کیا حضور ﷺ سے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ثابت ہے

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

کیا حضور ﷺ سے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ثابت ہے۔

سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے؟
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللہ التوفیق:
ناف کے اوپر اور سینہ پر ہاتھ باندھنے کے متعلق بھی احادیث میں وارد ہے۔ اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے سے متعلق بھی بہت سی روایات کتب حدیث میں موجود ہیں، ہم نے ’’غیر مقلدین کے چھپن اعتراضات کے جوابات‘‘ میں سینہ کے اوپر ہاتھ باندھنے سے متعلق ۳؍ روایت نقل کی ہیں۔ اور ناف کے نیچےہاتھ باندھنے سے متعلق ۶؍ روایات نقل کی ہیں، ناظرین براہ راست ان روایات کو دیکھ لیں، صفحہ: ۶۸ سے صفحہ: ۷۳ تک یہ روایات درج ہیں۔ اور ہمارے سامنے سینہ پر ہاتھ باندھنے سے متعلق اور ناف کےنیچے ہاتھ باندھنے سے متعلق دونوں طرح کی روایات موجود ہیں۔ اور سینہ کے اوپر ہاتھ باندھنے سے متعلق روایات کے مقابلہ میں نافکے نیچے ہاتھ باندھنے کی روایت زیادہ صحیح اور زیادہ قوی ہے۔ اور سند کے اعتبار سے متصل السند، مرفوع اور عالی سند کے ساتھ مروی ہے۔ حدیث شریف مع سند کے ملاحظہ فرمائیے:
حدثنا وکیع، عن موسیٰ بن عمیر، عن علقمۃ بن وائل بن حجر، عن أبیہ، قال: رأیت النبي صلی اللہ علیہ وسلم وضع یمینہ علی شمالہ في الصلاۃ تحت السرۃ، رجالہ کلہم ثقات۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، قدیم ۱/ ۳۹۰، مؤسسۃ علوم القرآن جدید ۳/ ۳۲۰، رقم: ۳۹۵۹)
اور اس کے مقابلہ میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کی جتنی بھی روایات ہیں، ان میں سے کوئی بھی روایت ایسی نہیں ہے، جس پر کچھ نہ کچھ کلام نہ کیا گیا ہو؛ لیکن یہ ایک امر مستحب ہے؛ اس لئے ناف کے اوپر یا سینہ کے اوپر ہاتھ باندھنے والوں پر حنفیہ کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا ہے، نیز زیر ناف ہاتھ باندھنے میں زیادہ تعظیم بھی ہے اور عورتوں کے ساتھ مشابہت بھی نہیں ہے، حالانکہ سینہ پر ہاتھ باندھنے کی صورت میں عورتوں کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے؛ اس لئے حنفیہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو مستحب کہتے ہیں۔(فتاوی قاسمیہ۶۳۲/۵)
فقط و اللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
=================================
زیر ناف ہاتھ باندھنے کا تحقیقی جائزہ
نماز کے اندر سینہ پر ہاتھ باندھا جائے یا ناف کے نیچے؟ تو اس بارے میں ائمہ اہل حق کے درمیان تھوڑا سا اختلاف ہے، کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا افضل اور مستحب ہے۔ حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ناف کے اوپر سینہ کے نیچےہاتھ باندھنا افضل ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہناف کے نیچے اور اوپر دونوں میں اختیار ہے؛ لیکن حضرت وائل بن حجرؓ کی صحیح مرفوع متصل روایت کی وجہ سے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا زیادہ راجح ہے، مگر غیر مقلدین نے اس کو حق وباطل کا مسئلہ بنا لیا ہے، ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں؛ اس لئے صحیح بات کو واضح کرنے کے لئے یہ تحریر لکھنے کی ضرورت پڑی، اب اس سلسلے میں احادیثِ شریفہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے ہم نے پورے ذخیرۂ حدیث کا اس سلسلہ میں مطالعہ کرکے دیکھا تو روایات دونوں طرف موجود ہیں، سینہ پر ہاتھ باندھنے کی روایات بھی کتب حدیث میں موجود ہیں، مگر وہ تمام روایات متکلم فیہ ہیں اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے سے متعلق بھی کتب حدیث میں کافی روایات موجود ہیں، متعدد صحابہ کرام سے مرفوع اور غیر مرفوع روایات موجود ہیں؛ لیکن غیر مقلدین یاد رکھیں کہ حنفیہ صرف حضرت علیؓ کے قول سے استدلال نہیں کرتے ہیں؛ بلکہ قول علیؓ کے علاوہ تحت السرۃ ہاتھ باندھنے کے متعلق متعدد صحابہؓ سے روایات مروی ہیں، اور ان میں صحیح ، مرفوع، متصل حدیث سند عالی کے ساتھ بھی موجود ہیں، جو آگے ’’مصنف ابن ابی شبیہ‘‘ کے حوالہ سے ہم آپ کی خدمت میں پیش کریںگے؛ لہذا ہم آپ کے سامنے اولاً دونوں قسم کی روایات پیش کرتے ہیں، اس کے بعد اصل مسئلہ کیا ہے؟ اس کو پیش کریںگے۔
………………………………………………………………..
سینہ پر ہاتھ باندھنے کی روایات
سینہ پر ہاتھ باندھنے سے متعلق تین روایات ہم کو ملی ہیں۔
(۱) حضرت وائل بن حجر کی روایت:
أخبرنا أبو سعید أحمد بن محمد الصوفي، أنبأنا أبو أحمد بن عدي الحافظ، حدثنا ابن صاعد، حدثنا إبراہیم بن سعید ، حدثنا محمد بن حجر الحضرمي، حدثنا سعید ابن عبد الجبّار ابن وائل عن أبیہ عن أمّہ عن وائل بن حجر قال: حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا أوحین نہض إلی المسجد،فدخل المحراب، ثم رفع یدیہ بالتکبیر، ثم وضع یمینہ علی یسراہ علی صدرہ۔ ورواہ أیضا مؤمل بن اسماعیل عن الثوري عن عاصم بن کلیب عن أبیہ عن وائل أنہ رأَی النبي صلی اللہ علیہ وسلم وضع یمینہ علی شمالہ، ثم وضعہما علی صدرہ۔ (السنن الکبری للبیہقی دار الفکر بیروت ۲/ ۳۱۷، حدیث: ۲۳۸۳، دارالمعرفۃ ۲/ ۳۰، نصب الرایۃ ۱/ ۳۱۵، تحفۃ الأحوذي ۲/ ۷۹، صحیح ابن خزیمۃ، المکتب الإسلامي ۱/ ۲۷۲، برقم: ۴۷۹)
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت حاضر ہوا جب آپ مسجد کے لئے تشریف لے جارہے تھے، تو آپ محراب میں داخل ہوئے، اور تکبیر تحریمہ کے لئے ہاتھ اٹھایا، اور دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر سینہ کے اوپر رکھا، نیز مؤمل بن اسماعیل کی روایت میں ہے کہ حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا، پھر ان دونوں کو سینہ کے اوپر رکھا۔
(۲) حضرت ہلب طائی کی روایت:
حدثنا عبداﷲ، حدثني أبي، حدثنا یحییٰ بن سعید عن سفیان، حدثني سماک بن حرب عن قبیصۃ بن ہلب عن أبیہ قال: رأیت النبي صلی اللہ علیہ وسلم ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ، ورأیتہ قال: یضع ہذہ علی صدرہ، ووصف یحییٰ الیمنی علی الیسری فوق المفصل۔ (مسند إمام أحمد ۵/ ۲۲۶، رقم: ۲۲۳۱۳، تحفۃ الأحوذي ۲/ ۸۰، إعلاء السنن ۲/ ۱۸۴ کراچی، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۴/ ۱۸۴)
حضرت ہلب طائی فرماتے ہیں کہ میں نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ دائیں طرف اور بائیں طرف متوجہ ہوجاتے تھے، اور میں نے آپؐ کو اشارہ فرماتے ہوئے دیکھا کہ اس کو اپنے سینے پر رکھے ہوئے ہیں ۔ اور حدیث کے راوی یحییٰ بن سعید نے ’’ہذہ علی صدرہ‘‘ کی وضاحت یوں بیان فرمائی ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کلائی کے اوپر رکھتے تھے۔
(۳) حضرت طاؤس بن کیسان کا اثر:
وعن طاؤس قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یضع یدہ الیمنی علی یدہ الیسری، ثم یشبّک بہما علی صدرہ وہو فی الصلاۃ۔ (مراسیل أبوداؤد ۶، تحفۃ الأحوذي ۲/ ۸۱، معارف السنن ۲/ ۴۴۰)
اور حضرت طاؤس ابن کیسان سے مرسل روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر رکھتے، پھر ان دونوں کو باندھ کرکے نماز میں اپنے سینے پر رکھتے تھے۔
سینے پر ہاتھ باندھنے سے متعلق یہ تین روایتیں ہیں، پہلی روایت حضرت وائل بن حجر کی ہے، حضرت وائل بن حجر کی روایت متکلم فیہ اور ضعیف ہے، اور ان کی روایت کی سند میں محمد بن حجر منکر الحدیث ہے، سنن کبری بیہقی کے حاشیہ میں اس پر کافی بحث کی ہے، اسی طرح وائل بن حجر کی روایت مؤمل سے بھی نقل کی گئی ہے۔ (السنن الکبری للبیہقی نسخہ قدیم ۲/ ۳۰، نسخہ بیروت ۲/ ۴۶)
تہذیب الکمال اور میزان الاعتدال میں ان کو کثیر الغلط کہا گیا ہے۔ اور امام بخاریؒ نے منکر الحدیث کہا ہے، جب کہ امام ابو حاتم اور امام ابوزرعہ رازی وغیرہ نے ان کو کثیر الخطاء کہا ہے۔ (سنن کبریٰ ۲/ ۳۰) کے حاشیہ میں یہ پوری تفصیل موجود ہے۔
اور ہلب کی روایت میں ’’یضع ہذہ علی صدرہ‘‘ کا لفظ متعین نہیں ہے، اس پر محدثین نے زبردست کلام کیا ہے، عون المعبود اور التعلیق الحسن وغیرہ میں اس لفظ پر کلام کیا ہے کہ علی صدرہ کا لفظ از قبیل تصحیف ہے ، یہ کاتب کی طرف سے تصحیف ہے اور لفظِ وصف یحییٰ الیمنیٰ کے الفاظ سے واضح ہے کہ یحییٰ نے اپنی طرف سے یمنیٰ کا لفظ بڑھایا ہے، الیمنیٰ حدیث کا لفظ نہیں ہے، اور حدیث کے الفاظ ’’یضع ہذہ علی ہذہ‘‘ ہیں؛ لہذا صحابی کے الفاظ میں ’’ علی ہذہ ‘‘ ہے ’’علی صدرہ‘‘ نہیں ہے، نیز حضرت ہلب کی روایت دوسری اسناد سے جو مروی ہے، اس میں کہیں بھی ’’علی صدرہ‘‘ کا لفظ نہیں ہے، اعلاء السنن میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ (اعلاء السنن کراچی ۲/ ۱۶۹، بیروت ۲/ ۱۸۰ تا ۱۸۴)
نیز علامہ شوق نیموی نے التعلیق الحسن علی آثار السنن میں مختلف دلائل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ حضرت ہلب کی روایت میں در حقیقت علی صدرہ کے الفاظ نہیں ہیں، یہ کاتب کی طرف سے اضافہ ہے، نیز ہلب کی روایت میں سماک ابن حرب کو لین الحدیث کہا گیا ہے؛ اس لئے حضرت ہلب کی روایت بھی متکلم فیہ ثابت ہوئی۔
اور طاؤس بن کیسان کا اثر جو حدیثِ مرفوع نہیں ہے، اور طاؤس اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کون کون سے راوی ہیں ان کا کوئی نام ونشان نہیں ہے، اس طرح متکلم فیہ روایات کے ذریعہ سے سینہ پر ہاتھ باندھنے کا اصرار اور نہ باندھنے والوں پر تنقید والزامات عائد کرنا کونسی انصاف کی بات ہے۔(فتاوی قاسمیہ۶۳۳/۵)
واللہ اعلم بالصواب
=================================
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی روایات
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے متعلق بہت سی روایات کتبِ حدیث میں موجود ہیں، ہم ان میں سے سات (۷) روایات پیش کرتے ہیں۔
(۱) حضرت وائل بن حجر کی روایت:
حدثنا وکیع عن موسیٰ بن عمیر عن علقمۃ بن وائل بن حجر عن أبیہ قال: رأیت النبي صلی اللہ علیہ وسلم وضع یمینہ علی شمالہ في الصلاۃ تحت السّرۃ۔ (رجالہ کلّہم ثقاتُ إثبات) (مصنف ابن أبي شیبۃ ۱/ ۳۹۰، نسخہ جدید ۳/ ۳۲۰، رقم: ۳۹۵۹)
حضرت وائل ابن حجرؒ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کو دیکھا ہے کہ آپ نے نماز کے اندر دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر دونوں ہاتھوں کو ناف کے نیچے رکھا۔
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث شریف کی سند کے تمام رواۃ ثقہ اور معتبر ہیں، ان میں سے کسی پر کوئی کلام نہیں ہے؛ اس لئے اس صحیح مرفوع متصل حدیث کے بعد پھر کسی کو کسی قسم کے اشکال کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے، اور ہم پھر بھی اس کی تائید میں چند آثار نقل کردیتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے:
(۲) حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا اثر:
حدثنا أبومعاویۃ عن عبدالرحمن بن اسحاق عن زیاد بن زید السّوائي عن أبي جحیفۃ عن علیؓ قال: من سنۃ الصلاۃ أن توضع الأیدي علی الأیدي تحت السّرۃ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ (مسند أحمد ۱/ ۱۱۰، رقم: ۸۷۵، سنن دارقطني ۱/ ۲۸۹، رقم: ۱۰۸۹، مصنف ابن أبي شیبۃ قدیم ۱/ ۳۹۰، جدید ۳/ ۳۲۴، برقم: ۳۹۶۶)
فرماتے ہیں کہ نماز کی سنتوں میں سے یہ ہے کہ ہاتھوں کو ہاتھوں پر ناف کے نیچے رکھا جائے۔
(۳) عن النعمان بن سعد، عن علي أنہ کان یقول: إن من سنۃ الصلاۃ وضع الیمین علی الشمال تحت السرۃ۔ (سنن دا ر قطني ۱/ ۲۸۹، رقم: ۱۰۹۰)
حضرت نعمان بن سعد، حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ فرمایا کرتے تھے کہ بیشک نماز کی سنتوں میں سے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پرناف کے نیچے رکھنا ہے۔
(۴) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا اثر:
حدثنا مسدّد، حدثنا عبد الواحد ابن زیاد عن عبدالرحمن بن إسحاق الکوفي عن یسار أبي الحکم عن أبی وائل قال: قال أبوہریرۃ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،
رضی اللہ تعالی عنہ: أخذ الأکف علی الأکف في الصلاۃ تحت السّرۃ۔ (إعلاء ا لسنن بیروت ۲/ ۱۸۲، سنن کبریٰ للبیہقی ۲/ ۳۱۹، برقم: ۲۳۹۰، تحفۃ الأحوذي ۲/ ۷۸، المحلی بالآثار ۳/ ۳۰ )
وہ فرماتے ہیں کہ ہاتھوں کو ہاتھوں سے پکڑ کر نماز میں ناف کے نیچےرکھا جائے۔
(۵) عن أبي ہریرۃ قال: وضع الکف علی الکف في الصلاۃ تحت السرۃ۔ (المحلی بالآثار ۳/ ۳۰ تحت المسئلۃ ۴۴۸)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھنا ہے۔
(۶) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا اثر:
عن أنس رضی اللہ تعالی عنہ قال: ثلاث من أخلاق النبوۃ: تعجیل الإفطار، وتأخیر السّحور، ووضع الید الیمنی علی الیسریٰ في الصلاۃ تحت السرۃ۔ (المحلی بالآثار ۳/ ۳۰، معارف السنن ۲/ ۴۴۴، تحفۃ الأحوذي ۲/ ۷۹)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبوت کی صفات میں سے تین صفتیں ہیں: (۱) افطار میں جلدی کرنا (۲) سحری میں تاخیر کرنا (۳) نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا۔
(۷) حضرت ابراہیم نخعیؒ کا اثر:
حدثنا وکیع عن ربیع عن إبراہیم قال: یضع یمینہ علی شمالہ فی الصلاۃ تحت السّرۃ۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ ۱/ ۲۹۰، مصنف ابن أبي شیبۃ ۱/ ۳۹۱، جدید ۳/ ۳۲۲ برقم: ۳۹۶۰)
حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نماز کے اندر دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا جائے۔
ان تمام روایات سے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کا طریقہ ثابت ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سینہ پر ہاتھ باندھنے سے متعلق اورناف کے نیچے ہاتھ باندھنے سے متعلق دونوں طرح کی روایات ہمارے سامنے ہیں، اور سینہ کے اوپر ہاتھ باندھنے کی جو روایات ہیں، ان کا کمزورہونا اوپر ثابت ہوچکا ہے، اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے متعلق مذکورہ نو (۹) روایات ہیں، ان میں سے اول الذکر حدیث شریف جو مصنف ابن ابی شیبہ کی ہے، بہت زیادہ صحیح سند سے مروی ہے، اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں، اس سے حنفیہ استدلال کرکے ناف کے نیچےہاتھ باندھنے کو مستحب کہتے ہیں، اور ان کی طرف سے سینے پر ہاتھ باندھنے والوں پر نہ کوئی اعتراض کیا جاتا ہے، اور نہ ہی ان کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، نیز زیر ناف ہاتھ باندھنے میں زیادہ تعظیم بھی ہے، اور عورتوں کے ساتھ مشابہت نہیں ہے، حالانکہ سینہ پر ہاتھ باندھنے کی صورت میں عورتوں سے مشابہت بھی لازم آتی ہے، اور زیر نافہاتھ باندھنے کی روایت صحیح ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی تائید میں اکابر صحابہؓ اور تابعین کے بے شمار آثار بھی وارد ہیں؛ اس لئے حنفیہناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو مستحب کہتے ہیں اور یہ بات غلط ہے کہ حنفیہ صرف حضرت علیؓ کے قول سے استدلال کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ان غیر مقلدین کو ہدایت دے!
غیر مقلدین کے پیشوا کا فتویٰ
غیر مقلدین کے پیشوا حضرت مولانا نواب صدیق حسن خاں صاحب کے فرزند جناب میر نور الحسن خاں صاحب کا فتوی ملاحظہ فرمائیے، کہ وہ اپنی کتاب عرف الجادی میں لکھتے ہیں کہ سینہ پر یا زیر ناف یا دونوں کے درمیان ہاتھ باندھنے میں اختیار ہے، ان کی عبارت ملاحظہ فرمائیے:
دست راست بردست چپ بربندد خواہ بر سینہ نہد یا زیر ناف یا میان ہردو الخ۔ (عرف الجادی/ ۲۵)
دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر باندھے چاہے سینہ پر رکھے یا زیر نافرکھے یا دونوںکے درمیان۔ (ہر طرح مشروع ہے)
پھر غیرمقلدین سینہ پر ہاتھ باندھنے پر اصرار کیوں کرتے ہیں؟ اور صرف اسی کو کیوں صحیح کہنے کی کوشش کرتے ہیں؟(فتاوی قاسمیہ۶۳۷/۵)
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
Print Friendly, PDF & Email

1 Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے