ذو الحجہ کے مہینہ میں قربانی سے پہلے مرغی، بطخ، مچھلی، یا دیگر جانور ذبح کرنے کا حکم۔

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

Qurbani masail

مسئلہ نمبر 61

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا ذی الحجہ کے مہینہ میں قبل القربانی کسی بھی قسم کے جانور کو ذبح کرنا اور اسکا گوشت کھانا حلال ہے۔؟مدلل ومفصل جواب مطلوب ہے۔(مستفتی: ریاض الرحمن غفرلہ امام وخطیب دلباری جامع مسجد مریگاوں آسام الھند)۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق
فقہاء نے لکھا ہے کہ جس شخص کو قربانی کرنے کا ارادہ ہو وہ یکم ذی الحجہ تا قربانی اپنا بال وناخن نہ کاٹے،اور یہ حکم وجوبی نہیں بلکہ استحبابی ہے،لیکن اس حکم کو بعض ناواقف لوگوں نے من مانی جوڑ لیا ہے اور اس کو دوسرا رُخ دیکر بعض علاقوں میں مشہور کردیا ہے کہ ذی الحجہ کے مہینہ میں قربانی سے قبل کسی بھی جاندار کو ذبح کرنا اور اسکا گوشت کھانا درست نہیں ہے،یہ بات سراسر غلط ہے اسکی کوئی اصلیت نہیں ہے۔اصل بات یہ ہے کہ جس طرح دیگر مہینوں میں جانور ذبح کرنا اور اسکا گوشت کھانا حلال ہے اسی طرح ذی الحجہ کے مہینہ میں  بھی جانور ذبح کرنا اور اسکا گوشت کھانا حلال ہے،البتہ جو قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اس کےلئے یکم ذو الحجہ تا قربانی کسی بھی قسم کی بال، ناخن نہ کاٹنا مستحب ہے۔
جامعۃ العلوم الاسلامیۃ علامۃ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی میں لکھا ہے کہ
دس ذی الجحہ سے قبل کسی بھی جانور کو ذبح کرنا شرعا ممنوع نہیں ہے، لہذا صورت مسئولہ میں کھانے پینے، یا صدقہ کرنے کے لئے چھوٹا بڑا ہر قسم کا حلال جانور ذبح کرنا جائز ہے، شرعا کوئی ممانعت نہیں، البتہ  دس ذی الحجہ سے قبل قربانی کی نیت سے کسی جانور کو ذبح کرنے سے قربانی کا فریضہ  ذمہ سے ساقط نہ ہوگا بلکہ عید کے ایام میں ہی یہ فریضہ ادا کرنا لازم ہوگا۔(فتوی نمبر:144112200102)۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں
عن أم سلمة رضي الله عنها، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:إذا دخلت العشر، وأراد أحدكم أن يضحي، فلا يمس من شعره وبشره شيئاً،وفي رواية:فلا يأخذن شعرا ولا يقلمن ظفرا۔(فتح المنعم شرح صحیح المسلم۱۰۲/۸،باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو مريد التضحية أن يأخذ من شعره أو أظفاره شيئا،دار الشروف بیروت)۔
عن أم سلمة رضي الله عنها،عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:من رأى هلال ذي الحجة، فأراد أن يضحي، فلا يأخذ من شعره، ولا من أظفاره حتى يضحي.(فتح المنعم شرح صحیح المسلم۱۰۲/۸،باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو مريد التضحية أن يأخذ من شعره أو أظفاره شيئا،دار الشروف بیروت)(سنن النسائي٢٤١،دارالمعرفۃ،بیروت)اوجزالمسالک۲۲۹/۱٠تا٢٣٠،کتاب الضحایا،دار القلم دمشق)۔
(فلا يأخذن شعراً، ولا يقلمن ظفراً) يقلمن بفتح الياء، وسكون القاف وكسر اللام، قال العلماء: المراد النهي من إزالة الشعر بحلق أو تقصير أو نتف أو إحراق أو أخذه بنورة أو غير ذلك، وسواء شعر الرأس والإبط والشارب والعانة وغير ذلك من شعور بدنه، تشبهاً بالمحرم بالحج والعمرة.
وكذلك الظفر، يتوجه النهي إلى إزالة الظفر كله أو جزئه بقلم أو كسر أو غيره.۔(فتح المنع شرح صحيح المسلم،١٠٢/٨تا١٠٥،دار الشروف بیروت)۔
أقول:نهي النبي صلي الله عليه وسلم من أراد التضحية عن قلم الاظفار وقص الشعر في الشعر الأول والنهي محمول عندنا علي خلاف الأولى.(إعلاء السنن ٣٠٤/١١،باب ما يندب للمضحي في عشر ذي الحجة،دار الکتب العلمیۃ بیروت ۱۷/۲۹۱)۔
قال في شرح المنية: وفي المضمرات عن ابن المبارك في تقليم الأظفار وحلق الرأس في العشر أي عشر ذي الحجة قال لا تؤخر السنة وقد ورد ذلك ولا يجب التأخير اهـ ومما ورد في صحيح مسلم قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – «إذا دخل العشر وأراد بعضكم أن يضحي فلا يأخذن شعرا ولا يقلمن ظفرا» فهذا محمول على الندب دون الوجوب بالإجماع، فظهر قوله: ولا يجب التأخير إلا أن نفي الوجوب لا ينافي الاستحباب فيكون مستحبا إلا إن استلزم الزيادة على وقت إباحة التأخير ونهايته ما دون الأربعين فلا يباح فوقها.(شامی ٦٦/۳کتاب الصلاۃ/باب الکسوف،دار الکتب العلمیہ بیروت)اوجزالمسالک شرح الی موطأ مالک٢٣١/١٠،کتاب الضحایا،دار القلم دمشق)۔
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام الھند
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الھند
۔۸۔ذوالحجہ ۱۴۴۱؁ھ م٣٠ جولائی ۰۲۰۲؁ء بروز جمعرات

تائید کنندہ
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ
مفتی مرغوب الرحمٰن القاسمی غفرلہ
مفتی محمد امام الدین القاسمی عفی عنہ
منتظم مجلس شوریٰ المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الھند

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے