پوتے کے لئے وصیت کرنا

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

پوتے کے لئے وصیت کرنا

السلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ۔
حضرات علمائے کرام و مفتیان شرع دین متین۔۔
اگر باپ کی زندگی میں اولاد میں سے کوئی لڑکا انتقال ہو جائے اور باپ یہ وصیت کرکے انتقال فرماے کہ میرے ترکہ میں سے اتنا حق میرے مرے لڑکے کے اولاد کو ملے جتنا میراث میں میرے دوسرے لڑکے کو ملے۔
کیا باپ کے وصیت کے مطابق میراث تقسیم کرنا ضروری ہے؟یا لا وصية في الميراث.براہ مہربانی مدلل رہنمائی فرمانے کی زحمت گوارہ فرمائیں۔(المستفتی ولی الرحمن بن شفیق الرحمن غفر لھما،امام پابیجوری انچلک بڑی مسجد ہوجائی آسام الھند
١٢/٠٨/٢٠٢٠۔

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب وبہ التوفیق
فقہاء نے تصریح کی ہے کہ اقرب کے ہوتے ہوئے ابعد میراث کا حقدار نہیں ہوتا ہے،تاہم اگر مورث کسی کیلئے وصیت کرکے جائے تو ثلث مال میں وصیت نافذ ہوتا ہے،اس سے زائد پر وصیت نافذ نہیں ہوگا اور نہ ہی اس وصیت کو پورا کرنا ضروری ہے،لہذا صورت مسئولہ میں پوتے کیلئے تہائی مال میں وصیت نافذ ہوگا ہاں اگر تمام وارثین بخوشی باپ کے حکم کردہ وصیت پر عمل کرنا چاہے تو اسکی بھی گنجائش ہے۔اور آپنے جو عبارت نقل کی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ مورث اپنے وارث کیلئے وصیت نہ کریں اگر مورث اپنے وارث کیلئے وصیت کرکے جائے گا تو یہ وصیت نافذ نہیں ہوگا،اسلئے کہ وارث ہی میراث کا حقدار ہوتا ہے اگر وصیت کا معاملہ باقی رکھا جائے تو کسی وارث کو زیادہ میراث ملنے اور کسی کو کم ملنے کا قوی امکان رہےگا اسلئےشارع علیہ السلام نے سرے سے ہی وارث کیلئے وصیت کرنےکو منع فرمایا ہے۔
اور عبارت اس طرح ہے إن اللّٰہ تبارک وتعالیٰ قد أعطی کل ذي حق حقہ فلا وصیة لوارث۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں

الأقرب فالاقرب يرجحون بقرب الدرجة،أعني: أولهم بالميراث جزء الميت: أي البنون ثم بنوهم وان سفلوا،(السراجي في المیراث ص٣٦باب العصبات،احوال العصبة بنفسها،مکتبة البشریٰ)
ولو أوصى لبعض ورثته، فأجاز الباقون؛ جازت الوصية؛ لأن امتناع الجواز كان لحقهم لما يلحقهم من الأذى والوحشة بإيثار البعض، ولا يوجد ذلك عند الإجازة، وفي بعض الروايات عنه – عليه الصلاة والسلام – أنه قال «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» ، ولو أوصى بثلث ماله لبعض ورثته ولأجنبي، فإن أجاز بقية الورثة؛ جازت الوصية لهما جميعا.
وكان الثلث بين الأجنبي وبين الوارث نصفين، وإن ردوا، جازت في حصة الأجنبي، وبطلت في حصة الوارث.
وقال بعض الناس: يصرف الثلث كله إلى الأجنبي؛ لأن الوارث ليس بمحل للوصية فالتحقت الإضافة إليه بالعدم، كما لو أوصى لحي وميت إن الوصية كلها للحي لما قلنا كذا هذا وهذا غير سديد؛ لأن الوصية للوارث ليست وصية باطلة بدليل أنه لو اتصلت بها الإجازة جازت، والباطل لا يحتمل الجواز بالإجازة، وبه تبين أن الوارث محل للوصية؛ لأن التصرف المضاف إلى غير محله يكون باطلا دل أنه محل، وأن الإضافة إليه وقعت صحيحة إلا أنها تبطل في حصته برد الباقين، وإذا وقعت صحيحة، فقد أوصى لكل واحد منهما بنصف الثلث، ثم بطلت الوصية في حق الوارث بالرد، فبقيت في حق الأجنبي على حالها، كما لو أوصى لأجنبيين؛ فرد أحدهما دون الآخر(بدائع الصنائع ٤٩٤/١٠،کتاب الوصایا،دارالکتب العلمیہ بیروت)) البنایہ شرح ہدایہ٣٩٣/١٣،دار الکتب العلمیہ بیروت)
ولا تجوز بما زاد علی الثلث … إلا أن یجیزہا الورثۃ۔ (الہدایۃ،٦٦٣/٤ کتاب الوصایا/باب في صفۃ الوصیۃ, الأمین کتابستان دیوبند)
ولو اوصى بمثل نصيب ابنه جاز.(الہدایۃ،۶۴۷/۴کتاب الوصایا/باب الوصیۃ بثلث المال,إدارۃ المعارف دیوبند)البنایہ شرح الہدایۃ۴۱۹/۱۳دار الکتب العلمیہ بیروت)
وتجوز بالثلث للاجنبي وان لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه،الا أن تجيز ورثته بعد موته وهم كبار. (الدر المختار٣٣٩/١٠تا٣٤٠، کتاب الوصایا،دار الکتب العلمیہ بیروت)، وکذا في البحر الرائق۲۱۳/۹ کتاب الوصایا رشیدیۃ، وکذا في تبیین الحقائق۲۷۶/۷تا۲۷۷ کتاب الوصایا,دار الکتب العلمیۃ بیروت)
واما لو وهب وسلم لغير الورثة فان خرج الموهوب من ثلث ماله صحت الهبة وان لم يخرج ولم تجز الورثة الهبة فانما تصح في ما يخرج من الثلث. (شرح المجلۃ لسلیم رستم باز٤٨٤/١رقم المادۃ:۸۷۹کتاب الہبۃ ,الفصل الثاني في ہبۃ المریض, کوئٹہ)
وان اوصى لاحهما بجميع ماله والآخر بثلث ماله ولم تجز الورثة فثلثه بينهما نصفان.(الدر المختار۳۶۳/۱۰کتاب الوصایا/باب الوصیۃ بثلث المال,دار الکتب العلمیہ بیروت)(البحر الرائق۲۲۴/۹، کتاب الوصایا/باب الوصیۃ بثلث المال, زکریا، وکذا في تبیین الحقائق۳۸۷/۷، کتاب الوصایا/باب الوصیۃ بثلث المال,دار الکتب العلمیۃ بیروت)
ومن اوصى لرجل بثلث ماله والآخر بثلث ماله ولم تجز الورثة فثلثه بينهما الخ۔ (الہدایۃ٦٦٢/٤الأمین کتابستان دیوبند)
عن ابن عباس رضى الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال لا وصية لوارث الا أن يشاء الورثة۔(مشکاۃ المصابیح٢٤٥/١رقم: ۳۰۷۴، مرقاۃ المفاتیح، کتاب الفرائض باب الوصایا٢٣٣/٧ دار الکتب العلمیۃ بیروت)(مستفاد:فتاویٰ محمودیہ۴۷۲/۲۰تا۴۷۶،کتاب الفرائض،جامعہ فاروقیہ کراچی)(کتاب النوازل۶۸/۱۸تا۷۴)
واللہ اعلم بالصواب

محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الہند
۱۹۔شوال المکرم ۱۴۴۲؁ھ م۱ جون ۲۰۲۱؁ء بروز منگل

تائید کنندگان
مفتی مرغوب الرحمن القاسمی عفی عنہ
مفتی امام الدین القاسمی سلمہ
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الہند
مفتی مختار حسین الحسینی غفرلہ

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے