مسافر کے پیچھے مقیم مسبوق کس طرح نماز پوری کرے:

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم:

عنایت فرمائم شیخ رشید احمد صاحب السلام علیکم، عنایت نامہ مع تحریرات متعلقہ مسئلہ اقتداء مقیم بالمسافر پہنچا، میں نے بعد غور ان تمام تحریرات کو دیکھا، ان کے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ عامۃ تمام بڑے چھوٹے حضرات کو اس مسئلہ میں درمختار اور شامی کی اس عبارت سے جو مسبوق ولاحق کی بحث میں لکھی ہے دھوکا واقع ہوا ہے، وجہ اس اشتباہ کی یہ ہوئی کہ فقہاء نے مقیم خلف المسافر کے مسئلہ کو اس قدر مختلف مواقع اور مظان بعیدہ میں لکھا ہے کہ جس کی طرف انسباق خیال نہیں ہوتا، چنانچہ صلوۃ الخوف اور سجدئہ سہو اور صلوۃ المسافر بحث مسبوق ولاحق وغیرہ میں اس مسئلہ کو لکھا ہے، چونکہ تبادراس مسئلہ میں بحث مسبوق ولاحق کی طرف ہے لہٰذا اس مجمل عبارت کو دیکھ کر حضرات مفتیین اکتفاء فرمالیتے ہیں، اور دوسرے مواقع غیر متبادر کی طرف التفات اور تتبع کی نظر نہیںفرماتے ، پہلے خود میرا مسلک بھی اسی عبارت کی بناء پر وہی تھا جو اور سب حضرات فرماتے ہیں، لیکن غور کرنے کے بعد میرے خیال میں تغیر واقع ہوا، اور یہ خیال ہوا کہ مقیم خلف المسافر جبکہ پہلی رکعت میں اقتداء کرے باعتبار رکعتیں اخیر تین کے بحق قرأت بحکم لاحق ہے، لیکن جبکہ وہ رکعت ثانیہ یا تشہد میں اقتداء کرے تو ان دونوں صورتوں میں منفرد محض بحکم مسبوق ہوتاہے، اور بحکم لاحق مطلق نہیں ہوتا، چونکہ اس مسئلہ میں تعدد حضرات علماء میرے اس خیال کے خلاف ہیں لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ اپنا مدعیٰ مع تمام استدلالات کے مفصلاً لکھ کر حضرات علماء کرام کی خدمت میں پیش کروںگا اور التماس کروںگا کہ اگر یہ صحیح ہو تو قبول فرمائیں ورنہ جو امر صحیح اور محقق ہو بدلائل مطلع فرمائیں کہ بندہ کو انشاء اللہ تعالیٰ قبول حق میں ذرا بھی انحراف وانکار نہ ہوگا،

(واللہ ولی التوفیق وبیدہ ازمۃ التحقیق)

محل نزاع یہ ہے کہ مقیم خلف المسافر صلوۃ رباعی میں خواہ وہ پہلی رکعت میں اقتداء کرے یا دوسری میں یا تشہد میں وہ باعتبار رکعتیں آخریین مسبوق ہے یا لاحق، یا لاحق اور مسبوق دونوں ہے۔

پس واضح ہوکہ تصریحات محققین فقہاء سے کہ مقیم خلف المسافر اگرچہ اس نے رکعت اول میں اقتداء کیا ہو نہ حقیقتاً لاحق ہے، بلکہ بعض فقہاء اس کو مثل مسبوق کے قرار دیتے ہیں اور بعض فقہاء مثل لاحق کے ، اور قول اول کو محققین فقہاء نے مصحح قرار دیا ہے، اول تو لفظ مسبوق اورلفظ لاحق کا مدلول اور انکی تعریف خود اس پر دال ہے کیونکہ مسبوق وہ ہے جو امام اس سے پہلے کل یا بعض رکعات ادا کرچکا ہو، اور ظاہر ہے کہ یہ مفہوم وتعریف مقیم خلف المسافر پر باعتبار رکعتیں اخریین صادق نہیں آسکتی۔ اور لاحق وہ ہے جو اپنی فوت شدہ رکعات کو جو بعد اقتداء امام کے کسی وجہ سے فوت ہوگئی ہوں اداکرکے امام کے برابر ہوجاتا ہے اور مقیم خلف المسافر پر یہ مفہوم بھی صادق نہیں آتا، کیونکہ اس نے بقدر صلوۃ امام کے نیت اقتداء کی تھی اس کو پورا کردیا اور اس میں سے کوئی رکعت فوت نہیں ہوئی، اور رکعتیں اخریین نہ امام کی نماز میں تھی نہ اس نے ان میں اقتدا کیا تھا اور نہ وہ رکعتیں امام کی معیت اور متابعت سے ہوئی لہٰذا یہ مقیم حقیقۃً لاحق بھی نہیں ہوسکتا، علاوہ ازیں عبارات فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ اس پر شاہد ہیں ، ۱؎ درمختار کے باب سجود السہو میں لکھا ہے، 

’’ والمسبوق یسجد مع امامہ مطلقا سواء کان السہو قبل الاقتداء او بعدہ ثم یقضی مافاتہ ولو سھا فیہ سجد ثانیا وکذا اللاحق لکنہ یسجد فی اٰخرصلوتہ ولو سجد مع امامہ اعادہ والمقیم خلف المسافر کا لمسبوقوقیل کاللاحق‘‘ 

علامہ طحطاوی اس پر لکھتے ہیں ’’قولہ کالمسبوق فیلزمہ السجود وصححہ فی البدائع لانہ انما اقتدی بالا مام بقد ر صلوۃ الامامہ فاذا انقضت صلوۃ الامام صار منفردا فیما وراء ذٰالک وانما لا یقرأ فیما یتم لان القرائۃ فرض فی اولیین وقد قرء الامام فیھا۔(بحر)

اس عبارت میں ہر سہ مسبوق ولاحق ومقیم خلف المسافر کا باہم تقابل اور نیز تشبیہ ومماثلث واضح دلیل ہے کہ مقیم خلف المسافر حقیقتاً مسبوق ہے نہ حقیقتاً لاحق، البتہ بعد اختتام صلوۃ امام منفرد ہوجاتا ہے جیساکہ مسبوق بھی منفرد ہوجاتا ہے اب اس پر یہ اعتراض ہوتا تھا کہ جب اس کو منفرد رکعتین میں قرار دیا تو اس صورت میں ترک قرأۃ کی کوئی وجہ نہیں ہے، اس کا یہ جواب دیاکہ چونکہ فرض قرأۃ رکعت اولیین میں اس کی طرف سے امام ادا کرچکا ہے اس وجہ سے وہ اس جگہ قرأت ترک کردے،

اور ۳؎ بدائع کی عبارت ہے ’’ واما المقیم اذا اقتدی بالمسافر ثم قام الی اتمام صلوتہ وسھاھل یلزمہ سجودا السھو، ذکرفی الاصل وقال انہ یتابع الامام فی سجودا السھو اذا سھا فیما یتم فعلیہ سجود السھو ایضا وذکر الکرخی فی مختصرہ انہ کاللاحق لایتابع الامام فی سجود السھو اذا سھا فیما یتم لایلزمہ سجود السھولانہ مدرک لاول الصلوۃ فکان فی حکم المقتدی فیما یودیہ بتلک التحریمۃ کاللاحق ولذا لایقرأ کاللاحق ادا الصحیح ماذکرفی الاصل لانہ ، اقتدی بامامہ الابقدر صلوۃ الامام فاذا انقضت صلوۃ الامام صارمنفردً ا فیما وراء ذلک وانما لایقرأ فیما یتم لان القراء ۃ فرض فی الاولیین وقد قرأ الامام فیھما فکانت قرأۃ لہ اور صاحب ۱؎ ردالمحتار نقلا عن البحر تحریر فرماتے ہیں ’’ قولہ والمقیم الخ ذکر فی البحر ان المقیم المقتدی بالمسافر کالمسبوق فی انہ یتابع الامام فی سجودالسھوثم یشتغل بالاتمام واما اذاقام الی اتمام صلوتہ وسھافذکرالکرخی انہ کاللاحق فلا سجود علیہ بدلیل انہ لایقرأ وذکرفی الاصل انہ یلزمہ السجود وصححہ فی البدائع لانہ انما اقتدی بالامام بقدر صلوۃ الامام فاذا انقضت صار منفردا وانما لایقرأ فیما یتم لان القرأۃ فرض فی الاولیین وقد قرأالامام فیھما ‘‘۔ 

ان عبارات سے مقیم مقتدی بالمسافر کاحقیقتاً مسبوق ولاحق نہ ہونا واضح ہوگیا اور نیز یہ ہی صاحب ۲؎ ردالمحتار بعد نقل عبارت تحریر فرماتے ہیں، ’’قال فی النہر وبھذاعلم انہ کاللاحق فی حق القرأۃ ‘‘ فقط،

اس عبارت نے مسئلہ کے چہرہ سے بالکل پردہ اٹھادیا اوراس سے ثابت ہوگیا کہ اس کا ترک قرأۃ کرنا اس کے بحکم مسبوق ہونے کے مزاحم نہیں، بلکہ اس کو بحکم لاحق صرف قرأۃ کے بارے میں قرار دیا جاتا ہے باقی تمام احکامات میں وہ مثل مسبوق کے منفرد ہے، تو ان عبارات نے واضح کردیا کہ وہ منفرد ہوکر ان رکعات اخیرہ کو مثل مسبوق کے ادا کریگا ، نہ مثل لاحق کے ، اسی مضمون کو صاحب ۳؎ ہدایہ تحریر فرماتے ہیں۔

’’واذا صلی المسافر بالمقیمین سلم واتم المقیمون صلوتھم لان المقتدی التزم الموافقۃ فی الرکعتین فینفرد فی الباقی کالمسبوق الاانہ لایقرأ فی الاصح لانہ مقتد تحریمۃ لافعلاً والفرض صارمودی فیتر کھا احتیاطاً بخلاف المسبوق لانہ ادرک قرأۃ نافلۃ فلم یتادی الفرض فکان الاتیان الاولی‘‘۔ صاحب ہدایہ علامہ برہان الدین مرغینانی رحمۃ اللہ علیہ نے اعتراض مذکور کے جواب میں اپنی عادت کے موافق راہ تدقیق اختیار فرمائی ہے اور ترک قرأت کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ مقیم خلف المسافر باعتبار تحریمہ مقتدی ہے اور باعتبار فعل غیر مقتدی، تحریمہ اقتدا پر نظر کرکے اس کو قرأت پڑھنا جبکہ امام کی اول صلوۃ کا ادراک کرچکاہے مکروہ تحریمی ہے، اور فعلاً غیر مقتدی ہونے پر نظر کرکے اس کے لئے قرأۃ مستحب ہے، اور جبکہ فعل مستحب و حرام میں دائر ہوا تو اسکا ترک قرأت احتیاطاً لازم ہوا، بخلاف مسبوق کے کہ اس نے فرض قرأۃ کو نہیں پایا بلکہ قرأۃ نافلہ کا ادراک کیا ہے لہٰذا اس کو ترک قرأت ناجائز ہے، صاحب۱؎ فتح القدیر فرماتے ہیں ’’ قولہ احتیاطا فانہ بالنظر والی الاقتداء تحریمۃ حین ادرکوااول صلاۃ الامام یکرہ القرأۃ تحریماً وبالنظر الی عدمہ فعلا اذالم یفتہم مع الامام مایقضون وقد ادرکوافرض القرأۃ تستحب واذا دارالفعل بین وقوعہ مستحبا او محرماً لا یجوز فعلہ بخلاف المسبوق فانہ ادرک قرأۃ نافلۃ۔ 

اگرچہ عبارت بدائع اور طحطاوی اور شامی وغیرہ سے واضح تھا مگر ہدایہ کی عبارت نے بہت زیادہ واضح کردیا کہ وہ مقیم خلف المسافر جس نے تحریمہ میں اقتداء کی ہے ہر دو رکعات اخیرہ میں مثل مسبوق منفرد ہے، اوربقول صحیح لاحق نہیں، اور باوجود منفرد ہونے کے اس کو بوجہ ایک عارض کے ترک قرأت کا حکم ہے، جس سے صاف واضح ہے کہ اس کا ترک قرأت اس کے لاحق ہونے کو مقتضی نہیں اور اس کی لاحق کے ساتھ مماثلث صرف حکم ترک قرأت میں ہے، نہ دوسرے احکام میں،کیونکہ دوسرے احکام میں یہ شخص منفرد مثل مسبوق ہے، اورنیز یہ حکم ترک قرأت کا مخصوص اس مقیم مقتدی بالمسافر کے ساتھ ہے جس نے اپنے امام کی تحریمہ میں اقتداء کی ہو، اور جس نے تحریمہ میں اقتداء نہیں کی ہے اور ادراک اول صلاۃ امام کا نہیں کیا ہے بلکہ وہ رکعت ثانیہ یاتشہد میں شریک ہو اہے تو اس کا یہ حکم نہیں ہے کہ وہ بھی ترک قرأت کرے بلکہ اس کے لئے قاعدہ مذکورہ کے موافق قرأت کرنا مستحب ہوگا، کیونکہ اس کے لئے قرأت سے مانع تحریمہ اقتداء تھا اور مسبوق برکعتہ یا رکعتین کے حق میں وہ مانع مرتفع ہوگیا جو موجب کراہتہ تحریم قرأت تھا تو صرف استحباب باقی رہا، علاوہ ازیں اس پر اور متعدد عبارات وروایات دلالت کرتی ہیں

فتح ۱؎ القدیر کی صلوٰۃ الخوف میں ہے۔

’’قولہ لانہم مسبوقون وید خل فی ھذا المقیم خلف المسافرحتی یقضی ثلاث رکعات بلاقرأۃ و انکان من الطائفۃ الاولی وبقرأۃ ان کان من الثانیۃ‘‘۔ 

فتاوی ۲؎ عالمگیریہ میں ہے وان کان الامام مسافراً والقوم مقیمین ومسافرین صلی الامام بالطائفۃ الاولی رکعۃ ثم انصر فوا بازاء العدو وجاء ت الطائفۃ الثانیۃ وصلی بھم رکعۃ فمن کان مسافر اخلف الامام بقی الی تمام صلوتہ رکعۃ ومن کان مقیما بقی الی تمام صلوتہ ثلث رکعات ثم ینصرفون بازاء العدو ترجع الطائفۃ الاولی الی مکان الا مام فمن کان مسافراً یصلی رکعتہ بغیرقرأۃ لانہ مدرک اول الصلوۃ ومن کان مقیما یصلی ثلث رکعات بغیرقرأۃ فی ظاہر الروایۃ فاذا تمت الطائفۃ الاولی صلو تھم ینصر فون بازاء العدووتجئی الطائفۃ الثانیۃ الی مکان صلوتھم فمن کان مسافراً یصلی رکعۃبقرأۃ لانہ مسبوق ومن کان مقیما یصلی رکعات الاولی بفاتحۃ الکتاب وسورۃ لانہ کان مسبوقا فیھا وفی الاخریین بفاتحۃ الکتاب علی الروایات کلھا۔

اس عبارت عالمگیریہ میں حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب نے جو اشکال پیش کیا ہے اورفرمایا ہے کہ دلیل ’’لانہ کان مسبوقاً فیھا‘‘ کو مقدم بیان کیا ہے، اگر وہ رکعتیں اخریین میں بھی مسبوق ہوتا تو یہ دلیل اس موقع پر نہ بیان کی جاتی بلکہ ’’وفی الاخریین بفاتحۃ الکتاب علی الروایات کلہا‘‘ کے لکھنے کے بعد لکھی جاتی ، اس اشکال کا جواب بندئہ ناچیز کی تحریر سے بالکل صاف اور واضح ہوگیا ہے وہ یہ کہ پہلی رکعت میں جس کے بعد ’’دلیل لانہ کان مسبوقا فیھا‘‘ لکھی ہے وہ شخص حقیقتاًمسبوق ہے اس لئے اس کے بعد یہ دلیل لکھی ہے اور چونکہ رکعتیں اخریین میں حقیقتاً مسبو ق نہیں اس لئے اس کے بعد یہ دلیل نہیں لکھی، اگر رکعتیں کے بعد یہ دلیل لکھی جاتی تو واہمہ پیدا ہوتا کہ مقیم تینوں رکعتوں میں حقیقتاً مسبوق ہے، والحال انہ لیس کذلک کما حققناہ من قبل، پس بندہ کی گذشتہ تحقیق سے واضح ہوگیاکہ مقیم خلف المسافر نہ حقیقتاً مسبوق نہ حقیقتاً لاحق بلکہ وہ رکعات باقیہ میں منفرد بحکم مسبوق ہے، پس جس جس عبارات میں اس کو لاحق یا مسبوق کہا گیا ہے وہ اطلاق مجاز ہے،

چنانچہ ۱؎ درمختار میں بحث لاحق و مسبوق میں قبیل باب استخلاف لکھا ہے’’واللاحق من فاتتہ الرکعات کلھا او بعضھا بعذرکغفۃ وزحمۃ وسبق حدیث ومقیم ائتم بمسافر‘‘

اور شامی۲؎ میں ہے ’’قولہ ومقیمائتم الخ ای فھو لاحق بالنظر للاخیر تین وقد یکون مسبوقا ایضا کما اذا فاتہ اول صلاۃ امامہ المسافر(طحطاوی) ‘‘۔

ان دونوں عبارتوں میں مقیم مقتدی بالمسافر پر لفظ لاحق کا اطلاق ہوا ہے، پس یہ اطلاق مجاز ہے اور مراد اس سے یہ ہے کہ وہ حکم ترک قرأۃ میں بمنزلہ لاحق ہے، یہ وہ عبارت ہے جس سے مفتی صاحب مدرسہ عالیہ دیو بند مولانا عزیز الرحمان صاحب سلمہ نے اس پر اشکال کیا ہے کہ مقیم خلف المسافر خواہ اس نے تحریمہ میں اقتداء کی ہو یا بعد فوت رکعت ہر حال (میں) بجمیع احکام لاحق ہے، اور دعویٰ فرمایا ہے کہ قاعدہ کلیہ ہے، اوربطور تشبیہ یہ بھی فرمایا ہے کہ صلوۃ الخوف میں جو حکم لکھا ہے وہ شاید صلوۃ الخوف کے ساتھ خلاف قاعدہ کلیہ مخصوص ہو، مگر دعوی کلیہ قاعدہ اور دعوی اختصاص محتاج دلیل ہے، حالانکہ اس کی مثبت کوئی دلیل نہیں ہے، علاوہ ازیں عبارات وتصریحات سابقہ سے واضح ہوچکا ہے کہ یہ قضیہ جزئیہ ہے جس سے مراد وہ مقیم ہے جس نے رکعت اولیٰ میں اقتداء کی ہو، اورجومسبوق برکعۃ یا رکعتیں ہو وہ قطعاً اس میں داخل نہیں، اور نیز طحطاوی۱؎ مطبوعہ مصر کی عبارت سے صاف واضح ہے ’’ قولہ و مقیمائتم بمسافر فھو لاحق بالنظر للاخیر تین وقد یکون مسبوقا ایضا کما اذا فاتتہ اول صلاۃ امام المسافر‘‘ مقیم مقتدی بالمسافر کی دوحالتیں بیان کی (ہیں) اول وہ کہ جس نے پہلی رکعت میں اقتداء کی ہے اسکو باعتبار رکعتیں اخیرتین کے لاحق فرمایا اور دوسری حالت وہ ہے کہ جس کو اول صلوۃ امام مسافر کی فوت ہوچکی خواہ دوسری رکعت میں یا تشہد میں اقتداء کی ہو اس کو صرف مسبوق قرار دیا اس سے واضح ہوگیا کہ مقیم ائتم بمسافر قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ مقیم سے اس جگہ وہی مراد ہے جس نے اول رکعت میں اقتداء کی ہو، چنانچہ اسی کی طرف بندہ نے اپنی پہلی تحریر میں اشارہ کیا تھا، اور شامی طحطاوی میں ہے ’’وقد یکون مسبوقا‘‘ اور شامی میں نقلا عن الطحطاوی ہے ’’و قد یکون مسبوقا ایضا‘‘ اور یہ لفظ ایضا موجب خلجان اور موہم خلاف مقصود تھا، اس کی بھی توجیہ کردی تھی کہ بشرط تسلیم مزاحم مقصود نہیں۔ مگر حضرت مفتی صاحب نے اسکی طرف توجہ نہیں فرمائی، بعض اذکیاء کا خیال بھی مسموع ہوا ہے وہ فرماتے ہیں کہ صلاۃ الخوف کی مشروعیت علی خلاف القیاس ہے لہٰذا اس پر دوسری نمازوں کو قیاس نہیں کیا جاسکتا تو جو حکم صلاۃ الخوف میں ہے ضروری نہیں کہ دوسری صلوات میں بھی ہو، دیکھو چلنا پھرنا وغیرہ افعال منافی نماز صلوۃ الخوف میں مشروع ہیں اور دوسری نمازوں میں غیر مشروع بلکہ مفسد نمازہیں، جواب اس منع کا یہ ہے کہ یہ منع اس وقت قابل تسلیم ہوسکتا ہے جب استدلال صرف صلوۃ الخوف سے ہو اور فی الحقیقت استدلال ان روایات سے ہے جن میں مقیم خلف المسافر کو منفرد مثل مسبوق قرار دیا ہے اور روایت صلوۃ الخوف بطور تائید وتقویت لکھی گئی ہے، علاوہ ازیں صلوۃ الخوف میں جو افعال من غیر جنس صلوۃ جائز کئے گئے ہیں وہ افعال ہیں جن کی بوقت خوف ضرورت پڑتی ہے، یہ ہرگز نہیں کہ تمام افعال صلوۃ الخوف خلاف قیاس بضرورت مشروع ہوئے ہیں، اور افعال مبحوث فیہ ان افعال میں سے نہیں ہیں جن کی مشروعیت بضرورت خوف خلاف قیاس ہوئی ہو، لہٰذا یہ خیال بھی اس بحث میں کار آمد نہیں ہوسکتا،

مع ہٰذا بالفرض والتسلیم کوئی حکم معدول عن القیاس بدون نص نہیں ہوسکتا، تولا محالہ ایسی نص کا موجود ہونا ضروری ہے جس نے صلوۃ الخوف میں حکم لاحق کو اپنے اصل قاعدہ کلیہ سے خارج کردیا ہے اور جہاں تک غور کرتا ہوں مجھ کو کوئی نص ایسی نہیں معلوم ہوتی جو صلاۃ الخوف میں لاحق کے لئے صارف عن القیاس ہو، اگر کسی صاحب کو معلوم ہو تو براہ کرم مجھ کوبھی مطلع فرما کر شکر گزار احسان فرمائیں۔حضرت مفتی صاحب نے اپنی تحریر کے آخر میں ایک فتوی جس کو حضرت سیدی ومولائی حضر ت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور نیز ایک علم الفقہ کا جواب جو غالبا مولانا عبدالشکور صاحب لکھنوی کی تالیف ہے نقل فرمایا ہے، جب ایک حکم روایات فقہیہ صحیحہ صریحہ سے ثابت ہوگیا تو اس کے متعلق کچھ لکھنے اورعرض کرنے کی ضرورت نہ رہی۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم

املاہ بلسانہ الاحقر خلیل احمد عفی عنہ (صدر المدرسین مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور)

فتاویٰ مظاہرہ علوم المعروف فتاوی خلیلیہ ص۶۲تا۶۷)

ناقل

محمد امیر الدین حنفی دیوبندی

احمد نگر ہوجائی آسام

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے