Online Gaming in Islam کیا آن لائن گیم کھیلنا اور اسکے ذریعہ پیسے کمانا جائز ہے؟

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
 
مسئلہ نمبر 63

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا آن لائن گیم کھیلنے سے جو پیسے ملتے ہیں وہ جائز ہے یا ناجائز جبکہ اس میں پہلے کوئی پیسہ نہیں لگانا پڑتا ہے ہار گئے تو کوئی پیسہ دینا بھی نہیں پڑتا لیکن جیت گئے تو پیسے ملتے ہیں؟براہ کرم جواب ارسال فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔(المستفتی: محمد شعیب ہندوستان)

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب وباللہ التوفیق:۔فقہاء علیہم الرحمہ نے لکھا ہے کہ ہر ایسا کھیل جو انسان کو اس پر واجب حقوق سے غافل کردے، خواہ حقوق اللہ ہو یا حقوق العباد،یا منکرات ومنہیاتِ شرعیہ پر مشتمل ہو، یا اس کے نقصانات اس کے فوائد سے زیادہ ہو، ناجائز ومکروہ تحریمی ہے ،تاہم ذکر کردہ گیم کھیلنے کی وجہ سے اگر فرائض و واجبات میں کوتاہی نہیں ہوتا ہے اور اس گیم میں ہار جیت کی شرط نہیں ہے اسی طرح میوزک وجاندار کی تصاویر بھی نہیں ہے تو اس گیم کو کھیلنا درست تو ہے لیکن بہتر نہیں ہے،اب رہی بات کہ اس گیم کو کھیل کر پیسے کمانا جائز ہے یا نہیں؟تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ گیم کے اندر اور اس کے آگے پیچھے اور سائٹ پر چلائے جانے والے اشتہارات عورتوں کی تصاویر،میوزک ،گانے یاکسی اور قسم کے فحش مواد یا ناجائز امور پر مشتمل نہ ہو اسی طرح اشتہارات دینے والی کمپنیوں کا بنیادی کام حلال ہو،ناجائز اورحرام نہ ہو نیز اگر آپ نے ویب سائٹ پر اشتہار رکھنے والے کمپنی سے کوئی معاہدہ کیا ہے اور اس معاہدہ میں کوئی جائز شرائط کا ذکر تھا تو ان کو پورا کیاجائے ،ان کی مخالفت نہ کی جائے اسی طرح گیم کے اندر ہار جیت کی شرط نہ ہو ہاں اگر ایک طرفہ یا فریق ثالث کی جانب سے کوئی شرط ہو تو پھر شرط لگانا جائز ہے۔مذکورہ بالا شرائط کےساتھ اس سے ملنے والا انعام اگر چہ حلال ہوگا ،مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ معمولی گیم کھیل کر وقت جیسا قیمتی اثاثہ کو بے جا ضائع کرنا ایک مسلمان کی شایانِ شان کیسے ہوسکتا ہے؟، لہذا ہرمسلمان کو چاہیے کہ اس طرح کے گیم کھیلنے سے اپنے آپ کو بچائے اور بامقصد زندگی گزاریں۔مزید آنلائن گیموں میں ضیاعِ وقت کے علاوہ درج ذیل مفاسد بھی پائے جاتے ہیں:۔

۔(۱) اس کھیل میں دِینی اور جسمانی کوئی فائدہ مقصود نہیں ہوتا ہے۔

۔(۲) اس میں دین اور دنیاوی فرائض سے انسان غافل ہوجاتا ہے اور گھنٹوں اس میں برباد کردیتا ہے۔

۔(۳) سب سے شدید ضرر یہ ہے کہ اس کھیل کی عادت پڑنے پر چھوڑنا دُشوار ہوتا ہے۔

۔(۴)اس سے بچوں کا ذہن خراب ہوتا ہے اور اس سے بامقصد تعلیم میں خلل واقع ہوتا ہے، پھر بچوں کو پڑھائی اور دُوسرے فائدے والے کاموں میں دِلچسپی نہیں رہتی، وغیرہ وغیرہ۔

اس طرح کے گیم کھیلنے سے اگرچہ وقتی طورپر دِلی فرحت اور لذّت حاصل ہوتی ہے، تاہم اس کے مفاسد کہیں زیادہ ہے ،لہذا یہ کراہت سے خالی نہیں ہے، جیسا کہ فقہاء نے شطرنج کو مکروہ قرار دیا ہے ،۔ ’’و کرہ تحریما اللعب بالنرد و کذا الشطرنج ،تاہم اگر کوئی بیمار ہے اور ڈاکٹر نے اس کے لیے یہ کھیل تجویز کیا ہے جیسے کہ بعض نفسیاتی بیماریوں میں ڈاکٹر اس طرح کے کھیل تجویز کرتے ہیں تاکہ کھیلنے والے کا ذہن مشغول رہے اور اپنی بیماری سے اس کی توجہ ہٹے یا کوئی ٹھوڑی دیر کے لیے اسے کھیلتا ہے اور مذکورہ مفاسد سے مکمل اجتناب کرتا ہے تو اس کے حق میں یہ گیم فی نفسہ جائز ہونا چاہیے۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں:۔

 والجماعة سنة مؤكة للرجال قال الزاهدى ارادو بالتاكيد الوجوب۔(الدر المختار مع الشامیۃ٢٨٧/٢ کتاب الصلاۃ ، باب الإمامۃ ،دار الکتب العلمیہ بیروت)
قضاء الفوائت لم يقل المتروكات ظنا بالمسلم خيرا، إذ التأخير بلا عذر كبيرة لا تزول بالقضاء، بل بالتوبة۔(الدر المختار مع الشامیۃ۵۱۸/۲ کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت ،دار الکتب العلمیہ بیروت)
فيحرم أن ينشغل المرء باللعب إذا كان في ذلك تضييع لواجب شرعي۔(الألعاب الریاضیۃ،ص/۳۲۰،المبحث الأول، المسائل والضوابط المتعلقۃ بالوقت،اجتناب تضییع الواجبات،دار النفائس الأردن)
(وإن شرط فيها) أي في المسابقة (جعل من إحدى الجانبين) مثل أن يقول أحدهما لصاحبه إن سبقتني أعطيك كذا وإن سبقتك لا آخذ منك شيئا (أو) شرط فيها جعل (من ثالث لأسبقهما) مثل أن يقول ثالث للمتسابقين أيكما سبق له علي كذا (جاز) لأنه تحريض على آلة الحرب والجهاد لقوله – عليه الصلاة والسلام – «المؤمنون عند شروطهم» .وفي القياس لا يجوز لأنه تعليق المال بالحظر وعند الأئمة الثلاثة لا يجوز في الأقدام.(وإن) شرط (من كلا الجانبين يحرم) بأن يقول إن سبق فرسك أعطيتك كذا وإن سبق فرسي فأعطني كذا لأنه يصير قمارا والقمار حرام (إلا أن يكون بينهما) فرس (محلل كفء لهما) أي لفرسيهما يتوهم أنه يسبقهما (إن سبقهما أخذ) الجعل (منهما وإن سبقاه لا يعطيهما) شيئا أو بالعكس يعني شرط أيهما لو سبقاه يعطيهما ولو سبقهما لا يأخذ شيئا منهما كما في التسهيل (وفيما بينهما أيهما سبق أخذ) المال المشروط (من الآخر) لأن بالمحلل خرج من أن يكون قمارا فيجوز وإن لم يكن الفرس المحلل مثلهما لم يجز لأنه لا فائدة في إدخاله بينهما فلم يخرج حينئذ من أن يكون قمارا. (وعلى هذا لو اختلف) عالمان (اثنان في مسألة وأرادا الرجوع إلى شيخ) فاضل (وجعلا على ذلك جعلا) قال في المنح لو وقع الاختلاف بين اثنين وشرط أحدهما لصاحبه أنه إن كان الجواب كما قلت أعطيتك كذا وإن كان كما قلت لا آخذ منك شيئا فهذا جائز لأنه لما جاز في الأفراس لمعنى يرجع إلى الجهاد يجوز هنا للحث على الجهد في طلب العلم لأن الدين يقوم بالعلم كما يقوم بالجهاد.
وإن شرط فيها جعل من إحدى الجانبين أو ثالث لأسبقهما جاز ومن كلا الجانبين يحرم، إلا أن يكون بينهما محلل كفى لهما إن سبقهما أخذ منهما وإن سبقاه لا يعطيهما، وفيما بينهما أيهما سبق أخذ من الآخر وعلى هذا لو اختلف اثنان في مسألة وأرادا الرجوع إلى شيخ وجعلا على ذلك جعلا.(وفی مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر۲۱۶/۴تا۲۱۷،کتاب الکرایۃ،فصل فی المتفرقات،دار الکتب العلمیہ بیروت)الدر المختار مع الشامیۃ۵۷۷/۹،کتاب الحظر والاباحۃ/باب الاستبراء وغیرہ،دار الکتب العلمیہ بیروت)۔
مسند الشهاب القضاعي۳۹۳/۱)۔عن الزهري، عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «روحوا القلوب ساعة بساعة»۔
(روحوا القلوب ساعة فساعة) وفي رواية ساعة وساعة أي أريحوها بعض الأوقات من مكابدة العبادات بمباح لا عقاب فيه ولا ثواب قال أبو الدرداء: إني لأجم فؤادي ببعض الباطل أي اللهو الجائز لأنشط للحق وذكر ۔ عند المصطفى صلى الله عليه وسلم القرآن والشعر فجاء أبو بكر فقال: أقراءة وشعر فقال: نعم ساعة هذا وساعة ذاك وقال علي كرم الله وجهه: أجموا هذه القلوب فإنها تمل كما تمل الأبدان أي تكل وقال بعضهم: إنما ذكر المصطفى صلى الله عليه وسلم لأولئك الأكابر الذين استولت هموم الآخرة على قلوبهم فخشي عليها أن تحترق.(فیض القدیر شرح جامع الصغیر۵۲/۴تا۵۳،دار الکتب العلمیہ بیروت)
وحاصل الکلام :ترویح القلب وتفریحہ وکذا تمیرین البدن من الارتفاقات المباحۃ والمصالح البشریۃ التی التی لاتمنعھا الشرعیۃ السمحۃ برأسھا نعم تمنع الغلو والانھماک فیھا بحیث یضر بالمعاش اوا المعاد………………………………………………………………………….فالضابط في هذا الباب عند مشايخنا الحنفية المستفاد من أصولهم وأقوالهم أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته وليس له غرض صحيح مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريما وهذا أمر مجمع عليه في الأمة متفق عليه بين الأئمة وما كان فيه غرض ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي عنه من الكتاب أو السنة (كما في النردشير) كان حراما أو مكروها تحريما وألغيت تلك المصلحة والغرض لمعارضتها للنهي المأثور حكما بأن ضرره أعظم من نفعه وأما ما لم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين:الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب على منافعه وأنه من اشتغل به ألهاه عن ذكر الله وحده وعن الصلوات والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لإشتراك العلة فكان حراما أو مكروها ووالثاني ما ليس كذلك فهو أيضا إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح بل قد يرتقي إلى درجة الإستحباب أو أعظم منه وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها ما لم تشمل على معصية أخرى وما لم يؤد الإنهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه ودنياه والله سبحانه أعلم (أحکام القرآن۱۲۶/۵،تکملۃ فتح الملہم۴۳۵/۴،قبیل کتاب الرؤیا،دار العلوم کراچی۳۸۱/۱۰تا۳۸۲،کتاب الشعر،دار احیاء التراث العربی بیروت)مستفاد:قاموس الفقہ۱۱۶/۴تا۱۱۸)(المسائل المہمہ۲۰۳/۴)(محقق ومدلل جدید مسائل۷۵۳/۱)(دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی،فتوی نمبر :60683)دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن فتوی نمبر:144008200978)۔

واللہ اعلم بالصواب محمد امیر الدین حنفی دیوبندی

احمد نگر ہوجائی آسام الہند

منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الہند

۔۱۳۔شوال المکرم ۲۴۴۱؁ھ م۲۶ مئی ۱۲۰۲؁ء بروز بدھ

تائید کنندگان

مفتی مرغوب الرحمن القاسمی عفی عنہ

مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ

منتظمین مجلس شوریٰ المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ

مفتی مختار حسین الحسینی غفرلہ

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے