مچھر آگ سے جلانا کیسا ہے؟

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
بیڈ منٹن مشین سے مچھروں کو مارنا؟
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: آج کل ایک قسم کے ہاتھ والی مشین (مثل بیڈ منٹن) نکلی ہے، جس کا استعمال مچھر کو مارنے کے لئے کیا جاتا ہے، اس میں کرنٹ کا تار ہوتا ہے مچھر اُس میں لگتے ہی جل کر مر جاتا ہے، تو کیا مچھرمارنے کے لئے ایسی مشین کا استعمال درست ہے؟ کیا یہ سراسر ظلم نہیں ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو کیا تعذیب بالنار کے حکم میں نہیں آئے گا؟ جو بھی حکم شرعی ہو مدلل مرحمت فرمائیں۔
الجواب وباللہ التوفیق:
کرنٹ والے بلے کو ہلاکر مچھروں کو مارنا مکروہ ہے؛ اِس لئے کہ اِس میں بلا ضرورت جاندار کو آگ سے جلانا لازم آتا ہے، جس کی حدیث میں ممانعت ہے، اور مچھروں کو دفع کرنے کی اِس کے علاوہ اور بھی بہت سی تدبیریں موجود اور مؤثر ہیں، اُنہیں استعمال میں لانا چاہئے، مثلاً: مچھردانی، کچھوا چھاپ، یا اَلاؤٹ وغیرہ؛ البتہ اگر کرنٹ والی مشین کسی جگہ رکھی ہےاور مچھر وہاں جاکر خود بخود مرتے رہیں تو اِس میں حرج معلوم نہیں ہوتا؛ کیوںکہ یہاں جلانا نہیں پایا جارہا ہے؛ بلکہ خود جلنا پایا جارہا ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے کہیں آگ جل رہی ہو اور اُس میں پروانے جاکر خود بخود جل جائیں۔(کتاب النوازل۴۴۹/۱۴)
عن عبد اللّٰہ ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن النار لا یعذب بہا إلا اللّٰہ۔ (مشکاۃ المصابیح ۳۰۷)
عن عبد الرحمٰن بن عبد اللّٰہ عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہ قال: کنا مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في سفرٍ فانطلق لحاجۃ … ورأی قریۃ نمل قد حرقناہا فقال: من حرق ہٰذہ؟ قلنا: نحن، قال: إنہ لا ینبغي أن یعذب بالنار إلا رب النار۔ (سنن أبي داؤد ص: ۳۶۲-۳۶۳)
وإحراق القمل والعقرب بالنار مکروہ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۳۶۱)
یکرہ إحراق جراد و قمل وعقرب، ولا بأس بإحراق حطب فیہا نمل۔ وفي الشامی: یکرہ أي تحریمًا ومثل القمل البرغوث ومثل العقرب الحیۃ۔ (شامي ۱۰؍۴۸۲ زکریا، المسائل المہمۃ ۴؍۲۵۰)
المختار أن النملۃ: إذا ابتدأت بالأذی لا بأس بقتلہا وإلا یکرہ، وإلقاؤہا في الماء یکرہ مطلقًا … الہرۃ إذا کانت مؤذیۃً لا تضرب ولا تحرک أذنہا؛ بل تذبح بسکین حاد۔ (الفتاویٰ البزازیۃ علی ہامش الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الفصل الثامن في القتل ۶؍۳۷۰ زکریا)
وقد أمرنا بضررہم قتل الزنبور والحشرات۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الحادي والعشرون ۵؍۳۶۱ زکریا، وکذا في الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الخنیثیٰ / مسائل شتی ۶؍۷۵۲ کراچی)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
======================================
الجواب وباللہ التوفیق:
بجلی کے کرنٹ والی مشین سے مچھروں کو مارنا:
مسئلہ:آج کل مچھر اور حشرات یعنی کیڑے مکوڑے مارنے کیلئے لوگ بجلی کے کرنٹ والی مشین استعمال کرتے ہیں، اگر مچھروں اور دیگر حشرات کو پکڑ کر اس مشین میں نہ ڈالا جاتا ہو ، بلکہ مشین لگادی جاتی ہو اور مذکورہ چیزیں خود بخود اس کی زد میں آکر مر جاتی ہوں، تو اس میں حرج نہیں، ورنہ مکروہ ہے ۔(المسائل المہمہ۲۴۷/۴) (۱)
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
—————————————————————————
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ مشکوٰۃ المصابیح ‘‘: عن عبد اللہ بن عباس قال : قال رسول اللہ ﷺ : ’’ إن النار لا یعذب بہا إلا اللہ ‘‘ ۔ (ص؍۳۰۷، کتاب القصاص ، باب قتل الردۃ والسعاۃ بالفساد)
ما في ’’ الحدیث النبوی ‘‘: عن عبد الرحمن بن عبد اللہ عن أبیہ قال : کنا مع رسول اللہ ﷺ فی سفر فانطلق لحاجتہ ۔۔۔۔۔۔۔ ورأی قریۃ نمل قد حرقناہا فقال : من حرق ہذہ؟ قلنا : نحن ؛ قال : ’’ إنہ لا ینبغی أن یعذب بالنار إلا رب النار ‘‘ ۔
(السنن لأبی داود :ص؍۳۶۲؍۳۶۳، کتاب الجہاد ، باب فی کراہیۃ حرق العدو بالنار)
ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘: وإحراق القمل والعقرب بالنار مکروہ ۔ 
(۵/۳۶۱، کتاب الکراہیۃ ، الباب الحادي والعشرون)
ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘: یکرہ إحراق جراد وقمل وعقرب ، ولا بأس بإحراق حطب فیما نمل ۔ الدر المختار ۔ قال الشامی قولہ : (یکرہ إحراق جراد) أی تحریماً ، ومثل القمل البرغوث ، ومثل العقرب الحیۃ ۔ (۱۰/۴۸۲، کتاب الخنثی) (فتاوی بنوریہ ، رقم الفتوی :۱۰۳۹۵)
======================================
وعلیکم السلام
India
Question: 20456
کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ آج کل مچھر مارنے کے لیے ایک الیکٹرک بیٹ استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں، کیوں کہ مخلوق کو جلایا نہیں جاتا؟ برائے کرم جواب مرحمت فرمائیں۔
Apr 01,2010
Answer: 20456
فتوی(ب): 494=424-4/1431
خدا کی مخلوق کو تعذیب بالنار دینا یعنی انھیں آگ میں جلادینا ہمارے لیے جائز نہیں ہے۔ مچھروں کو مارنے اور بھگانے کے دوسرے بہت سے طریقے ہیں، انھیں استعمال کرنا چاہیے۔ اگر کوئی دوسری صورت نہ ہو تو پھر گنجائش ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
—————————————————————————————————————————————
Indiaسوال # 18984
کیا
فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل میں بازار میں مچھر مارنے کے لیے ایک قسم کا
الیکٹرک راکیٹ آیا ہے جو بجلی سے چارج ہوتا ہے۔ اس راکیٹ میں مچھر پھنس کر کرنٹ کےذریعہ جل کر مر جاتے ہیں۔ کیا شریعت کے مطابق اس طرح مچھر مارنا جائز ہے؟ فتوی
صادر فرمانے کی زحمت فرمائیں۔ عین نوازش ہوگی۔
Published on: Feb 7, 2010 جواب # 18984
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل):
132=146-2/1431
اگر
مچھر مارنے کا کوئی اور طریقہ نہ ہو جس سے جلائے بغیر مچھر مرجائے تو الیکٹرک راکیٹ سے جلانے کی اجازت ہوگی اور اگر کوئی اور طریقہ ہو تو الیکٹرک راکیٹ سےجلاکر مارنا ناجائز ہوگا: [وحرقہم․․․ لکن جواز التحریق والتغریق مقید –
کما في الشرح السیر- بما إذا لم یتمکنوا من الظفر بہم بدون ذلک بلا مشقة عظیمة فإن تمکنوا بدونہا فلا یجوز (شامي: ۶/۲۰۹، ط زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
…………………………………………………………………………………………………………………………………..
pakistanسوال # 65473
اللہ رب العزت آپ پر ، مجھ پر اور سارے مسلمانوں پر دنیا و آخرت میں عافیت و رحمت و فضل کا معاملہ فرمائے۔
عرض یہ ہے کہ آج کل کچھ بجلی والے آلات ملتے ہیں جن کے اندر کرنٹ ہوتاہے، جب کوئی مچھر یا مکھی وغیرہ اس سے ٹکراتی ہے تو تیز کرنٹ یا بجلی لگنے سے جل کر مرجاتی ہے۔ اس طرح ان کو جلا کر مارنا جائز ہے یا نہیں؟
Published on: Jul 3, 2016 جواب # 65473
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 762-885/SN=9/1437
جلا کر مارنے کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے، مچھر یا مکھی وغیرہ بھگانے کی اس زمانے میں جلانے کے علاوہ بھی مختلف تدبیریں ہیں، انہیں اپنایا جائے، بجلی کے آلات کے ذریعہ جلانے سے احتیاط کیا جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_ #منتظم_المسائل_الشرعیہ_الحنفیہ
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے