پیمنٹ کی پرچی فروخت کرنا کیسا ہے؟

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

۵۰۰؍ روپئے کا بل ۴۰۰؍ روپئے میں فروخت کرنا

سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں : زید نے اپنا غلہ ان شرطوں پر فروخت کیا فی کوئنٹل 2,200/- روپئے نقد 1,700/- روپئے 500/- روپئے دو قسطوں میں ملیں گے۔ 500/- روپئے ملنے میں دیر ہوگئی، زید کو ضرورت پڑی پیسوں کی تو زید نے 500/- روپئے کا بل بیچ دیا، حارث نے زید کے غلہ کا بل 400/- روپئے میں خریدا، حارث کا کم قیمت میں بل خریدنا یعنی 500/- روپئے کا بل 400/- روپئے میں خریدنا شریعت کی نظر میں کیسا ہے؟
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللہ التوفیق: زید کا غلہ فروخت کرنے کے بعد پانچ سو روپئے ملنے میں تاخیر ہونے کی بنا پر پانچ سو روپئے کا بل چار سو روپئے میں فروخت کرنا، میعادی چیک کی بیع اور بیع الجامکیہ کے مرادف ہوکر ناجائز وحرام ہوگا۔ اور بیع الجامکیہ کی صورت یہ ہے کہ حکومت کا ملازم یا صاحب وظیفہ جس کو منجانب حکومت مقررہ میعاد پر تنخواہ یا وظیفہ ملتا ہے، وہ کبھی وقت مقررہ سے پہلے ضرورت کی وجہ سے کم پیسے میں اپنی تنخواہ یا وظیفہ فروخت کردیتا ہے اور خریدار وقت مقررہ پر صاحب وظیفہ کے نام سے پورا وظیفہ وصول کرلیتا ہے، تو حضرات فقہاء نے اس طرح کی خرید وفروخت کو ناجائز اور حرام کہا ہے؛ اس لئے زید کے لئے قبل از وقت کم قیمت میں اپنا بل فروخت کرنا ربا اور سود کی وجہ سے جائز نہ ہوگا۔ (مستفاد: ایضاح النوادر ۱/ ۳۶)
إن بیع الصک والبراء ۃ والجامکیۃ إنما لا یجوز۔ (إعلاء السنن، کراچی ۱۴/ ۲۴۴، کتاب البیوع، بیع الصک والبراء ۃ والجامکیۃ والنوط، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱۴/ ۲۸۷)
وأفتی المصنف ببطلان بیع الجامکیۃ۔ (درمختارمع الشامي، البیوع، مطلب في بیع الجامکیۃ، زکریا ۷/ ۳۳، کراچی ۴/ ۵۱۷)
فقط وﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
پیمنٹ کی دو سو نوے کی پرچی ۲۸۰؍ میں فروخت کرنا
سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں : سرکار نے بینکوں کے لئے ایک کپڑا تیار کرنے کے لئے دیا ہے، جس کو جنتا جوڑا کہتے ہیں ، اس کو سرکار اپنے طور پر سینٹر قائم کرکے خریدتی ہے، اس کا سرکاری بھاؤ 34/5/- روپے ہے؛ لیکن اس کا پیمنٹ ۲۲-۳۰؍ دن یا اس سے کم وزیادہ وقت میں آتا ہے۔ زید نے ۲۰؍ جوڑے میٹر پر جمع کئے، جس کی قیمت ۵۹۵؍ روپئے ہیں ، سینٹر کے سوت کے چار میٹر ملے، جس کی قیمت ۴۰۰؍ روپئے ہوئی، زید کو وہاں سے پرچی ملی، جس میں ۲۹۵؍ روپئے ملنے باقی ہیں ، زید اپنی اس پرچی کو خالو کو ۲۸۰؍ میں اس لئے فروخت کردیتا ہے کہ پیمنٹ کئی ہفتہ بعد آئے گا، خالد اس لئے خرید لیتا ہے کہ اس کو دس روپئے کا نفع ہوجائے گا، کیا اس طرح کی خرید وفروخت شرعاً جائز ہے یانہیں ؟
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللہ التوفیق: اس طرح معاملہ شرعاً جائز نہیں ہے، ہاں البتہ گناہ سے بچنے کے لئے حیلہ کیا جاسکتا ہے کہ زید خالد سے ۲۸۰؍ روپئے بنام قرض لے لے اور خالد سے کہہ دے کہ فلاں تاریخ کو اس پرچی کے ذریعہ فلاں سینٹر سے ۲۹۰؍ روپئے وصول کرکے لے آنا، تو اس میں سے ۲۸۰؍ روپئے قرض کا ہوگا اور دس روپئے اس کام کی مزدوری میں تم کو ملے گا۔ (مستفاد: امداد الفتاوی ۳/ ۱۶۹)(فتاوی قاسمیہ۴۱۰/۱۹ ۴۱۱)
واللہ اعلم بالصواب
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
سوال # 37243
مختلف شہروں سے گاڑیوں میں چاول آتا ہے، اس کا کرایہ ادا کرنا مالک کی ذمہ داری ہوتی ہے ، مگر جن گوداموں میں یہ گاڑیاں خالی ہوتی ہیں مالک وہاں کرایہ ادا نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے دفتروں میں کرایہ ادا کرتے ہیں اور گاڑی کے ڈرائیور کو وہیں کرایہ چاہئے ہوتا ہے ، کیوں کہ وہ وو اپنی اتنی بڑی گاڑی دفتر والے علاقے میں نہیں لے جا سکتے ، اور اپنی گاڑی کہیں چھوڑ کر بھی نہیں آ سکتے۔ لہذا میں اور مجھ جیسے اور بھی بروکر یعنی دلال ان گاڑی والوں کو وہیں کرایہ ادا کر کے پرچی خرید لیتے ہیں، اس کرائے میں سے اپنا کمیشن کاٹ لیتے ہیں اور مالک سے دفتر میں جا کر نقد کرایہ وصول کر لیتے ہیں۔ مگر کچھ مالک ہمیں اپنی مرضی کے مطابق ۱۵ یا ۲۰ دن بعد کرایہ ادا کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کے ۱۵ دن تک ہم اپنے پیسے پھنسائے رکھیں۔ اس لئے اسی مارکیٹ میں کچھ اور بروکر ہوتے ہیں جو کرایہ کا ۱.۸ فیصد کاٹ کر ہمیں نقد کرایہ ادا کر دیتے ہیں اور مالک سے مقرّر کردہ وقت کے بعد چیک لے لیتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا یہ کام سود سے پاک ہے؟ دونوں صورتوں کے بارے میں بتا دیں نقد اور ادھار کا یہ کام سود سے پاک ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو اس کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
Published on: Feb 11, 2012 جواب # 37243
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(د): 518=57-3/1433
پرچی خریدنے اور کمیشن لینے کی دونوں صورتیں سود میں داخل ہیں، اس لیے ناجائز ہے، ناجائز معاملہ کو فروغ دینا بھی غلط ہے، جب ایک ٹرک مال کا سودا ہوا ریٹ طے ہوا مال پہنچانے کی بات طے ہوئی، لین دین کا طریقہ طے ہوا تو بیچارے ٹرک والے کے بھاڑے ہی کے سلسلے میں التوا کا طریقہ کیوں اختیار کیا جاتا ہے، صاف صاف طے کرلیا جائے کہ جہاں مال اتارا جائے گا وہیں بھاڑا لیں گے، یہ تو بیچارے ٹرک والے کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا ہوا اور ناجائز فائدہ بھی سود کی شکل پر مشتمل ہے، لہٰذا دہری خرابی ہوگئی، حدیث میں ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے ادا کردینا چاہیے، یہی صحیح طریقہ ہے جس کی ہمیں حدیث شریف میں تعلیم دی گئی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے