اجرت علی التراویح کے حیلہ

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
اجرت علی التراویح کے حیلہ کی مختلف شکلوں کا حکم
سوال 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: (۱) تراویح کے ختم پر غیر حافظ کے نذرانے کا حکم کیا ہے؟
(۲) تراویح کے ختم پر حافظ مستقل امام کے نذرانے کا حکم علاوہ تنخواہ کے کیا ہے؟
(۳) تراویح کے ختم پر حافظ غیر مستقل امام کے نذرانے کا مسئلہ کیا ہے؟
(۴) تراویح کے ختم پر نذرانہ لینے کی اگر کوئی ممانعت کی صورت ہو پھر بھی اس صورت میں وہ نذرانہ لے کر بلا نیت ثواب صرف کرے، تو کیا حکم ہے؟
(۵) ختم تراویح کے موقع پر شیرینی تقسیم کرنے کا مسئلہ کیا ہے؟
(۶) ختم تراویح پر مصافحہ ومعانقہ کا حکم کیا ہے؟

باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) تراویح کے ختم پر غیر حافظ کو جو رقم بطور نذرانہ دی جاتی ہے؛ چونکہ یہ پورے رمضان کی امامت کررہا ہے، تو یہ بشکل نذرانہ مہینہ بھر کی تنخواہ ہے، جو لینا جائز ہے، نیز اس لئے جائز ہے کہ اس نے قرآن ختم نہیں کیا؛ بلکہ صرف نماز پڑھائی ہے، ممانعت ختم قرآن کی صورت میں ہے:

ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ۔ (درمختار مع الشامي، کتاب الإجارۃ ، باب إجارۃ الفاسدۃ کراچی ۶/ ۵۵، زکریا ۹/ ۷۶)
(۲) جو امام پہلے سے مستقل امامت کرتا چلا آرہا ہے، اس کو نذرانہ کے طور پر کچھ دینا اور اس کے لئے لینا جائز ہے؛ اس لئے کہ وہ شخص اس محلہ کا مستقل امام ہے، رمضان اور غیر رمضان ہر حال میں اس کے لئے تحفہ اور نذرانہ لینا جائز ہے اور مقتدیوں کے لئے دینا بھی جائز ہے، کبھی کم کبھی زیادہ جس طرح چاہیں، اس کو نذرانہ دے سکتے ہیں۔ اور نذرانہ دینے والے کے اختیار میں ہے، لینے والے کو مطالبہ کا کوئی حق نہیں ہوتا ہے؛ اس لئے امام صاحب کی طرف سے کوئی مطالبہ نہیں ہونا چاہئے، نیز امام صاحب تراویح پڑھاتے وقت ہرگز یہ نیت نہ کریں کہ میں اپنی امامت کی ذمہ داری سے کوئی الگ کام انجام دے رہا ہوں؛ بلکہ اسے بھی ایک ذمہ داری سمجھیں۔ (مستفاد: فتاوی رحیمیہ ۷/ ۲۹۶، جدید زکریا ۶/ ۲۶۵)
(۳) تراویح کے ختم پر جو نذرانہ دیا جاتا ہے، یہ درحقیقت قرآن سنانے کی اجرت ہی ہے؛ اس لئے اس طرح حیلہ سے اجرت بشکل نذرانہ لینا دینا قطعاً جائز نہیں ہے؛ بلکہ یہ شکل : لاتشتروا بآیاتی ثمنا قلیلا‘‘ [البقرۃ: ۴۱] کی وعید میں داخل ہے۔
(۴) حافظ صاحب کو زحمت کی کوئی ضرورت نہیں، لینا تو بہر حال ناجائز ہے، پھر بلا نیت ثواب صرف کرنے کا حافظ صاحب کو حق نہیں ہے؛ بلکہ جنہوں نے دیا ہے ان کو واپس کرنا ضروری ہے۔ 
من اکتسب مالا بغیر حق … کالاستئجار علی المعاصي والطاعات، ففي جمیع الأحوال المال الحاصل لہ حرام علیہ، ویجب علیہ أن یردہ علی مالکہ۔ (بذل المجہود، الطہارۃ، باب فرض الوضوء، میرٹھ ۱/ ۳۷، بیروت دارالبشائر الإسلامیۃ ۱/ ۳۵۹، مطبوعہ لکھنؤ۱/ ۱۴۷)
(۵) تراویح کے بعد شیرینی مسجد کی رقم یا چندہ کی رقم سے تقسیم کرنا درست نہیں؛ البتہ اگر کوئی شخص بخوشی اپنی جیب خاص سے تقسیم کرتا ہو، تو اس کی گنجائش ہے؛ لیکن مسجد کا احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ (مستفاد: فتاوی رحیمیہ قدیم ۴/ ۴۲۷، جدید زکریا ۶/ ۲۴۳)
(۶) ختم تراویح کے موقع پر مصافحہ معانقہ کرنا بدعت مکروہ ہے، شریعت میں مصافحہ ومعانقہ کا موقع صرف اول ملاقات ہے، نیز اس رسم کا قرون مشہود لہا بالخیر میں کوئی ثبوت نہیں ہے؛ لہٰذا اس رسم سے احتراز لازم ہے۔ (مستفاد: احسن الفتاوی ۱/ ۳۵۴)
تکرہ المصافحۃ بعد أداء الصلاۃ، بکل حال؛ لأن الصحابۃ رضي اﷲ عنہم ما صافحوابعد أداء الصلاۃ، ولأنہا من سنن الروافض، وقال ابن الحاج من المالکیۃ في المدخل: إنہا من البدع وموضع المصافحۃ في الشرع إنما ہو عند لقاء المسلم لأخیہ لا في إدبار الصلوات۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ، زکریا ۹/ ۵۴۷، کراچی ۶/ ۳۸۱)(فتاوی قاسمیہ٤٦١/٨تا٤٦٣)
تفصیل دیکھئے:فتاوی قاسمیہ٤٢٢/٨تا٥٧٧)نیز دیکھئے:امداد الفتاوی جدید۳٣٠/٢تا۳۷۰)مزید دیکھئے:معاوضہ علی التراویح)
فقط وﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی 

احمد نگر ہوجائی آسام

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے