موجودہ زمانے میں کسی امام یا مذہب کی تقلید کئے بغیر چلنا کیسا ہے؟

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
مسئلہ نمبر:14


موجودہ زمانے میں کسی امام یا مذہب کی تقلید کئے بغیر چلنا کیسا ہے؟

ســــوال:

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: موجودہ زمانہ میں تقلید یعنی کسی ایک امام یا مذہب کو مانے بغیر چلنا کیسا ہے؟

               باسمـــهٖ سبحــــانـــه تعـــالیٰ

          الجــــواب وباللـــــه التـــوفـیــــق:

موجودہ دور میں بالاجماع راہِ حق پر استقامت کے لئے حضراتِ ائمہ اربعہ یعنی امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ میں سے کسی ایک کی تقلید واتباع کرنا لازم اور ضروری ہے، اور اس اتباع کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ان حضرات ائمہ اربعہ نے اپنے گہرے علم اور بے مثال فہم وفراست اور اجتہادی صلاحیت سے قرآن وحدیث کی نصوص کو جس طرح سمجھا ہے، اس پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی بات کو تسلیم کرلیا جائے.

تقلید کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ قرآن وحدیث کو چھوڑکر نعوذ باللہ ان ائمہ کو صاحب شریعت کا عہدہ دے دیا گیا ہے؛ بلکہ اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ جیسے کوئی عام شخص کسی عالم دین سے اس کے علم پر اعتماد کرتے ہوئے مسئلہ پوچھتا ہے اور پھر اس پر یہ سمجھ کر عمل کرتا ہے کہ حکم شریعت یہی ہے۔

تجربہ اور تحقیق سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ نصوصِ شرعیہ اور اختلافاتِ صحابہ کی روشنی میں جتنی احتمالی صورتیں اور جزئی وکلی مسائل متصور تھے، وہ سب کسی نہ کسی انداز میں ائمہ اربعہ کی تخریجات کے ضمن میں جمع ہوچکے ہیں، اب ان سے الگ ہوکر کسی نئے مکتب فکر کی بنیادیں استوار کرنا متصور نہیں ہے۔

اور اگر چاروں ائمہ کے مسائل مخلوط کرکے اپنی مرضی سے ایک نیا مسلک ترتیب دیں تو پھر یہ دین محض مذاق بن کر رہ جائے گا، آج ایک ترتیب سامنے آئے گی، کل دوسری جماعت اپنی سہولت کے اعتبار سے دوسری ترتیب بنالے گی، اور شریعت نفسانی خواہشات کے لئے کھلونا بن کر رہ جائے گی، اس لئے ضروری ہے کہ صرف ایک امام کی اتباع کی جائے اور تلفیق یعنی مذہب میں غت ربود سے بچائے ۔ 
(فتاویٰ رحیمیہ ۴؍۱۸۹، فتاویٰ محمودیہ ۵؍۲۸۹ -۱۵؍۸۲، کفایت المفتی ۱؍۳۲۸)

إن هذہ المذاهب الأربعة المدونة المحررۃ قد اجتمعت الأمة أو من یعتد به منها علی جواز تقلیدها إلی یومنا هٰذا، وفی ذٰلک من المصالح ما لا یخفی لا سیما فی هٰذہ الأیام التی قصرت فیها الهمم جداً وأشربت النفوس الهوی وأعجب کل ذی رای برأیه۔ (حجۃ اللہ البالغۃ ۱؍۱۵۴)

ووجهه أنه لو جاز اتباع إلی مذهب من شاء لأفضی إلی أن یلتقط رخص المذاهب متبعا هـواہ، ویتخیر بین التحلیل والتحریم والوجوب والجواز وذٰلک یؤدی إلی إضلال ربقـة التکلیف بخلاف العصر الأول فإنه لم تکن المذاهب لاوافیة بأحکام مهذبة فعلیٰ هـٰذا یلزمه أن یجتهـد فی اختیار مذهب یقلدہ علی التعیین۔ (شرح المهذب ۱؍۵۵ بحواله اعلاء السنن ۲؍۲۲۳)

فقط واللہ تعالیٰ اعلم

کتاب النوازل٧١/١

محمد امیر الدین حنفی دیوبندی

جمع شدہ فتاوی مسلک دارالعلوم دیوبند

https://t.me/jamashuda

+917086592261

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے