ (ہدایۃ، کتاب البیوع، باب السلم، أشرفي دیوبند ۳/ ۹۲، درمختار، کراچی ۵/ ۲۰۹، زکریا ۷/ ۴۵۵، البحرالرائق، کوئٹہ ۶/ ۱۵۵، زکریا ۶/ ۲۵۹، مجمع الأنہر، قدیم ۲/ ۹۷، جدید دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳/ ۱۳۸)
وجملۃ الشروط جمعوہا في قولہم: إعلام رأس المال، وتعجیلہ، وإعلام المسلم فیہ، وتأجیلہ، وبیان مکان الإیفاء، والقدرۃ علی تحصیلہ۔ (ہدایۃ، کتاب البیوع، باب السلم، أشرفي دیوبند ۳/ ۹۷)(مستفاد: فتاویٰ قاسمیہ۶۰۲/۱۹تا۶۰۵)(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۴۳۲/۱۴تا۴۴۰)(فتاویٰ محمودیہ۲۰۷/۱۶)
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
(خادم)دندوا حافظیہ قاریانہ وخارجیہ مدرسہ آسام الھند
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے