صلاۃ الحاجات اور چاشت کی نماز کی فضائل و مسائل

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

 

صلاۃ الحاجات اور چاشت کی نماز کی فضائل و مسائل
 
صلاۃ الحاجات اور چاشت کی نماز کی فضائل و مسائل

 السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔۔۔

نماز حاجت اور نماز چاشت  کیوں پڑھیں جاتی ہے کیا وقت پڑھی جاتی ہے  وضاحت فرمائیں مہربانی ہوگی۔ سائل :- عرفان ارشاد

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب

        صلاۃ الحاجۃ عام نفل نماز کی طرح ایک نما ز ہے ، جو اس نیت سے پڑھی جاتی ہے کہ اپنی کسی غرض کے لیے اللہ تعالی سے اس کے بعد دعا کی جائے۔

       حدیث میں ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ سے کوئی خاص حاجت یا اس کے کسی بندے سے کوئی خاص کام پیش آجائے تو اس کو چاہیے کہ وضو کرے خوب اچھی طرح، پھر دو رکعت (اپنی حاجت کی نیت سے) نمازِ حاجت پڑھے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے اور رسول اللہﷺ پرصلاۃ وسلام بھیجے (یعنی درود شریف پڑھے) اس کے بعد یہ دعا کرے:

لَا اِلٰـهَ اِلَّا اللّٰهُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ، سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، اَسْئَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ، وَالْعِصْمَةَ مِنْ کُلِّ ذَمنْبٍ، وَالْغَنِیْمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ، وَّالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِیْ ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَه وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَه وَلَا حَاجَةً هِيَ لَکَ رِضًا إِلَّا قَضَیْتَهَا یَا أَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ”

         چاشت کی نماز کے مختلف فضائل ہیں، من جملہ ان میں سے ایک یہ ہے:  حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص کے ذمہ اس کے جسم کے ایک ایک جوڑ کے شکرانے میں روزانہ ایک صدقہ ہے، ہر بار سبحان اللہ کہنا ایک صدقہ ہے، ہر بار الحمد للہ کہنا ایک صدقہ ہے، ہر بار لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے، ہر بار اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے، بھلائی کا حکم کرنا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا ایک صدقہ ہے اور ہر جوڑ کے شکر کی ادائیگی کے لیے چاشت کے وقت دو رکعت پڑھنا کافی ہو جاتا ہے۔ 

صحيح مسلم (1/ 498):

"عن أبي ذر عن النبي صلى الله عليه وسلم، أنه قال: «يصبح على كل سلامى من أحدكم صدقة، فكل تسبيحة صدقة، وكل تحميدة صدقة، وكل تهليلة صدقة، وكل تكبيرة صدقة، وأمر بالمعروف صدقة، ونهي عن المنكر صدقة، ويجزئ من ذلك ركعتان يركعهما من الضحى».”

        صلاۃ الحاجات کا کوئی مخصوص وقت مقرر نہیں جب چاہیں ادا کریں، صرف اتنا اہتمام ضروری ہے کہ وہ وقت نفل نماز کی ادائیگی کے لیے ممنوع نہ ہو۔البتہ رات کے آخری پہر میں دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں۔

"عن عقبة بن عامر الجهني رضي اللّٰه عنه قال: ثلاث ساعات کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم ینهانا أن نصلي فیهن أو أن نقبر فیهن موتانا: حین تطلع الشمس بازغةً حتی ترتفع، وحین یقوم قائم الظهیرة حتی تمیل الشمس، وحین تضیف الشمس للغروب حتی تغرب”. (صحیح مسلم، الصلاة، باب الأوقات التي نهي عن الصلاة فیها، ۱؍۲۷۶رقم: ۸۳۱ بیت الأفکار)

         چاشت کا وقت سورج خوب روشن ہوجانے (دس گیارہ بجے) کے بعد سے شروع ہوکر نصف النہار تک رہتا ہے۔

 قال العلامة سراج أحمد في شرح الترمذي لہ: إن المتعارف في أول النہار صلاتان الأولی بعد طلوع الشمس وارتفاعہا قدر رمحٍ أو رمحین والثانیة عند ارتفاع الشمس قدر رمح النہار إلی ما قبل الزوال ویقال لہا صلاة الضحی واسم الضحی في کثیر من الأحادیث شامل لکلیہما، وقد ورد في بعضہا النظر الإشراق أیضًا (إعلاء السنن: ۷/۳۰)

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند ،  

Fatwa ID: 200-318/L=4/1438

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن  فتوی نمبر : 144012200679 ، فتوی نمبر : 144012200680، فتوی نمبر : 144112201028 ،  ۔  فقط واللہ اعلم بالصواب۔

مختار حسین غفرلہ۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے