کیا تراویح کا اجرت لینا جائز ہے

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

 تراویح میں ختم قرآن پر اجرت کا شرعی حکم 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: تمام حفاظ اور علماء ہمارے انہیں اداروں میں تیار ہوتے ہیں اور انہیں اداروں سے نکل کر ملک بھر میں ماہ مبارک میں تراویح میں قرآن پاک سنانے کے لئے پھیل جاتے ہیں اور اکثر وبیشتر کو کچھ نہ کچھ کیا بہت کچھ رقوم وہدایا ملتے ہیں جو پیش نظر فتاوؤں کی رو سے سب اجرت قرآن کی بنا پر حرام ہیں، نہ تو عارضی امامت کرنے کی صورت میں حلال ہے اور نہ ہی بلا طے کئے، نہ ہی ہدایا کی صورت میں پیش نظر اشتہار پر حضرت گنگوہیؒ، حضرت تھانویؒ، مفتی عزیز الرحمن مہراج دیوبند، مفتی کفایتﷲؒ، اور مولانا ظفر عثمانیؒ کی عبارات ملاحظہ فرمائیں۔ تمام ملک میں علماء اور حفاظ قرآن پاک سنتے سناتے ہیں، تو سب ہی حرام مال کے حصول کے مرتکب ہیں، کیا یہ حرمت سود، جوے جیسی ہے یا اس کی اور قسم ہے؟ اہل مدارس اس طرف کیوں توجہ مبذول نہ فرما کر اساتذہ اور طلباء کی اصلاح نہیں فرما رہے ہیں، اشکال دور فرما کر مشکور فرمائیں۔

تراویح میں ختم قرآن پر اجرت کا شرعی حکم
مرتبہ: خادم صوفی جلال الدین صدیقی کیرانوی
پیر مرشد شیخ السالکین حضرت مولانا مفتی شاہ افتخار الحسن صاحب کاندھلوی دامت برکاتہم
حدیث شریف: حضرت بریرہؓ نے حضور اقدس صلیﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص قرآن پڑھے، تاکہ اس کی وجہ سے کھاوے لوگوں سے، قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کا چہرہ محض ہڈی ہوگا، جس پر گوشت نہ ہوگا۔ (بیہقی فی شعب الایمان) یعنی جو لوگ قرآن شریف کو طلب دنیا کی غرض سے پڑھتے ہیں، ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ (فضائل قرآن ص: ۵۵)

عبارات اکابر
(۱) فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ تحریر فرماتے ہیں: قرآن شریف پڑھانے کی اجرت لینا درست ہے، مگر رمضان شریف میں جو قرآن پاک تراویح ونوافل میں سنایا جاتا ہے، اس کیاجرت دینی لینی دونوں حرام ہیں۔ اور آمدنی مساجد سے یہ خرچ اور بھی زیادہ برا ہے؛ بلکہ متولی پر اس کا ضمان آوے گا۔ (فتاوی رشیدیہ، ص: ۱۹۶)
(۲) حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃﷲ علیہ فرماتے ہیں: بعض حفاظ کی عادت ہے کہ اجرت لے کر قرآن شریف سناتے ہیں، طاعت پر اجرت لینا حرام ہے، اسی طرح دینا بھی حرام ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے پہلے سے مقرر نہیں کیا؛ اس لئے یہ معاوضہ نہیں ہوا، جواب یہ ہے کہ گو پہلے سے مقرر نہیں لیکن نیت دونوں کی یہی ہے اور نیت بھی مرتبۂ خطر وخیال میں نہیں؛ بلکہ مرتبۂ عزم میں، اگر کسی طور سے یہ معلوم ہوجاوے کہ یہاں کچھ وصول نہ ہوگا، تو ہرگز ہرگز وہاں پڑھیں نہیں۔ اور فقہ کا قاعدہ ہے کہ معروف مثل مشروط کے ہے، جب اس کا رواج ہوگیا اور دونوں کی نیت یہی ہے بلا شک وہ معاوضہ ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ صاحب بلا اجرت پڑھنے والا تو ہم کو ملتا نہیں اور اجرت دے کر سننا جائز نہیں، تو پھر کیوں کر قرآن سنیں، جواب یہ ہے کہ قرآن پورا سننا فرض نہیں ایک امر مستحب کے لئے مرتکب حرام ہونا، ہرگز جائز نہیں ’’الم تر کیف‘‘ سے تراویح پڑھ لو ایسی حالت میں قرآن مجید ختم ہونا ضروری نہیں۔ (اصلاح الرسوم، ص: ۱۴۳)
(۳) عارف باﷲ حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب دیوبندیؒ اس سوال کے جواب میں کہ آیا تراویح میں حافظ قرآن کو اجرت قرآن شریف دے کر اس سے قرآن شریف سننا جائز ہے یانہیں؟
آیااجرت دہندگان کو ثواب ملتا ہے اور اس سے سنت ادا ہوجاتی ہے یانہیں؟ اور حافظ کو ایسی صورت میں اجرت لینی جائز ہے یانہیں؟ تحریر فرماتے ہیں
الجواب: اجرت دینا اور لینا قرآن شریف کے سننے اور پڑھنے کے لئے جائز نہیں ہے۔ اور اس میں کسی کو ثواب نہیں ہوتا، نہ پڑھنے والوں کو اور نہ سننے والوں کو۔ اور سنت ختم قرآن کی اس طرح ادا نہیں ہوتی۔ (عزیز الفتاوی، ص: ۶۶۳)

(۴) مفتی اعظم ہند حضرت مولانا کفایتﷲ صاحب رحمۃﷲ علیہ کی عبارات ملاحظہ ہوں: ’’اجرت دے کر قرآن شریف پڑھوانا درست نہیں، اگر بے اجرت لئے ہوئے پڑھنے والا حافظ نہ ملے تو سورت سے تراویح پڑھنا بہتر ہے‘‘۔ (کفایت المفتی ۳/ ۳۶۳، زکریا مطول ۱۱/ ۵۳۴)
لیکن قرآن مجید تراویح میں سنانے کی اجرت دینا لینا جائز نہیں، اگر معاملہ قرآن مجید سنانے کے لئے ہوا تھا تو ناجائز تھا۔ وﷲ اعلم (۳/ ۳۶۵)
روپیہ دینا جب تراویح کے معاوضہ میں جائزنہیں تو اس کو ثواب کیا ملے گا۔ (۳/ ۳۶۷)
(۵) فقیہ الملت حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃﷲ علیہ رقم طراز ہیں: ’’عبارت مذکور سے معلوم ہوا کہ اجرت لے کر قرآن پڑھنا اور پڑھوانا گناہ ہے؛ اس لئے تراویح میں چند مختصر سورتوں سے بیس رکعت پڑھ لینا بلا شبہ اس سے بہتر ہے کہ اجرت دے کر پورا قرآن پڑھوائیں؛ کیوں کہ پورا قرآن تراویح میں پڑھنا مستحب ہے اور اجرت دے کر قرآن پڑھوانا اور پڑھنا گناہ ہے اور بچنا بنسبت مستحب پر عمل کرنے کے زیادہ ضروری ہے؛ البتہ اگر کسی نے پڑھ لی تو نماز کے اعادے کی ضرورت نہیں، نماز ہوگئی، اگرچہ مکروہ ہوئی۔ (امداد المفتیین، ص: ۳۶۵) وﷲ اعلم
(۶) شیخ الاسلام حضرت مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی کا فتویٰ: ’’اجرت پر اور نابالغ حافظ کے پیچھے بھی تراویح نہ پڑھی جائیں۔ (امداد الاحکام ۱/ ۳۶۵)
(۷) فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب دامت برکاتہم سے استفسار کیا گیا، تو فرمایا: ’’میرے نزدیک یہ رسم دو گناہوں کا مجموعہ ہے: (۱) قرآن پر اجرت (وہ بھی غیر متعین ہونے کی بنا پر) اور (۲) اجارہ فاسدہ‘‘۔

قرآن سنانے کی اجرت
مسئلہ: تراویح میں قرآن کریم سنانے والے حافظ کو اجرت دینا اور حافظ صاحب کا اجرت لینا دونوں ناجائز اور حرام ہیں اور قرآن کریم سننے اور سنانے کا ثواب کسی کو بھی نہ ملے گا؛ بلکہ سب گنہگار ہوںگے۔ (شامی کراچی ۶/ ۵۶، فتاوی رشیدیہ، ص: ۳۹۴، احسن الفتاوی ۱/ ۵۱۵، فتاوی محمودیہ ۷/ ۱۷۱، جواہر الفقہ ۱/ ۳۸۲)
سامع کی اجرت
مسئلہ: جس طرح تراویح میں قرآن شریف سنانے والے کو اجرت دینا اور لینا دونوں ناجائز ہیں، اسی طرح لقمہ دینے والے سامع کواجرت دینا ولینا بھی ناجائز وحرام ہے۔ (فتاوی دارالعلوم جدید ۲/ ۲۹۵، احسن الفتاوی ۳/ ۵۱۶)
حضرت تھانویؒ کا رجوع
اور حضرت تھانویؒ نے سامع کے لقمہ دینے کو تعلیم سمجھ کر ’’امداد الفتاوی‘‘ میں جواز اجرت کا فتویٰ دیا تھا؛ لیکن بعد میں حضرت رحمہﷲ نے اس فتوی سے رجوع کرکے عدم جواز کا فتویٰ صادر فرمایا ہے، جو ’’التذکیر والتہذیب ۳/ ۸۳‘‘ میں شائع ہوچکا ہے؛ اس لئے لقمہ دینا تعلیم نہیں ہے؛ بلکہ تذکیر ہے۔
بنام ہدیہ پیش کرنا
مسئلہ: اگر اجرت طے نہ کرے؛ بلکہ بطور تحفہ ونذرانہ حافظ کو دیا جائے اور حافظ صاحب بطور نذرانہ کے اس کو قبول کرلیں تو جائز ہوسکتا ہے یانہیں؟ تو یہ شرعی طور پر ’’المعروف کالمشروط‘‘ کے دائرہ میں داخل ہوکر نام کا نذرانہ ہے؛ لیکن درحقیقت اجرت ہے؛ اس لئے کہ حافظ صاحب کو معلوم ہے کہ لوگ مجھے قرآن سنانے کی بنا پر کچھ دیںگے اور لوگوں کے دل میں بھی یہی ہوتا ہے کہ حافظ صاحب کو جاتے وقت کچھ دینا ہے اور اس طرح دینا اور لینا عادت اور معروف بھی ہے؛ لہٰذا یہ بھی جائز نہیں ہے۔ (شامی کراچی ۶/ ۵۵، فتاوی دارالعلوم ۴/ ۲۶۳)
عارضی امام بنا کر ختم کی اجرت
مسئلہ: اگر حافظ کے ذمہ ایک وقت یا ایک ماہ کی امامت کردی جائے تو وہ اجرت لے سکتا ہے یانہیں؟
جواب: یہاں مقصود امامت نہیں؛ بلکہ تراویح میں قرآن سنانا ہے؛ اس لئے یہ بھی جائز نہیں ہے۔ (مستفاد: امداد الفتاوی ۱/ ۳۲۲)

آمد ورفت کا کرایہ ومہمانداری
مسئلہ: حافظ صاحب کی مہمانداری کرنا اور آمد ورفت کا کرایہ دینا شرعاً اجرت میں داخل نہیں ہے؛ اس لئے جائز ہے۔ (مستفاد: فتاوی دارالعلوم ۴/ ۲۹۴)(فتاوی قاسمیہ٤٢٦/٨تا٤٣١)
تفصیل دیکھئے:فتاوی قاسمیہ٤٢٢/٨تا٥٧٧)نیز دیکھئے:امداد الفتاوی جدید۳٣٠/٢تا۳۷۰)مزید دیکھئے:معاوضہ علی التراویح)
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی 
احمد نگر ہوجائی آسام
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے