کیا عورت مردوں کے برابر میں کھڑی ہوکر نماز پڑھ سکتی ہے۔؟

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
مسئلہ نمبر:30
سوال:۔ اگر ایک کمرے میں مرد حضرات جماعت سے نماز پڑھ رہے ہو اور اس کمرے میں 
اتنی جگہ نہ ہو کہ مردوں کے صف کے پیچھے عورتوں کی صف لگائی جائے، تو کیا ایسی 
صورت میں اسی کمرے کے دائیں یا بائیں جانب کے کمرے میں خواتین اپنا صف بنا کر 
جو کہ مردوں کی پہلی صف کے بالکل برابر ہو مرد حضرات کے ساتھ جماعت سے نماز 
ادا کر سکتے ہیں ؟ اگر یہ صورت جائز نہ ہو تو کوئی جوازی شکل بتا کر شکریہ کا 
موقع عنایت فرمائیں۔(المستفتی عبداللہ،انڈیا)

الجواب وبہ التوفیق
عورت جب مرد کے برابر میں گھڑی ہوکر اقتداء کریگی تو چند شرائط کے ساتھ عورت یا مرد کی نماز فاسد ہو جائے گی ،اگر عاقل بالغ عورت یا نابالغ بچّی جو  جماع کے قابل ہو جماعت کی نماز میں مرد کے برابر میں کھڑی ہو جائے، اور دونوں ایک ہی نماز کی تحریمہ میں شریک ہوں، دونوں کے درمیان میں کوئی حائل نہ ہو، اور عورت پاگل، حائض اور نفاذ والی بھی نہ ہو، اور ایک رکن کی ادائیگی کی مقدار میں مرد کے برابر میں ہوں، دونوں ایک ہی امام کے مقتدی ہوں، اور امام نے عورت کی امامت کی نیت بھی کی ہو ، عورت مقتدی ہو اور مرد نے عورت کی امامت کی نیت کی ہو، تو ایسی صورت میں مرد کی نماز فاسد ہو جاتی ہے ،مرد پر اس نماز کو دوبارہ پڑھنا لازم ہوتا ہے۔لہذا صورت مسئولہ جب بیچ میں دیوار یا کوئی پردہ موجود ہے اسلئے عورتوں کیلئے برابر میں کھڑی ہوکر اقتداء کرنا جائز و درست ہوگا۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں
لو حاضت امرأۃ او صبیۃ مشتھاۃ تعقل الصلٰوۃ رجلا او تقدمت علیہ قدر رکن وصلاتھما مطلقۃ مشترکۃ تحریمۃ واداء واتحد المکان والجھۃ بلا حائل ونویت اما متھا فسدت صلاۃ الرجل،(حلبی کبیر،۵۲۱،فصل فی الامامۃ،السادس فی الموقف،ط:ص,۴۴۹،ط:نعنانیۃ،کوئٹہ) ہندیہ،۸۹/۱،کتاب الصلاۃ ، الباب الخامس فی الامامۃ،الفصل الخامس فی بیان مقام  الامام المامون،ط: رشیدیہ،رد المحتار،۵۷۲/۱تا۵۷۵،باب الامامۃ،ط:سعید،حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،ص،۳۲۹/تا۳۳۰، باب ما یفسد الصلوۃ،ط: قدیمی،کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ،۲۹۶/۱،ط:دارالفکر،)
ومحاذاۃ المشتہاۃ في صلاۃ مطلقۃ مشترکۃ تحریمۃ في مکان متحد بلا حائل قدر ذراع أو فرجۃ تسع رجلا، ولم یشر إلیہا لتتأخر عنہ، فإن لم تتأخر بإشارتہ فسدت صلا تہا لا صلوتہ۔ (مراقي الفلاح مع الطحطاوي ۳۲۹ مطبوعہ دیوبند) 
ویفسدھا)محاذاۃ المشتھاۃ بساقھا، وکعبھا فی الاصح،ولو محرما لہ او زوجۃ اشتھیت،………….. فی اداء رکن عند محمد وقدرہ عند ابی یوسف فی صلوٰۃ ولو بالایماء مطلقۃ…………….مشترکۃ تحریمۃ،باقتدائھما بامام او اقتدائھا بہ فی مکان متحد……..بلا حائل…….الخ،حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،باب ما یفسد الصلوۃ،ط:قدیمی کراچی)رد المحتار،۵۷۲/۱تا۵۷۵،باب الامامۃ،ط:سعید،)مستفاد: علم الفقہ،۱۰۴/۲) نماز کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا،۱۲۵/۳تا۱۲۸)(مسائل رفعت قاسمی،۱۳۴/۲)(قاموس الفقہ ۲۶۹/۴)
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام الھند
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
3مئی،2020ء 9رمضان المبارک،1441ھ بروز اتوار.
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے