لاوارث عورتوں کی لاش کی پہنچان کیسے کیا جائے گا۔

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

مسئلہ نمبر 30
اگر لڑکی کی لاش ملے تو آپ کو کیسے بتا چلےگا کہ وہ مسلمان ہے یا کافر۔(المستفتی: محمد آزاد ہلدیا متعلم جامعہ حسینہ دیوبند:الھند

الجواب وباللہ التوفیق
لاوارث عورتوں کی لاش پہنچاننے کی پوری کوشش کی جائے گی، اگر مسلمان عورتوں کی علامت یا قرینہ ظاہر ہو تو ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا معاملہ ہوگا، اور اگر کافروں کی علامت ظاہر ہو تو اس کو کافروں کے حوالہ کردیا جائے گا،اسی طرح لاش کے ملنے کی جگہ سے قریب والی بستی میں کل یا اکثر مسلمان بستے ہیں، تو لاش کو اسلامی طریقہ پر کفن دفن کیا جائے، اور اگر کل یا اکثر غیر مسلم آباد ہیں ، تو نہلا کر، کفن پہنا کر غیر مسلموں کے قبرستان میں دفن کیا جائے، اور اگر قریب والی بستی کے لوگوں میں مسلموں اور غیر مسلموں کی تعداد برابر ہے ، تو نہلا کر، کفن پہنا کر بغیر نماز جنازہ پڑھے کسی علیحدہ جگہ دفن کیا جائے۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں
 لو لم یدرأ مسلم أم کافر ، ولا علامۃ فإن في دارنا غسل وصلی علیہ، وإلا لا ، اختلط موتانا بکفار ولا علامۃ اعتبر الأکثر ، فإن استووا غسلوا.(التنویر وشرحہ مع الشامیۃ،۸۸/۳، مطلب في الکفن)
ومن لا یدري أمسلم أم کافر ، فإن کان في قریۃ أہل الإسلام فظاہر أنہ مسلم فیغسل ویصلی علیہ ، وإن کان في قریۃ من قری أہل الشرک فالظاہر منہم فلا یصلی علیہ ، إلا أن یکون علیہ سیما المسلمین فحینئذ یغسل ویصلی علیہ ۔۔۔۔۔ فإذا استویا لم یصلی علیہم عندنا ، لأن الصلاۃ علی الکفار منہي عنہا ، ویجوز ترک الصلاۃ علی بعض المسلمین.(البحر الرائق،۸۴/۲تا۸۵، باب الجنائز)
إذا اختلط موتی المسلمین وموتی الکفار فمن کانت علیہ علامۃ المسلمین صلی علیہ ومن کانت علیہ علامۃ الکفار ترک فإن لم تکن علیہم علامۃ والمسلمون أکثر غسلوا وکفنوا وصلی علیہم وینوون بالصلاۃ والدعاء للمسلمین دون الکفار ویدفنون في مقابر المسلمین۔ (الأشباہ والنظائر ۱۸۱، کذا في الدر المختار مع الرد المحتار ۳؍۹۳-۹۴ زکریا) 
 وإن تعذر التمییز فإن کانت الغلبۃ للمسلمین صلّي علیہم وینوی بہا المسلمین ، وإن کانت الغلبۃ للمشرکین لم یصل علیہم ، لأن العبرۃ للغالب فیما تعذر الوصول إلی معرفتہ بالیقین ، وإن استوی الفریقان لم یصل علیہم ، لأنہ اجتمع علیہم ما یوجب الصلاۃ وما یوجب الترک ، لکنہ ترجّحَ الترک ، لأن ترک الصلاۃ علی المسلم یباح بحال فإنہ لا یصلی علی الباغي وہو مسلم ، والصلاۃ علی الکافر لا تباح بحال ، فکان المیل إلی ما یباح أولیٰ.(الفتاوی الولوالجیۃ،۱۶۳(۱تا۱۶۴)
قلنا : کما ان الصلاۃ علی المیت فرض ، وترک الصلاۃ علی الکافرین فرض، فإذا تعارض الدلیلان اعتبرنا الغالب ، وإن استوی لم یصلی علیہم عندنا ، ۔۔۔۔۔ إنا نقول : استوی جانب الصلاۃ وجانب الترک فترجح جانب الترک ، لأن الصلاۃ علی الکافر لا تجوز بحال ، وترک الصلاۃ علی المسلم جائز في الجملۃ ، فإنہ لا یصلی علی الباغي عندنا.(المحیط البرہاني،۳۳۱/۲، الفصل الثاني والثلاثون في الجنائز)
ولو وجد میت في دار الحرب لا یصلی علیہ ، وإن احتمل أن یکون مسلماً ، لأن الغلبۃ في دار الحرب لکفار ، فإذا کانت الغلبۃ للمسلمین جعل من حیث الحکم کان الکل مسلمون فیصلی علیہم، لکن ینوون بالدعاء للمسلمین ، وإن کان الأکثر کفاراً لم یغسلوا ولم یصلی علیہم ، وإن استووا لم یصلی علیہم عندنا ۔۔۔۔۔ ولم یبین في الکتاب في فصل الاستواء أنہم في أي موضع یدفنون؟ وقد اختلف المشائخ فیہ ، بعضہم قالوا : یدفنون في مقابر المشرکین ، وبعضہم قالوا : یتخذ لہم مقبرۃ علی حدۃ ، وہو قول الشیخ الإمام أبي جعفر الہندواني.(الفتاوی التاتارخانیۃ،۶۱۸/۱، نوع آخر من ہذا الفصل في المتفرقات ، الجنائز)
ولو اجتمع الموتی المسلمون والکفار ینظر إن کان بالمسلمین علامۃ یمکن الفصل بہا یفصل ، وإن لم یکن بہم علامۃ ینظران کان المسلمون أکثر غسلوا وکفنوا ودفنوا في مقابر المسلمین وصلی علیہم وینوي بالدعاء المسلمون ، وإن کان الکفار أکثر یغسلوا ولا یصلی علیہم ، کذا ذکر القدوري في شرحہ مختصر الکرخي ، لأن الحکم للغالب ، وذکر القاضي في شرحہ مختصر الطحاوي ، انہ إن کانت الغلبۃ لموتی الکفار لا یصلی علیہم ، لکن یغسلون ویکفنون ویدفنون في مقابر المشرکین ، ووجہہ أن غسل المسلم واجب ، وغسل الکافر جائز في الجملۃ ، فیؤتی بالجنائز في الجملۃ لتحصیل الواجب ، وأما إذا کانوا سواء فلا یشکل انہم یغسلون لما ذکرنا أن فیہ تحصیل الواجب مع الاتیان بالجائز في الجملۃ ، وہذا أولی من ترک الواجب رأساً.(بدائع الصنائع،۳۱/۲، شرائط وجوب الغسل ، الفتاوی الہندیۃ :۱/۱۰۹ ، الفصل الثاني في غسل المیت)( مستفاد: فتاویٰ محمودیہ فاروقیہ،۵۲۹/۸تا۵۳۲) محقق ومدلل جدید مسائل،۱۰۲/۱تا۱۰۴)کتاب النوازل,۱۱۵/۶تا۱۲۰)(دارالافتاء والاقضاء:العلامۃ البنوریۃ العالمیۃ،فتاوی نمبر:۵۷۴۱)
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام الھند
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
4مئی 2020ء 10رمضان المبارک 1441, بروز:پیر
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے