ایک منزل میں جگہ خالی ہونے کے باوجود دوسرے منزل پر نماز پڑھنا

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

ایک منزل میں جگہ خالی ہونے کے باوجود

ایک منزل میں جگہ خالی ہونے کے باوجود دوسرے منزل پر نماز پڑھنا

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ…
(الف) ھمارے یہاں مسجد کے فوقانی حصہ میں جماعت اصلی ھوتی ھے…
تحتانی حصہ میں کبھی مکتب چلتا تھا…

مکتب کی الگ تعمیر ھو جانیکی وجہ سے تحتانی حصہ اب خالی ہے..
البتہ کبھی کچھ معذور اور عمر دراز افراد تحتانی حصہ میں فوقانی امام کے تابع ھو کر باجماعت نماز ادا کر لیتے تھے.. معذور حضرات کی سہولت کے پیش نظر لفٹ کا انتظام کیا گیا…

جواب طلب یہ ہے کہ..
ابھی بھی کچھ معذور اور عمر دراز حضرات تحتانی حصہ میں فوقانی جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لیتے ہیں اور انکے ساتھ کچھ اور لوگ بھی شریک ھو جاتے ہیں..
کیا ان حضرات کی نماز ھو جائیگی.. ؟
(ب) دوسری بات یہ ہے کہ..
اس وقت وبا کے پیش نظر..
مسجد میں کچھ حضرات جماعت میں اس طرح شرکت کرتے ہیں کہ
درمیان میں کچھ صفیں خالی رھتی ھے.. اور فاصلے(ڈسٹنس) کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں… واضح رہے کہ اگلی صفوں میں ڈسٹنس نہیں رکھتے ھیں.. اس صورت میں ان حضرات کی اقتداء اور نماز درست ھوگی کے نہیں….
برائے مہربانی
جلد تفصیلی جواب عنایت فرمائیں..
فقط والسلام مع الاحترام..
العبد.. محی الدین..
گجرات

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب۔ (الف) اگر مسجد کے عمارت میں ایک سے زائد منزلیں ہو تو ایسی صورت میں اصل تو یہی ہے کہ پہلے تحتانی منزل میں صف بندی کی جائے اس کے بعد فوقانی منزل میں کیونکہ تحتانی منزل اصل ہے۔ لیکن اگر کسی عذر کی وجہ سے جماعت خانہ اوپر کی منزل میں بنی ہو تو بہتر یہ ہے کہ پہلے اوپر کی منزل پر کی جائے اس کے بعد نیچے کی منزل میں کھڑے ہو۔

تاہم کسی عذر کی وجہ سے جماعت خانہ میں صف خالی ہونے کے باوجود نیچے کی منزل میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنا بلا کراہت جائز ہے۔ اور بغیر کسی عذر کے ایسا کرنا مکروہ ہے۔
(ب) کرونا وائرس کی وجہ سے حکومتی احکامات کی پابندی کرتے ہوئے مقتدیوں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھ کر نماز پڑھ لی جائے تو نماز ادا ہو جائے گی لیکن غیر معمولی فیصلہ رکھ کر کھڑےہونا سنت متواترہ کے خلاف ہے۔

ولو صلی علی رفوف المسجد إن وجد في صحنہ مکاناً کرہ کقیامہ في صف خلف صف فیہ فرجة ،قلت: وبالکراھة یضاً صرح الشافعیة وقال السیوطي في ”بسط الکف في إتمام الصف“:وھذا الفعل مفوت لفضیلة الجماعة الذي ھو التضعیف لا لأصل برکة الجماعة فتضعیفھا غیر برکتھا ھي عود برکة الکامل منہ علی الناقص اھ وفی الرد: قولہ:”کرہ “؛لأن فیہ ترکا لإکمال الصفوف والظاھر أنہ لو صلی فیہ المبلغ في مثل یوم الجمعة لأجل أن یصل صوتہ إلی أطراف المسجد لا یکرہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الإمامة، ۲: ۳۱۲،ط: مکتبة زکریا دیوبند)،قولہ:” کرہ“: أي: تنزیھاً لاستعلائہ،……،قولہ: ”وھذا الفعل مفوت الخ “: لیس مذھباً لنا والذي تفیدہ عبارات المذھب الکراھة فقط (حاشیة الطحطاوي علی الدر ۱: ۲۴۶، ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)،نیز فتاوی محمودیہ جدید(۶: ۵۲۷، سوال: ۲۹۴۵، مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل)
ولوقام علی سطح المسجد واقتدی بإمام في المسجد إن کان للسطح باب في المسجد ولا یشتبہ علیہ حال الإمام یصح الاقتداء، وإن اشتبہ علیہ حال الإمام لا یصح کذا في فتاوی قاضي خان أیضا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۸۸ کوئٹہ) فقط واللہ اعلم بالصواب۔

مختار حسین الحسینی

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے