مختلف طریقہ سے اجرت لے کر حافظ صاحب کا تراویح میں قرآن سنانے کا حکم

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
مختلف طریقہ سے اجرت لے کر حافظ صاحب کا تراویح میں قرآن سنانے کا حکم:
سوال:
 سلام مسنون، سوالات ذیل بطور استفتاء روانہ خدمت ہیں جواب باصواب سے جلد مطلع فرمائیں :
(۱) اس قصبہ میں عام طورسے اکثر مساجد میں نماز تراویح باجماعت تمام رمضان المبارک ہوتی ہے۔ لیکن حافظ جو ان تراویحوں میں امام بن کر ختم کلام شریف کرتے ہیں بدون عوض نقدی نہیں ملتے۔
(۲) حفاظ کو معاوضہ دینے کی یہاں دو صورتیں رائج ہیں اکثر تو قبل شروع تراویح معاملہ صاف صاف کرلیتے ہیں لیکن زیادہ تعداد ایسے حافظوں کی ہے جو تعیین عوض نہیں کرتے بلکہ جس روز کلام شریف ختم ہوتا ہے مقتدیان نماز تراویح بطیب خاطر وبرغبت حافظ صاحب کونقدی۸؍پیش کرتے ہیں جس کوحافظ صاحب حلوائے بے دودھ کی طرح ہضم کرجاتے ہیں ۔
(۳) ایک صورت یہ بھی مستعمل ہے کہ محلہ کا رئیس یا کوئی ذی مقدرت شخص ایک حافظ کو محض ختم کلام شریف کے واسطے اپنی مسجد میں متعین کرتا ہے اور اس کی خدمت نقدی معاوضہ سے اپنی جیب خاص سے پوری کرتا ہے مقتدیوں کو کچھ نہیں دینا پڑتا ہے۔
(۴) رسالہ اصلاح الرسوم مؤلفہ آں مخدوم کے مطالعہ سے صاف ظاہر ہے کہ طاعت الٰہی پر اجرت نہیں ہے لہٰذا مسئلہ بالا میں کونسی صورت بغرض جواز اقتداء امام ماجور اختیار کی جاسکتی ہے ؟
(۵)جبکہ حفاظ ماجور کی وباعالمگیر ہو تو محض بیس رکعت نماز تراویح با جماعت جن میں چند سورتیں کلام پاک کی پڑھ لی جایاکریں افضل اور انسب ہے بہ نسبت اقتداء ان حفاظ ماجور کے ؟
(۶) اگرحافظ صاحب سے نہ قبل از تراویح معاملۃ کی جاوے اور نہ اختتام کلام پاک پر ان کو اجرت دی جاوے بلکہ تمام سال کے اندر بغیر تعین تاریخ ان کی کماحقہ نقدی سے خدمت کرد ی جائے تو کیا یہ نقدی معاوضہ لینا حافظ کو جائز ہے اور ایسے حافظ کی اقتداء کی جاسکتی ہے ۔
(۷) ایک محلہ میں نماز تراویح باجماعت پڑھی جاتی ہے لیکن اس میں ختم کلام شریف حسب رواج نہیں ہوتا لیکن صرف الم ترکیف سے آخر تک کی سورتیں پڑھی جاتی ہیں بس ان دوشخصوں میں سے کس کا فعل افضل ہے آیا اس شخص کا جو اپنے محلہ کی ایسی نماز تراویح میں شریک ہوتا ہے یا دوسرے شخص کا جو دوسرے محلہ میں کرایہ دار حافظ کے پیچھے اقتداکرکے ختم کلام شریف پر فخرکرتاہے۔
(۸) اگرکسی شہر میں حسن اتفاق سے کسی خاص مسجد میں کوئی حافظ محض بہ نیت ثواب بلا کسی معاوضہ نقدی کے کلام پاک نماز تراویحمیں ختم کرتا ہے تو ایسی حالت میں دوسری مساجد میں نماز تراویحصرف الم ترکیف سے باجماعت قائم کرنا جائز ہے یا نہیں ۔
(۱)جبکہ وہ مسجد اس محلہ میں نہ ہو
 (۲) جبکہ وہ مسجد دوسرے محلہ میں ہو؟
الجواب وباللہ التفوفیق:
 چونکہ تراویح میں قرآن سننا منجملہ مقاصد دینیہ ہے اور سلف سے اس کا اہتمام متوارث ہے اور وہ آجکل بوجہ فساد زمان کے مخلص ختم سنانے والوں سے کم میسر ہوتا ہے اگرایسے حفاظ کے ساتھ قرآن نہ سنا جاوے تو یقینا بعض مقامات پر بعض لوگ عمر بھر استماع ختم قرآن سے محروم رہیں اسلئے سننے والوں کو مضطر سمجھا جاوے گا اور شرعی قاعدہ ہے کہ اضطرار جالبِ تیسیر ہے اس لئے اگرممکن ہو تو ان سننے والوں کے حق میں اس فعل کی کچھ تاویل کرنا مناسب ہے اور یہاں یہ تاویل ممکن ہے (*)کہ اس اجرت کو  (خواہ وہ مشروط ہو یا معروف ہو کہ وہ بھی حکم مشرو ط میں ہے) بمقابلہ امامت کے کہاجاوے گا جس کو متاخرین نے جائز رکھا ہے (۱) اور چونکہ ختم سنانے والامضطر نہیں ہے اس کے حق میں اس تاویل کا اعتبار نہ کیاجاوے گا پس اس کے حق میں یہ اجرت بحالہا نادرست رہے گی اس تقریر سے سب سوالوں کا جواب ہوگیا اگرکسی خاص(سوال سے) اس کا انطباق ظاہر نہ ہو تو مکرر پوچھ لیا جاوے(مگریہ پرچہ بھی واپس آوے)(امداد الفتاوی جدید مطول۳۴۲/۲)
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی 
————————————————-
(*) اس کے بعد ۱۰؍ رمضان المبارک ۱۳۳۳؁ھ کو ایک فتویٰ اس کے علی الاطلاق ممنوع ہونے کا لکھا گیا ہے (یہ فتوی سوال ۴۰۹؍ پر درج ہے۔ ۱۲ سعید احمد پالن پوری)جس میں بناء تاویل کا جواب بھی ہے اور وہ بناء اس ختم کا مقاصد دینیہ سے ہوناہے اور وہ جواب جو کہ خلاصہ ہے اس فتوے کا یہ ہے کہ جہاں فقہاء نے ایک ختم کو سنت کہا ہے، جس سے ظاہرا سنت مؤکدہ مراد ہے، وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ جہاں لوگوں پر ثقیل ہو وہاں الم ترکیف سے پڑھ دے، پس جب تقلیل جماعت کے محذور سے بچنے کے لئے اس سنت کے ترک کی اجازت دے دی، تو استیجار علی الطاعۃ کا محذور اس سے بڑھ کر ہے ، اس سے بچنے کے لئے کیوں نہ کہا جاوئے گا کہ الم ترکیف سے پڑھ لے آہ؛ چونکہ یہ فتوی بعد کا ہے، حضرت مجیب کے نزدیک عمل کے لئے یہی مستحسن ہے باقی فتوی سابق کا نقل کردینا اس خیال سے ہے کہ دوسرے اہل علم بھی دونوں جوابوں کی بناؤں پر غور فرمالیں اور جو راجح ہو اس پر فتوی دیں ممکن ہے کہ مجیب احقر کی نظر قاصر رہی ہو۔ ۱۲ منہ عفی عنہ
=======================================
توضیح مسئلہ مذکورہ از ترجیح الراجح ص۲۳۴
حوادث الفتاویٰ ۱۳۳۱ھ؁ ص۱۱۸ میں استماع قرآن من الحافظ الاجیر کا مسئلہ ہے اس کی سطر۹پر ایک حاشیہ ہے وہ ملاحظہ فرمالیاجاوے اور تتمہ ثانیہ امداد الفتاوی ص۱۶۲ میں بھی اس مسئلہ کی تحقیق ہے اس کو بھی دیکھ لیاجاوے۔ (ترجیح ثالث ص۲۳۴)(*)  (*) یہ سوال ۴۰۹؍ ہے جو اس کے بعد درج کردیا گیاہے۔ ۱۲ مصحح
سوال:(۴۰۹): قدیم ۱/۴۸۴- (۱)حافظ جو تراویح میں سنائے اس کو دینا بھی جائز ہے یالینا دینا دونوں ناجائز؟
(۲) اور اگر بلا اجرت حافظ نہ ملے تو اجرت پر مقرر کرے یا الم ترکیف سے تراویح پڑھ لے؟
(۳)اور جب امامت پر اجرت جائز ہے تو تراویح میں ایک قرآن بھی تو سنت مؤکدہ ہے اس پر اجرت کیوں ناجائز ؟
(۱) آگے سوال نمبر۴۰۹؍ میں حضرتؒ نے واضح فرمادیا ہے کہ اگر بلااجرت حافظ نہ مل سکے تو اجرت پر حافظ کو نہ لائیں ؛ بلکہ الم ترکیف سے تراویح کی نماز پڑھ لیا کریں اور سامعین کے لئے گنجائش کی بات حضرت والا تھانویؒ نے ۸؍ رمضان المبارک ۱۳۳۱ھ میں لکھا تھا اور ۱۳۳۲ھ میں اس کے خلاف تحریر فرمایا ہے کہ بلااجرت حافظ نہ مل سکے تو اجرت دے کر حافظ کو نہ لائیں ؛ بلکہ الم ترکیف سے تراویح کی نماز اداء کی جائے؛ لہٰذا ۱۳۳۱ھ والا جواب ۱۳۳۲ھ والے کے جواب سے ساقط ہوگیا، عربی جزئیات اگلے جواب کے حاشیہ میں ملاحظہ فرمائیے۔
الجواب وباللہ التوفیق:
(۱)میں تو ناجائز سمجھتا ہوں (۲)میں تو الم ترکیف سے بتلا دیتا ہوں (۳) جہاں فقہاء نے ایک ختم کو سنت کہا ہے جس سے ظاہراً سنت مؤکدہ مراد ہے وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ جہاں لوگوں پر ثقیل ہو وہاں الم ترکیف وغیرہ سے پڑھ دے پس جب تقلیل جماعت کے محذور سے بچنے کیلئے اس سنت کے ترک کی اجازت دیدی تو استیجار علی الطاعت کا محذور اس سے بڑھ کر ہے اس سے بچنے کیلئے
کیوں نہ کہاجاوے گا کہ الم ترکیف سے پڑھ لے(۱) اور اسی سے نمبر۱،۲ کی وجہ بھی معلوم ہوگئی ہوگی۔امداد الفتاوی جدید مطول۳۴۴/۲
۱۰؍رمضان ۱۳۳۲ھ؁ (تتمہ ثانیہ ص۱۶۲)
واللہ اعلم بالصواب 
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی 
———————————————————————————
(۱) والختم مرۃ (کنز) وفي النہر: ہذہ المسئلۃ لم تذکر في ظاہر الروایۃ إلا أن أکثر المشایخ قالوا: إن الختم سنۃ وہو الصحیح کذا في الخانیۃ وغیرہا: …وفي الخلاصۃ: الختم سنۃ والختمان فضیلۃ؛ لکن في المحیط: الأفضل في زماننا أن یقرأ ما لایؤدي إلی تنفیر القوم لأن تکثیر الجمع أولیٰ من تطویل القراء ۃ۔ وفي المجتبیٰ: والمتأخرون کانوا یفتون في زماننا بثلاث قصار أو آیۃ طویلۃ لئلا یمل القوم ویلزم تعطیلہا وہذا أحسن۔ فقد روي الحسن عن الإمام أنہ لو قرأ ذلک في الفرض بعد الفاتحۃ فقد أحسن ولم یسئ فما ظنک بغیرہ ’’وفي التجنیس‘‘ واختار بعضہم سورۃ الإخلاص في کل رکعۃ وبعضہم سورۃ الفیل أي البدایۃ منہا، ثم یعیدہا وہذا أحسن لأنہ لا یشتغل قلبہ بعدد الرکعات لعدم اشتباہہا علیہ فیتفرغ للتکفر والتدبر۔ (النہر الفائق، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مکتبہ زکریا دیوبند ۱/۳۰۷)
والختم مرۃ سنۃ ومرتین فضیلۃ وثلاثا أفضل، ولا یترک الختم لکسل القوم لکن في الاختیار: الأفضل في زماننا قدر ما لایثقل علیہم لأنہ تکثیر الجمع أفضل من تطویل القراء ۃ وأقرہ المصنف وغیرہ۔ وفي المجتبیٰ عن الإمام: لو قرأ ثلاثًا قصارًا أو آیۃ طویلۃ في الفرض فقد أحسن ولم یسئ فماظنک بالتراویح؟ وفي فضائل رمضان للزاہدي: أفتیٰ أبو الفضل الکرماني والوبري أنہ إذا قرأ في التراویح الفاتحۃ، وآیۃ أو آیتین لایکرہ۔ 
وفي التجنیس: واختار بعضہم سورۃ الإخلاص في کل رکعۃ، وبعضہم سورۃ الفیل أي البداء ۃ منہا، ثم یعیدہا وہذا أحسن لئلا یشتغل قلبہ بعدد الرکعات وعلی ہذا استقر عمل أئمۃ أکثر المساجد في دیارنا۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مکتبہ زکریا دیوبند ۲/۴۹۷-۴۹۸، کراچي ۲/۴۶-۴۷)
حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، فصل في صلاۃ التراویح، مکتبہ دار الکتاب دیوبند ص:۴۱۴-۴۱۵۔
مجمع الأنہر، کتاب الصلاۃ، فصل في التراویح، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۱/۲۰۳-۲۰۴۔ شبیر احمد قاسمی عفا اﷲ عنہ
====================================
تراویح میں ختم پر اجرت لینے کے لئے باطل حیلہ
سوال:
(۴۱۰): قدیم ۱/۴۸۴- اگرزید کو کوئی شخص بغیر اجرت طے کئے ہوئے اپنی خوشی سے دس پانچ روپیہ دیوے یا ایک ماہ کیلئے امام مقرر کرکے کچھ اجرت دیوے اس طور سے عند الشرع اجرت حلال ہوگی یانہیں اور امامت کی صورت میں تو حلال ہونے میں کوئی شبہ ہی نہیں معلوم ہوتا کیونکہ علماء متاخرین نے امامت کی اجرت پر فتویٰ دیا ہے آپ کی کیارائے ہے تفصیل و ارتحریرکیجئے؟
الجواب وباللہالتوفیق:
یہ جواز کا فتویٰ اس وقت ہے جب امامت ہی مقصود ہو حالانکہ یہاں مقصود ختم تراویح ہے (*) اور یہ محض ایک حیلہ ہے، دیانات میں جو کہ معاملہ فی مابین العبدوبین اللہ ہے حیل مفید جوازواقعی کو نہیں ہوتے لہٰذا یہ ناجائز ہوگا۔(۱)(امداد الفتاوی جدید مطول۳۴۶/۲( ۶؍شوال ۱۳۳۳؁ھ
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی 
………………………………………………………………
.
(*) قاعدہ ہے ’’الأمور بمقاصدہا‘‘پس اگر کسی حافظ کو ختم قرآن شریف کے لئے تراویح کا امام بنایاجاوے تو ظاہر ہے کہ اس سے مقصود امامت نہیں ہے؛ بلکہ قرآن شریف کا ختم ہے۔ (فتاوی دار العلوم جدید ۴/۲۷۳)
لیکن حضرت مفتی کفایت اﷲ صاحبؒ نے اس حیلہ کے جواز کا فتوی دیاہے فرماتے ہیں ’’اگر رمضان المبارک کے مہینہ کے لئے حافظ کو تنخواہ پر رکھ لیا جائے اور ایک دو نمازوں میں اس کی امامت معین کردی جائے تو یہ صورت جواز کی ہے؛ کیونکہ امامت کی اجرت(تنخواہ) کی فقہاء نے اجازت دی ہے (دیباچہ فتاوی رحیمیہ ۲؍۵) لیکن ظاہر ہے کہ یہ حیلہ ہی حیلہ ہے، مقصود واقعی ختم قرآن شریف ہے، امامت مقصود ہر گز نہیں ہے اور دیانات میں حیلے مفید جواز نہیں ہوتے فالحق ما افتی بہ المجیب قدس سرہ العزیز۔ ۱۲ سعید احمد پالن پوری
——————————————————————–
(۱) قال اﷲ تعالیٰ:وَلَا تَشْتَرُوْا بِآَیَاتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا ۔ [سورۃ البقر: ۴۱] قال أبو العالیۃ: أي لاتأخذوا علیہ أجراً۔ (تفسیر ابن کثیر، مکتبہ زکریا دیوبند۱/۲۲۲)
عن عبد اﷲ بن شبل قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: اقرؤا القرآن ولاتأکلوا بہ، ولاتستکثروا بہ،ولاتجفوا عنہ، ولاتغلوا فیہ۔ الحدیث۔ ( مصنف ابن أبي شیبۃ، کتاب الصلاۃ، في الرجل یقوم بالناس في رمضان فیعطیٰ، مؤسسۃ علوم القرآن بیروت ۵/۲۴۰، رقم:۷۸۲۵)مسند أحمد بن حنبل ۳/۴۲۸، رقم:۱۵۶۱۴۔
عن عمران بن حصین أنہ مر علي قارئ یقرأ، ثم سأل فاسترجع ثم قال: سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقول: من قرأ القرآن فلیسأل اﷲ بہ، فإنہ سیجیئ أقوام یقرء ون القرآن یسألون بہ الناس۔ (ترمذي شریف، أبواب فضائل القرآن، باب بلاترجمۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/۱۱۹، دار السلام: ۲۹۱۷۔مسند أحمد بن حنبل ۴/۴۴۹، رقم:۲۰۱۸۶۔
المعجم الکبیر للطبراني، دار إحیاء التراث العربي ۱۸/۱۶۶، رقم:۳۶۰۔
عن سلیمان بن بریدۃؓ عن أبیہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: من قرأ القرآن یتأکل بہ الناس جاء یوم القیامۃ ووجہہ عظم لیس علیہ لحم۔ (شعب الإیمان، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۲/۵۳۳، رقم:۲۶۲۵)
عن عبد اﷲ بن معقل أنہ صلی بالناس في شہر رمضان فلما کان یوم الفطر بعث إلیہ عبد اﷲ بن زیاد بحلۃ وبخمس مأۃ درہم فردّہا وقال: إنا لا نأخذ علی القرآن أجرًا۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ، کتاب الصلاۃ، في الرجل یقوم بالناس في رمضان فیعطیٰ، مؤسسۃ علوم القرآن ۵/۲۳۷، رقم:۷۸۲۱) 
والمعروف عرفًا کالمشروط شرطًا۔ (شامي، کتاب الوقف، مکتبہ زکریا دیوبند ۶/۶۷۲، کراچي۴/۴۵۰، المؤسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۵/۱۱۳)البنایۃ شرح الہدایۃ، کتاب الصلح في الدین، مکتبہ أشرفیہ دیوبند ۱۰/۲۹
إن کل حیلۃ یحتال بہا الرجل لإبطال حق الغیر أو لإدخال شبہۃ فیہ أو لتمویہ باطل فہي مکروہۃ۔ (ہندیۃ، کتاب الحیل قدیم زکریا ۶/۳۹۰/ جدید زکریا دیوبند۶/۳۹۳)
وقال النسفي في الکافي عن محمد بن الحسن، قال: لیس من أخلاق المؤمنین الفرار من أحکام اﷲ بالحیل الموصلۃ إلی إبطال الحق الخ۔ (عمدۃ القاري شرح البخاري، دار إحیاء التراث العربي ۲۴/۱۰۹، زکریا دیوبند ۱۶/۲۳۹، رقم:۶۹۵۳) 
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے