جماعت ثانی کا حکم

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
مسئلہ نمبر:15
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ہمارے یہاں ظہر کی جماعت دو بجے ہورہی ہے، چند ساتھیوں کی ایک جماعت سفر پر جارہی ہے، ڈیڑھ بجے گاڑی ہے، یہ جماعت مسجد میں آہستہ سے ایک بجے اذان پڑھ کر اور مسجد میں اسی مصلیٰ پر جہاں امام نماز پڑھاتا ہے، باقاعدہ اقامت سے جماعت کرکے ایک بجے اپنے سفر پر روانہ ہوگئی۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا ہمارے ساتھیوں کا یہ طریقہ درست ہوا؟ اور اس سے متعینہ مسجد کی اذان واقامت اور جماعت پر کوئی اثر تو نہیں ہوگا؟ اگر آئندہ کوئی ایسی صورت پیش آئے، تو ایسا کرلینے میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسئولہ صورت میں نماز کے طے شدہ وقت سے پہلے محلہ کے چند لوگوں کا مل کر اذان واقامت کے ساتھ امامکے مصلیٰ پر باجماعت نماز ادا کرنا مکروہ ہے، اور متعینہ وقت ہوجانے پر معمول کے مطابق جو نماز جماعت سے ادا کی جائے گی وہ بلاکراہت جائز اور درست ہوگی، اور آئندہ اگر اس طرح کی ضرورت پڑجائے تو عازمین سفر اہل محلہ کو مسجد کی حدود سے باہر جماعت کرنی چاہئے۔
ولو صلّٰی بعض أہل المسجد بإقامۃ وجماعۃ، ثم دخل المؤذن والإماموبقیۃ الجماعۃ، فالجماعۃ المستحب لہم والکراہۃ للأولیٰ۔ (ہندیۃ ۱؍۵۴، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۱۵۶ رقم: ۲۰۱۳ زکریا)
وفي المدونۃ: قلت لابن القاسم: أرأیت مسجداً لہ إمام راتب إن مر بہ قوم فجمعوا فیہ صلوٰۃ من الصلوات للإمام أن یعید تلک الصلوٰۃ فیہ بجماعۃ؟ قال: نعم۔ (إعلاء السنن ۴؍۲۶۲ کراچی)
فإن صلی فیہ قوم من الغرباء بالجماعۃ، فلأہل المسجد أن یصلوا بعدہم بأذان وإقامۃ؛ لأن إقامۃ الجماعۃ في ہٰذا المسجد حقہم۔ (منحۃ الحقائق علی ہامش البحر الرائق ۱؍۶۰۲، کذا في الدر المختار علی الرد المحتار ۱؍۵۵۳ کراچی، الفقہ الإسلامي وأدلتہ ۲؍۱۱۸۲)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
فتاوی قاسمیہ۵۱۴/۴
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
جمع شدہ فتاوی مسلک دارالعلوم دیوبند
https://t.me/jamashuda
+917086592261
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے