نماز جنازہ پڑھانے کا زیادہ حقدار کون ہے

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

مسئلہ نمبر 01

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
حضرت ایک سوال ہے سوال یہ ہے کے مرد کا اگر انتقال ہوجاۓ تو اسکو کتنے کپڑوں میں لپیٹ دفن کرنا ہے 
اور اگر عورت کا انتقال ہوتو اسکو کتنے کپڑوں میں لپیٹ کر دفن کرنا ہے 
اور غسل کفن ہونے کے بعد اب نماز کی باری آتی ہے تو کیا اگر عورت یا مرد دونوں میں سے کسی کا انتقال ہو جاۓ اور نماز پڑھانے کا جب وقت ہوتو ایسی حالات  میں اسکا  بیٹا ہے جسکو جنازے کی نماز پڑھانا آتا ہے تو کیا اسکے بیٹے کی پھیچے کوٸ عالم ہوتو کیا ایسی حالات  میں کون نماز پڑھاۓ تو زیادہ بہتر ہے 
جناز کے مساٸل کو اس میں کیا کرنا ہے اور عورت ہوتو کیا کرنا ہے تو اسکے متعلق تھوڑا تفصیل  سےبتایے مہربانی ہوگی
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب وباللہ التوفیق
مرد کیلئے تین کپڑے(کرتا، ازار، چادر)،پہلے چادر بچھائی جائے پھر ازار، پھر اس پر کرتہ پھر میت کو رکھدیا جائے، اور پہلے کرتہ لپیٹا جائے، پھر ازار، پھر چادر
اور عورت کیلئے پانچ کپڑے(چادر، ازار، قمیص، سینہ بند، سربند) پہلے چادر بچھائی جائے، پھر اس پر ازار، پھر اس کے اوپر کرتہ، پھرکرتا پہنا کر سر بند بالوں پر رکھا جائے، پھر ازار لپیٹنے کے بعد سینہ بند باندھا جائے، اس کے بعد چادر لپیٹ دی جائے۔( مستفاد: بہشتی زیور اختری ۲؍۵۵) فتاویٰ قاسمیہ۵۸۸/۹تا۵۹۱)
(۲) عورت کے نماز جنازہ پڑھانے کا زیادہ حقدار ان کے محارم باپ، دادا، بھائی، بیٹے وغیرہ ہیں، اگر یہ سب موجود ہو اور نمازجنازہ پڑھا سکتے ہو تو نماز جنازہ پڑھانے کا حق انہیں کو ہوگا۔ورنہ محلہ کے امام یا ولی جس کو اجازت دے وہ۔
دوسری بات یہ ہے کہ مرد کے نماز جنازہ محلہ کے امام یاکنبہ میں سے کوئی ولی اور رشتہ دار نماز جنازہ پڑھائے تو نماز ہر صورت میں ہو جائے گی؛ ہاں البتہ فضیلت میں فرق ہے، اگر میت کے اولیاء میں سے کوئی محلہ کے امام سے زیادہ افضل موجود ہے تو وہ زیادہ حقدار ہوگا؛ ورنہ محلہ کا امام ہی زیادہ حقدار ہوگا؛ لہٰذا اگر ولی امام صاحب سے زیادہ افضل ہے تو وہ زیادہ حقدار ہوگا، ورنہ محلہ کا امام زیادہ حقدار ہوگا۔لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ عالم صاحب کا ہی نماز جنازہ پڑھانا زیادہ بہتر ہے۔(مستفاد بہشتی زیور، ۱۱؍۹۶) فتاویٰ قاسمیہ۶۸۱/۸تا۶۹۲)


عبارت ملاحظہ فرمائیں:

السنۃ أن یکفن الرجل في ثلاثۃ أثواب: إزار، وقمیص، ولفافۃ، الخ (ھدایۃ، کتاب الجنائز، فصل في التکفین، اشرفي دیوبند۱/۱۷۹)
عن لیلی بنت قانف الثقفیۃؓ، قالت:کنت فیمن غسل أم کلثوم ابنۃ رسول الله صلی الله علیہ وسلم عندوفاتہا، فکان أول ماأعطانا رسول الله صلی الله علیہ وسلم الحقاء، ثم الدرع، ثم الخمار، ثم الملحفۃ، ثم أدرجت بعد في الثوب الأخر۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الجنائز، باب في کفن المرأۃ، النسخۃ الہندیۃ۲/۴۵۰، دارالسلام رقم:۳۱۵۷، مسند أحمد بن حنبل ۶/۳۸۰، رقم: ۲۷۶۷۶، المعجم الکبیر للطبراني، دار إحیاء التراث العربي ۲۵/۲۹، رقم:۴۶)
وتکفن المرأۃ في خمسۃ أثواب: درع، وإزار، وخمار، ولفافۃ، وخرقۃ تربط فوق ثدییہا۔ (ہدایۃ، باب الجنائز، فصل في التکفین، اشرفي دیوبند ۱/۱۷۹) 
عن الزہريؓ، قال: الأب، والإبن، والأخ أحق بالصلاۃ علی المرأۃ من الزوج۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ الجنائز، في الزوج والأخ أیہما أحق بالصلاۃ مؤسسۃ علوم القرآن جدید ۷؍۴۲۴، رقم: ۱۲۰۸۷)
عن قتادۃؓ، أنہ کان یقول: الأولیاء أحق بالصلاۃ علیہا من الزوج۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ الجنائز، تحقیق الشیخ عوامہ ۷؍۴۲۴، رقم: ۱۲۰۸۸)
ثم الولي بترتیب عصوبۃ الإنکاح…، فإن لم یکن لہ ولي فالزوج الخ۔(شامي، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، کراچی ۲/۲۲۱، زکریا ۳/۱۲۱، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، باب أحکام الجنائز، درا الکتاب دیوبند ص:۵۹۰، ہندیۃ، الباب الحادي والعشرون في صلاۃ الجنازۃ، الفصل الخامس فيالصلاۃ علی المیت، زکریا قدیم ۱/۱۶۳، زکریا جدید ۱/۲۲۴، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۱۶/۳۹) 
عن عمرؓ أنہ قال : الولي أحق بالصلاۃ علیہا۔ (مصنف عبد الرزاق، الجنائز، باب من أحق بالصلاۃ علی المیت، المجلس العلمي، ۳؍۴۷۲، رقم: ۶۳۷۳)
عن عروۃؓ، قال: لما قتل عمر ابتدر عليؓ، و عثمانؓ للصلاۃ علیہ، فقال لہما صہیب: إلیکما عني، فقد ولیت من أمرکما أکثر من الصلاۃ علی عمر، وأنا اصلي بکم المکتوبۃ، فصلی علیہ صہیب۔(المستدرک، کتاب معرفۃ الصحابۃ، مکتبہ نزار مصطفی البازجدید ۵؍۱۷۰۲، رقم: ۴۵۱۷)
وتقدیم إمام الحي مندوب فقط بشرط أن یکون أفضل من الولي وإلا فالولي أولیٰ الخ۔ (در المختار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، زکریا ۳؍۱۲۰، کراچی ج:۲؍۲۲۰)
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
خادم دندوا حافظیہ قاریانہ وخارجیہ مدرسہ آسام (مریگاؤں)
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے