کیا اجرت علی التراویح جائز ہے۔

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

 تراویح کی اجرت کے جواز کے پمفلٹ کا تحقیقی جواب

سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: عرض تحریر یہ ہے کہ جو پرچہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے، جس نے ہمارے علاقہ میں ائمہ کے ذہنوں میں عجیب الجھنیں پیدا کی ہیں اور خصوصاً اس وقت اور بھی فکر لاحق ہوئی جب فتوی نمبر: ۵ پر آپ کا بھی اسم مبارک دیکھنے میں آیا اور اخیر میں یہاں تک کہ نذرانۂ تراویح کو حرام کہنے والے کو بد دین اور فتنہ پرور تک کہا گیا۔


مفتی صاحب! ہماری آپ سے یہ گزارش ہے کہ آخر یہ نذرانۂ تراویحکا اختلافی سلسلہ کب تک چلے گا؟ ہم آپ سے یہ امید کرتے ہیں کہ آپ اس مسئلہ کے بارے میں ہمیں اپنا مفصل جواب دے کر انشاء ﷲ عندﷲ ماجور ہوںگے اور ہمیں ممنون ومشکور فرمائیںگے۔
دلی دعا ہے کہﷲ آپ کو دونوں جہاں میں عافیت عطا فرمائے۔ (آمین) فقط والسلام
المستفتی: حافظ محمد مختار نعمانی، امام جامع مسجد آسٹی تعلقہ پرتور، ضلع جالندھر مہاراشٹر
ماہ رمضان میں امامت تراویح پر اجرت دینا اور لینا جائز ہے


دارالعلوم دیوبند ومفتیان کرام کے اہم فتاوے
(۱) مفتی اعظم محمود الحسن گنگوہیؒ ’’فتاوی محمودیہ‘‘ میں فرماتے ہیں:اگر کوئی باتنخواہ امام ہے اور
رمضان شریف میں تراویح کی بھی امامت کرے گا، تو اس کی اجرت میں اضافہ کر دیا جائے تو متأخرین کے فتویٰ کے مطابق کوئی اشکال نہیں۔


(۲) حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین صاحبؒ (مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند): تراویح میں قرآن سنانے سے متعلق وہی توسیع پیدا کی جائے جو تعلیم قرآن حدیث وفقہ وامامت اور اذان واقامت کے متعلق دی گئی ہے، بھاؤ تاؤ نہ کریں؛ لیکن سننے والوں کا فریضہ ہے کہ وہ قرآن سنانے والے کی خدمت اپنی حیثیت سے زیادہ کریں؛ لہٰذا حافظ قرآن کے لئے نذرانہ لینا جائز ہے اور ندرانہ لینے والے حافظ کے پیچھے قرآن سننا بھی باعث اجر وثواب ہے، نیز نذرانہ لینے والے حافظ کے پیچھے تراویح پڑھنا بالکل صحیح ہے اور اس کا پورا ثواب بھی ملے گا۔ (جواب نمبر: ۱۱۶۲)
(۳) حضرت مولانا منت ﷲ صاحب۔ (امیر شریعت بہار واڑیسہ) مذکورہ بالا فتویٰ کی تصدیق فرماتے ہیں۔
(۴) شیخ اسلام حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی فرماتے ہیں: اس سے پہلے دینی کاموں پر جو رقم دی جاتی تھی ، وہ اجارہ نہیں تھا؛ بلکہ بیت المال سے وظیفہ تھا، اب چونکہ بیت المال نہیں رہے؛ اس لئے مسلمانوں کو ضروری ہے کہ ہر دینی خدمت پر معاوضہ دیں۔ (اسلام اور جدید معاشی مسائل ۲/ ۲۰۹)
(۵) حضرت مولانا مفتی شبیر احمد صاحب قاسمی (مفتی اعظم مدرسہ شاہی مرادآباد):
صرف تراویح میں ختم قرآن پر ہی اجرت کی بحث نہیں؛ بلکہ نفس تراویح پر اجرت کا معاملہ ہے، اگر کسی جگہ ’’الم تر کیف‘‘ سے تراویح کی نماز ہوتی ہو اور امام اس پر اجرت لیتا ہے، تو فقہائے متأخرین اور اہل فتویٰ میں سے کسی نے بھی اس کو ناجائز نہیں کہا ہے۔ (ماہنامہ ندائے شاہی ستمبر ۲۰۰۴ء)
(۶) حضرت مولانا مفتی سلیم الدین صاحب قاسمی (مفتی اعظم شادرہ دہلی): اسی سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ: تراویح کی نماز کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کے لئے واجب اور ضروری ہے، جس کی امامت کے لئے اگر کسی کو با اجرت متعین کیا جائے تو اس زمانے میں بھی ضرورتاً ایسا معاملہ کرنا جائز ہے؛ اس لئے رمضان میں تراویح وتر کی امامت کے بدلہ بطور رقم اجرت لینا جائز ہے۔
(۷) حضرت مولانا مفتی مکرم احمد صاحب (شاہی امام مسجد فتح پوری دہلی) فرماتے ہیں کہ تراویح کی امامت کا نذرانہ لینا جائز ہے، متأخرین فقہاء کی یہی رائے ہے۔
(۸) حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہ العالی (شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند) فرماتے ہیں کہ: اس مسئلے میں خوشی کے موقع پر کمیٹی اور مصلیوں کوچاہئے کہ وہ امام کی اضافی خدمت کا اہتمام کریں، یہ ایک طرح کا انعام ہے۔ (مفتی سعید احمد ۲۲؍ رجب ۱۴۳۲ھ)
دستخط مفتی حبیب الرحمن صاحب (مفتی دارالعلوم دیوبند)
دستخط مولانا ریاست علی بجنوری (استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند)
دستخط مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری (شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند)
نوٹ: مفسر قرآن حضرت مولانا انیس احمد صاحب قاسمی بلگرامی نے دارالعلوم دیوبند سے قدیم اور جدید فتوؤں پر تفصیلی بات چیت کرکے ایک تحقیقی کتاب: ’’معاوضہ علی الطاعت‘‘ یا معاوضہ علی الخدمت‘‘ لکھی ہے۔ اس کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔


اب اگر اس کے بعد کوئی بھی اجرت اور نذرانۂ تراویح کو حرام کہتا ہے، تو وہ شخص بددین اور فتنہ پرور ہے۔
شائع کردہ زیر اہتمام: 
حضرت الحاج مفتی خلیل الرحمن صاحب قاسمی دامت برکاتہم ناندیڑ


باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: تراویح میں دو سنتیں بالکل الگ الگ ہیں: (۱) نفس نماز تراویح جو مایجوز بہ الصلاۃ قراء ت کے ساتھ ادا ہوسکتی ہے، جس قراءت کے ذریعہ سے نماز صحیح ہوجائے، اس کے ذریعہ سے بھی نفس تراویح ادا ہوسکتی ہے، عام طور پر دیہات کے علاقوں میں ’’الم تر کیف‘‘ سے دس سورتوں کے ذریعہ سے بیس رکعتیں پڑھی جاتی ہیں، نفس تراویح کی ادائے گی کی سنت اپنی جگہ مستقل ہے، اس کے لئے کسی حافظ قرآن کی ضرورت نہیں جس کو ’’الم تر کیف‘‘ سے آخر تک سورتیں یاد ہوں وہ بھی پڑھا سکتا ہے، اس کی امامت میں اگر اجرت لی جاتی ہے، تو کوئی بھی یہ کہہ نہیں سکتا کہ قرآن پر یا ختم قرآن پر اجرتلی گئی ہے۔


(۲) تراویح کی نماز میں قرآن کریم ختم کرنے کی سنت یہ اپنی جگہ مستقل دوسری سنت ہے، اس سنت کی ادائے گی حافظ قرآن کے بغیر نہیں ہوسکتی، اب اگر اس سنت کی ادائے گی میں حافظ قرآن کواجرت دی جائے تو ’’وَلَا تَشْتَرُوْا بِآیَاتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا‘‘ [سورۃ البقرۃ: ۴۱] کی وعید میں داخل ہوکر ناجائز وحرام ہوجائے گی، اب اس تمہید کے بعد سائل نے اپنی تحریر کے ساتھ جو پرچی بھیجی ہے اس کے متعلق وضاحت یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے ایک مفتی، مفتی غلام رحمن صاحب نے ۲؍ ۸؍ ۱۴۲۴ھ میں ایک فتویٰ لکھا تھا، جس میں تراویح میں ختم قرآن پر اجرت لینا بلا تکلف جائز لکھا تھا اور انہوں نے امامت اور اذان وغیرہ کی اجرت پر قیاس کرکے اس کو صاف طور پر جائز اور حلال لکھا تھا۔ اور اس جواب کو لے کر دارالعلوم دیوبند کے ایک طالب علم نے احقر کے پاس سوال بھیجا تھا، اور احقر نے جواب میں مفتی صاحب موصوف کے فتوی کی تردید پر ایک مفصل جواب لکھا تھا، جس میں ختم قرآن پر اجرت کے عدم جواز کو مدلل طور پر ثابت کیا گیا تھا اور اس میں احقر نے ضمنی طور پر ایک عبارت لکھی تھی، جو بعینہٖ آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہے اور وہ یہ ہے: ’’اگر کسی جگہ الم تر کیف سے تراویح کی نماز ہوتی ہے اور امام اس پراجرت لیتا ہے، تو میری معلومات میں فقہائے متأخرین اور اکابر اہل فتویٰ میں سے کسی نے بھی اس کے عدم جواز کا فتویٰ نہیں دیا ہے‘‘ احقر کا یہ مفصل فتویٰ ندائے شاہی میں بھی شائع ہوا اور احقر کی کتاب ’’انوار رحمت‘‘ ص: ۴۷۷ سے ۴۹۶ تک وضاحت کے ساتھ موجود ہے، جس پر دارالعلوم دیوبند کے مفتیان کرام کے دستخط بھی ہیں اور حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم کے وضاحتی دستخط بھی موجود ہیں، وہاں سے ملاحظہ فرمائیے۔ اور آنجناب نے جس پرچی کے ساتھ سوال نامہ ارسال فرمایا ہے اس پرچی کو منسلک کرکے چند سوالات ہمارے پاس آئے تھے، جن کے جوابات میں ہمارے مدرسہ شاہی کے دارالافتاء کا جو موقف ہے، اس کو مفصل تحریر کے ساتھ ۲۹؍ ذیقعدہ ۱۴۳۳ھ میں واضح کرکے جواب لکھا گیا تھا، وہ بعینہٖ آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے، اور اس جواب میں جو کچھ بھی لکھا گیا ہے، وہی ہمارے یہاں کا موقف ہے، باقی اس موقف کے خلاف کہیں سے کوئی بھی تحریر آپ لوگوں کی نظر سے گزرتی ہو وہ ہمارے یہاں کا موقف نہیں ہے، اب وہ تفصیلی جواب ملاحظہ فرمائیے:
اولاً یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ رمضان المبارک میں بیس رکعتتراویح باجماعت پڑھنا سنت مؤکدہ ہے اور بلا عذر تراویح کو چھوڑنا موجب گناہ ہے، اس اعتبار سے اس نماز کو شعائر اسلام میں سے شمار کیا جاسکتا ہے، پھر نماز تراویح میں پورا قرآن پڑھنا یہ الگ سے ایک سنت ہے، مگر اس کا درجہ نفس تراویح کی حیثیت سے کم ہے، اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر لوگ بوجھ محسوس کریں تو ختم کا اہتمام ترک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، یعنی اگر تراویح میں قرآن مکمل نہ کیا جائے تو اس سے نفس تراویح کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آتی ہے، اس تفصیل کے بعد یہ جاننا چاہئے کہ طاعات پر اجرت لینا متقدمین احناف کے نزدیک ناجائز ہے؛ لیکن ضرورت کی وجہ سے متاخرین فقہاء نے اس کی اجازت دی ہے اور ضرورت کا مطلب یہ ہے کہ اجرت کی اجازت نہ دینے کی صورت میں دینی نقصان کا اندیشہ ہو، چنانچہ دینی تعلیم وتعلم اور امامت واذان وغیرہ امور میں جواز اجارہ کی علت فقہاء نے یہی بتلائی ہے کہ اگر ان امور میں جواز کی بات نہ کہیں تو دینی شعائر کے مٹ جانے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا، اب سنت مؤکدہ ہونے کی حیثیت سے نفس تراویح (جو ختم قرآن پر مشتمل نہ ہو) کو امامت فرائض کے ساتھ ملحق اور تابع کرکے جائز قرار دیا جاسکتا ہے؛ لیکن اگر مقصود ختم قرآن ہو تو اسے امامت فرائض کے ساتھ ملحق نہیں کیا جائے گا؛ کیوں کہ تراویح میں ختم قرآن محض ایک سنت ہے، اس کے نہ ہونے سے دین میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوتا، خلاصہ یہ ہے کہ شعائر دین کے تحفظ کے لئے مطلق امامت تراویح (جو ختم قرآن کی شرط کے ساتھ مشروط نہ ہو، مثلاً ’’الم ترکیف‘‘ یا ’’مایجوز بہ الصلاۃ‘‘ قراء ت سے تراویح میں امامت کی جائے) کو امامت فرائض کے ساتھ شامل کرنے کی گنجائش ہے؛ لیکن اگر اس کے ساتھ صراحتاً یا عرفاً ختم قرآن کی شرط لگا دی جائیگی تو اس کا عوض لینا جائز نہ ہوگا اور ہمارے علاقوں میں عرف یہی ہے کہ حافظ کو نفس تراویح کے بدلے کوئی عوض نہیں دیتا؛ بلکہ ختم قرآن ہی پر عوض دیا جاتا ہے، چنانچہ اگر کوئی حافظ ختم کئے بغیر کہیں چلا جائے تو اسے کوئی معاوضہ دینے کو تیار نہیں ہوتا، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ معاشرہ میں معاوضہ دینے کا رواج نفس تراویح پر نہیں ہے؛ بلکہ ختم قرآن پر ہے، جس کی اجازت نہیں؛ اس لئے کہ یہ آیت قرآنی: ’’وَلَا تَشْتَرُوْا بِآیَاتِیْ ثَمَنًاقَلِیْلًا‘‘ [سورۃ البقرۃ: ۴۱] کی ممانعت کے تحت صراحتاً داخل ہے اور اس کے متعلق جو حیلہ آپ نے سوال میں درج کیا ہے وہ جواز کے لئے کافی نہیں؛ کیوں کہ جب مقصود ختم قرآن ہوگا تو فیما بینہ وبین اﷲ یہ عوض درست نہ ہوگا۔ اور دیانت والے معاملے میں حیلے مفید حل واقعی نہیں ہوتے۔ (فتاوی دارالعلوم ۱۵/ ۲۱۸-۲۸۲، امداد الفتاوی ۱/ ۴۷۱-۴۸۴، فتاوی محمودیہ ڈابھیل ۱۷/ ۵۱-۷۴)


قال ﷲ سبحانہ وتعالیٰ: ’’وَلَا تَشْتَرُوْا بِآیَاتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا‘‘ [ البقرۃ: ۴۱] 
قال أبو العالیۃ: لا تأخذوا علیہ أجرا۔ (تفسیر ابن کثیر ۱/ ۲۲۲، زکریا دیوبند، الدرالمنثور، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۱۲۵)
عن عبدﷲ بن شبل قال: قال رسولﷲ ﷺ: اقرؤا القرآن، ولا تأکلوا بہ، ولا تستکثروا بہ، ولا تجفوا عنہ، ولا تغلوا فیہ۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ، الصلاۃ، فی الرجل یقوم بالناس في رمضان، فیعطی، موسسۃ علوم القرآن، جدید ۵/ ۲۴۰، رقم: ۷۸۲۵، مسند أحمد حنبل ۳/ ۴۲۸، رقم: ۱۵۶۱۴، ۴/ ۴۴۴، رقم: ۱۵۷۵۶، ۱۵۷۵۸، مسند البزار، مکتبۃ العلوم والحکم ۳/ ۲۵۳، رقم: ۱۰۴۴)
عن سلیمان بن بریدۃ عن أبیہ قال: قال رسولﷲ ﷺ: من قرأ القرآن یتأکل بہ الناس جاء یوم القیامۃ ووجہہ عظم لیس علیہ لحم۔ (شعب الإیمان، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲/ ۵۳۳، رقم: ۲۶۲۵)
عن عمران بن حصین، أنہ مر علی قارئ یقرأ، ثم سأل، فاسترجع، ثم قال: سمعت رسولﷲ صلیﷲ علیہ وسلم یقول: من قرأ القرآن فلیسألﷲ بہ، فإنہ سیجئ أقوام یقرؤن القرآن، یسألون بہ الناس۔(ترمذي شریف، أبواب فضائل القرآن، باب بلا ترجمۃ، النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۱۱۹، دارالسلام، رقم: ۲۹۱۷، مسند أحمد بن حنبل ۴/ ۴۴۹، رقم: ۲۰۱۸۶، ۴/ ۴۳۲، رقم: ۲۰۱۲۶، مسند البزار، مکتبۃ العلوم والحکم ۹/ ۳۶، رقم: ۳۵۵۳، المعجم الکبیر للطبراني، داراحیاء التراث العربي ۱۸/ ۱۶۶، رقم: ۳۶۰)
وقال عبدﷲ بن مسعود: إنہ سیجيء زمان یسئل فیہ بالقرآن، فإذا سألوکم فلا تعطوہم۔ (شعب الإیمان، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲/ ۵۴۳، رقم: ۲۶۳۱)
عن عبداﷲ بن معقل أنہ صلی بالناس في شہر رمضان، فلما کان یوم الفطر بعث إلیہ عبیدﷲ بن زیاد بحلۃ وبخمس مائۃ درہم، فردہا، وقال: إنا لا نأخذ علی القرآن أجرا۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، الصلاۃ، في الرجل یقوم بالناس في رمضان فیعطي، موسسۃ علوم القرآن جدید ۵/ ۲۳۷، رقم: ۷۸۲۱)
قال عمر -رضیﷲ عنہ- اقرؤوا القرآن وسلواﷲ بہ قبل أن یقرأہ قوم یسألون الناس بہ۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ، الصلاۃ، في الرجل یقوم بالناس في رمضان فیعطي، موسسۃ علوم القرآن جدید ۵/ ۲۴۰، رقم: ۷۸۲۶)
التراویح سنۃ مؤکدۃ، ومن لم یرہا سنۃ فہو رافضي یقاتل کمن لم یر الجماعۃ، وقال أہل السنۃ والجماعۃ: إنہا سنۃ رسولﷲ صلیﷲ علیہ وسلم، فعلہا ثلاث لیال، وفي الخانیۃ: سنۃ مؤکدۃ توارثہا الخلف عن السلف من لدن تاریخ رسولﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم إلی یومنا ہذا، ہکذا روی الحسن عن أبي حنیفۃ رحمہ ﷲ، وقد واظب علیہا الخلفاء الراشدون۔ (تاتارخانیۃ، الصلاۃ، الفصل الثالث عشر التراویح، زکریا ۲/ ۳۱۶، رقم: ۲۵۳۱)
التراویح سنۃ مؤکدۃ لمواظبۃ الخلفاء الراشدین للرجال والنساء إجماعا، ووقتہا بعد صلاۃ العشاء، قال الشامي: سنۃ مؤکدۃ، صححہ في الہدایۃ وغیرہا، وہو المروي عن ابي حنیفۃؒ، وفي شرح منیۃ المصلي: وحکی غیر واحد الإجماع علی سنیتہا۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مبحث في صلاۃ التراویح، کراچی ۲/ ۴۳، زکریا ۲/ ۴۹۳)
التراویح سنۃ بإجماع الصحابۃ، ومن بعدہم من الأئمۃ منکرہا مبتدع ضال مردود الشہادۃ، کما في المضمرات… وإنما ثبت العشرون بمواظبۃ الخلفاء الراشدین ماعدا الصدیقؓ، ففي البخاري: فتوفي رسول ﷲ صلیﷲ علیہ وسلم، والأمر علی ذلک في خلافۃ أبي بکر وصدر من خلافۃ عمر حین جمعہم عمر علی أبي بن کعب، فقام بہم في رمضان، فکان ذلک أول اجتماع الناس علی قارئ واحد في رمضان کما في فتح الباري۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، الصلاۃ، فصل في التراویح، دارالکتاب دیوبند، ص: ۴۱۱)
والختم مرۃ سنۃ، ومرتین فضیلۃ، وثلاثا أفضل، ولا یترک الختم لکسل القوم لکن في الاختیار الأفضل في زماننا قدر مالا یثقل علیہم وأقرہ المصنف وغیرہ، قال الشامي: لأن تکثیر الجمع أفضل من تطویل القراء ۃ حلیۃ عن المحیط، وفیہ إشعار بأن ہذا مبني علی اختلاف الزمان، فقد تتغیر الأحکام لاختلاف الزمان في کثیر من المسائل علی حسب المصالح، ولہذا قال في البحر: فالحاصل أن المصحح في المذہب أن الختم سنۃ لکن لا یلزم منہ عدم ترکہ إذ لزم منہ تنفیر القوم، وتعطیل کثیر من المساجد خصوصا في زماننا، فالظاہر اختیار الأخف علی القوم۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مبحث في صلاۃ التراویح، کراچی ۲/ ۴۷، زکریا ۲/ ۴۹۸، الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ، الفصل الثالث عشر في التراویح، زکریا ۲/ ۳۲۴، رقم: ۲۵۵۲، ہندیۃ، الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح، زکریا قدیم ۱/ ۱۱۷، جدید ۱/ ۱۷۷، بدائع الصنائع، الصلاۃ، فصل في سنن التراویح، زکریا ۱/ ۶۴۶، کراچی ۱/ ۲۸۹)
قال في الہدایۃ: الأصل أن کل طاعۃ یختص بہا المسلم لا یجوز الاستئجار علیہا عندنا؛ لقولہ علیہ السلام: ’’اقرؤا القرآن ولا تأکلوا بہ‘‘ فالاستئجار علی الطاعات مطلقا لا یصح عند أئمتنا الثلاثۃ، ولا شک أن التلاوۃ المجردۃ عن التعلیم من أعظم الطاعات التي یطلب بہا الثواب، فلا یصح الاستئجار علیہا؛ لأن الاستئجار بیع المنافع، ولیس للتالي منفعۃ سوی الثواب، ولا یصح بیع الثواب، وقال القارئ: ویمنع القارئ للدنیا والآخذ والمعطي آثمان۔ (تنقیح الفتاوی الحامدیۃ ۲/ ۱۳۸)
ولا تصح الإجارۃ لأجل الطاعات مثل الأذان والحج، والإمامۃ، وتعلیم القرآن، والفقہ، ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن، والفقہ، والإمامۃ، والأذان۔ (الدرمع الرد، کتاب الإجارۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات، کراچی ۶/ ۵۵، زکریا ۹/ ۷۷)
وقال العلامۃ فخر الدین الزیلعي: والفتوی الیوم علی جواز الاستئجار لتعلیم القرآن، وہو مذہب المتأخرین من مشایخ بلخ، استحسنوا ذلک وقالوا: بنی أصحابنا المتقدمون الجواب علی ماشاہدوا من قلۃ الحفاظ ورغبۃ الناس فیہم، وکان لہم عطیات من بیت المال، وأما الیوم، فذہب ذلک کلہ واشتغل الحفاظ بمعاشہم، وقل من یعلم حسبۃ، ولا یتفرغون لہ أیضا، فإن حاجتہم تمنعہم من ذلک فلو لم یفتتح لہم باب التعلم بالأجر لذہب القرآن فأفتوا بجواز ذلک۔ (تبیین الحقائق، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، زکریا ۶/ ۱۱۷، إمدادیہ ملتان ۵/ ۱۲۴، البحر الرائق، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، زکریا ۸/ ۳۴، کوئٹہ ۸/ ۱۹، ہدایہ، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، أشرفي ۳/ ۳۰۱)
وقد اتفقت کلمتہم جمیعا علی التصریح بأصل المذہب من عدم الواز، ثم استثنوا بعدہ ما علمتہ، فہذا دلیل قاطع وبرہان ساطع علی أن المفتي بہ لیس ہو جواز الاستئجار علی کل طاعۃ، بل علی ماذکروہ فقط مما فیہ ضرورۃ ظاہرۃ تبیح الخروج عن أصل المذہب۔ (شامي، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، کراچی ۶/ ۵۵، زکریا ۹/ ۷۶)
والمعروف عرفا کالمشروط شرطا۔ (شامي، کتاب الوقف، مطلب فیما یأخذہ المتولي من العوائد العرفیہ، زکریا ۶/ ۶۷۲، کراچی ۴/ ۴۵۰، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۵/ ۱۱۳، ۶/ ۳۰۶، البنایۃ، کتاب الصلح، باب الصلح في الدین، اشرفیہ ۱۰/ ۲۹، کتاب الإجارۃ، باب مایجوز من الإجارۃ وما یکون خلافا فیہا (۱۰/ ۲۵۹)
(۲) جو امام مستقل ہو اور وہ یہ شرط لگائے کہ میں رمضان میں تنخواہ زائد لوںگا اور وہ اضافہ بھی متعین ہو، یا یہ کہے کہ سال بھر ہر مہینہ میری تنخواہ میں اتنا اضافہ کر دیا جائے اور مسجد کی منتظمہ کمیٹی اسے قبول کرلے اور اس اضافہ میں ختم کی کوئی شرط نہ ہو، تو یہ معاملہ شرعاً درست ہے، ایسی صورت میں وہ امام خود قرآن سنائے یا دوسرا کوئی حافظ قرآن پڑھے بہر حال امام اضافہ کا مستحق ہوگا۔ اور اگر منتظمہ کمیٹی نے ختم قرآن کی شرط کے ساتھ اضافہ منظور کیا ہے تو اس معاوضہ کا لین دین بہرحال جائز نہ ہوگا۔
ویفتی الیوم بصحتہا (أي الإجارۃ) لتعلیم القرآن، والفقہ، والإمامۃ، والأذان۔ (الدرمع الرد، کتاب الإجارۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات، کراچی ۶/ ۵۵، زکریا ۹/ ۷۶)
وبعضہم استثنی تعلیم الفقہ، والإمامۃ۔ (رسائل ابن عابدین، ثاقب بکڈپو ۱/ ۱۶۳)
(۳) اگر کوئی شخص تراویح میں قرآن سنانے کے ساتھ ساتھ تفسیر بھی کرتا ہے اور اس کا واقعی مقصد تفسیر ہی ہے، ختم قرآن مقصود نہیں ہے، تو تفسیری بیان کے عوض رقم لینا درست ہے؛ کیوں کہ یہ بھی تعلیم کی ایک شکل ہے، تاہم یہ اجرت متعین ہونی چاہئے اور اس کی ادائیگی ختم قرآن کے موقع پر نہ ہونی چاہئے، تاکہ اشتباہ نہ ہو۔
وزاد بعضہم الأذان والإقامۃ والوعظ۔ (شامي، زکریا ۹/ ۷۷، کراچی ۶/ ۵۵)
(۴) مسئولہ صورت میں جمع شدہ رقم ہدیہ یا اضافہ کے طور پر مستقل امام یا مؤذن کو دینے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن اگر حافظ قرآن امام مؤذن کے علاوہ ہو تو ختم قرآن کے بدلے حافظ قرآن کو دینا درست نہیں ہے۔
ویفتی الیوم بصحتہا، أي الإجارۃ لتعلیم القرآن، والفقہ، والإمامۃ، والأذان۔ (الدرمع الرد، کتاب الإجارۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات، کراچی ۶/ ۵۵، زکریا ۹/ ۷۶)وبعضہم استثنی تعلیم الفقہ، والإمامۃ۔ (رسائل ابن عابدین، ثاقب بکڈپو ۱/ ۱۶۳)
(۵) اگر کسی جگہ سورہ تراویح پڑھانے کے لئے بلا معاوضہ امام دستیاب نہ ہوسکے، تو ایسی صورت میں تراویح کو فرائض کے ساتھ ملحق اور تابع بنا کر اس کی امامت کا معاوضہ دینے کی گنجائش ہوگی۔ (دیکھئے حوالہ بالا)
(۶) جس طرح قرآن سنانے والے کے لئے معاوضہ جائز نہیں ہے، اسی طرح سامع کے لئے بھی معاوضہ لینا جائز نہیں ہے، اس مسئلہ میں پہلے حکیم الامت حضرت تھانوی نورﷲ مرقدہ نے تعلیم قرآن پر قیاس کرکے جواز کا قول ارشاد فرمایا تھا، پھر بعد میں اس سے رجوع کرکے عدم جواز کا فتویٰ صادر فرمایا ہے۔ ملاحظہ ہو: (التذکیر والتہذیب ۳/ ۸۳، احسن الفتاوی ۳/ ۵۱۶)
ہمارے نزدیک یہی رائے احوط ہے؛ کیوں کہ سماع میں تعلیم کا پہلو مغلوب اور عبادت کا پہلو غالب ہے.(فتاوی قاسمیہ٤٣٤/٨تا٤٤٤)
تفصیل دیکھئے:فتاوی قاسمیہ٤٢٢/٨تا٥٧٧)نیز دیکھئے:امداد الفتاوی جدید۳٣٠/٢تا۳۷۰)مزید دیکھئے:معاوضہ علی التراویح)
فقط وﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی 

احمد نگر ہوجائی آسام

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے