تعویذ پر اجرت لینا

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

تعویذ کا پیشہ اختیار کرنا اور اس پر اُجرت لینا؟
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: الف:- زید ذریعہ معاش کے لئے تعویذات کاپیشہ کرتا ہے یہ کمائی حلال ہوگی؟
ب:- مسجد کے امام صاحب متعین روپئے پیسے کے عوض میں لوگوں کو تعویذات دیتے ہیں، مذکورہ بالا صورتوں کی کمائی از روئے شرع جائز ہے یا نہیں؟

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر تعویذ میں کوئی خلافِ شرع بات نہیں لکھتا، تو اس کی اُجرت فی نفسہٖ جائز ہے؛ لیکن مقتدیٰ اور بالخصوص ائمہ کے لئے اس کاروبار کو اپنانا مناسب نہیں ہے، اس میں بہت سے مفاسد کا اندیشہ ہے۔ (مستفاد: امداد الفتاویٰ ۳؍۴۰۳)(کتاب النوازل۶۶۸/۱۲)
لأن المتقدمین المانعین للاستیجار مطلقاً جوز والرقیۃ بالأجرۃ ولو بالقراٰن کما ذکرہ الطحاوي؛ لأنہ لیس عبادۃ محضۃ؛ بل من التداویٰ۔ (شامي ۶؍۵۷ کراچی) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
============================
تعویذ پر اُجرت لینا؟
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اگر کوئی شخص تعویذ کا کام جانتا ہے اور مریضوں سے یوں کہتا ہے کہ فائدہ ہو یا نہ ہو، میں اتنے پیسے لوںگا، اور اکثر لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے، تو کیا یہ جائز ہے؟

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: تعویذ پر اجرت لینے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ اس کا کوئی مضمون خلافِ شرع نہ ہو؛ تاہم افضل یہ ہے کہ نہ لی جائے۔ (امداد الفتاویٰ ۳؍۴۰۳)(کتاب النوازل ۴۴۸/۱۲)
عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ أن رہطًا من أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم انطلقوا في سفرۃ سافروہا، فنزلوا بحي من أحیاء العرب، فقال بعضہم: إن سیدنا لُدغ، فہل عند أحدکم شيء ینفع صاحبنا؟ فقال رجل من القوم: نعم، واللّٰہ! إني لأرقی، ولکن استضفناکم فأبیتم أن تضیفونا، ما أنا براق حتی تجعلوا لي جعلاً، فجعلوا لہ قطیعًا من الشاء، فأتاہ فقرأ علیہ أم الکتاب ویتفل حتی برئ کأنما أنشط من عقال۔ قال: فأوفاہم جعلہم الذي صالحوہم۔ فقال: اقتسموا، فقال الذي رقی: لا تفعلوا حتی نأتي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فنستأمرہ، فغدوا علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فذکروا لہ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فذکروا لہ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أین علمتم أنہا رُقیۃ، أحسنتم اقتسموا واضربوا لي معکم بسہم۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الطب / باب کیف الرقی ۲؍۵۴۴ رقم: ۳۹۰۰ دار الفکر بیروت، صحیح البخاري، کتاب الطب / باب الرقي بفاتحۃ الکتاب ۲؍۸۵۴ رقم: ۲۲۷۶ دار الفکر بیروت، صحیح مسلم، کتاب السلام / باب جواز أخذ الأجرۃ الخ رقم: ۲۲۰۱ بیت الأفکار الدولیۃ، سنن الترمذي رقم: ۲۰۶۴)
ویلتحق بہ ما کان بالذکر والدعاء المأثور، وکذا غیر المأثور مما لا یخالف ما في المأثور۔ وأما الرقي بما سوی ذٰلک، فلیس في الحدیث ما یثبتہ ولا ما ینفیہ، وسیأتي حکم ذٰلک في کتاب الطب۔ (فتح الباري شرح صحیح البخاري / باب ما یعطي في الرقیۃ علی أحیاء العرب بفاتحۃ الکتاب ۴؍۴۵۷ دار المعرفۃ لبان)
قال المحدث السہارنفوري: وفي الحدیث أعظم دلیل علی أن یجوز الأجرۃ علی الرقي والطب۔ (بذل المجہود ۱۶؍۲۲۸ بیروت، ۵؍۴۱۱ سہارنفور، رسائل بن عابدین شامي ۱؍۱۵۵ لاہور)
عن عوف بن مالک الأشجعي رضي اللّٰہ عنہ قال: کنا نرقي في الجاہلیۃ، فقلنا: یا رسول اللّٰہ! کیف تری في ذٰلک؟ فقال: اعرضوا عليّ رُقاکم، لا بأس بالرقي ما لم یکن فیہ شرک۔ (صحیح مسلم، مشکاۃ المصابیح / کتاب الطب والرقیٰ، الفصل الأول ۳۸۸)
ولا بأس بالمعاذات إذا کتب فیہا القرآن أو أسماء اللّٰہ تعالیٰ، وإنما تکرہ العوذۃ إذا کانت بغیر لسان العرب، ولا یدري ما ہو؟ ولعلہ یدخلہ سحرٌ أو کفر أو غیر ذٰلک۔ وأما ما کان من القرآن أو شيء من الدعوات، فلا بأس بہ۔ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحۃ / فصل في اللبس ۶؍۳۶۳ کراچی)
وأما حدیث رہط الذین رقوا لدیغًا بالفاتحۃ، وأخذوا جعلاً، فسألوا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فقال: أحق ما أخذتم علیہ أجرًا کتاب اللّٰہ۔ فمعناہ: إذا رقیتم بہ، کما نقلہ العیني في شرح البخاري عن بعض أصحابنا، وقال: إن الرقیۃ بالقرآن لیست بقربۃ: أي لأن المقصود بہا الاستشفاء دون الثواب۔ (تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ، کتاب الإجارۃ / مطلب في حکم الاستیجار علی التلاوۃ ۲؍۱۳۸ المکتبۃ المیمنیۃ مصر)
استیجارہ لیکتب لہ تعویذ السحر یصح۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۴؍۴۵۰) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
============================
تعویذ دے کر طے کرکے اُجرت لینا؟
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: تعویذ دے کر طے کرکے پیسہ لینا جائز ہے یا نہیں؟ احادیث وفتاویٰ سے کیا ثبوت ملتا ہے؟

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: تعویذ دے کر اُجرت لینا جائز ہے؛ لیکن اس کوپیشہ بنالینا پسندیدہ نہیں ہے، اس میں بہت سے مفاسد پائے جاتے ہیں۔ (امداد الفتاویٰ ۳؍۴۰۳، فتاویٰ محمودیہ ۵؍۱۶۶، ۱۵؍۴۵-۳۷۰، کفایت المفتی ۷؍۳۱۷

)(کتاب النوازل۴۵۱/۱۲)
ذہب جمہور الفقہاء إلی جواز أخذ الأجرۃ علی التعاویذ والرقي، واستدل الطحاوي للجواز، وقال: یجوز أخذ الأجرۃ علی الرقي؛ لأنہ لیس علی الناس أن یرقٰی بعضہم بعضاً؛ لأن في ذٰلک تبلیغًا علی اللّٰہ تعالیٰ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ ۱۳؍۳۴، الفتاویٰ الہندیۃ، الإجارۃ / الباب الخامس عشر، الفصل الرابع ۴؍۴۵۰ زکریا، عمدۃ القاري ۲۱؍۲۶۴) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
============================
غریب آدمی سے وسعت سے زیادہ تعویذ کی رقم وصول کرنا
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کسی امیر یا غیر شخص سے جھاڑ پھونک یاتعویذ کے عوض زبردستی اتنی رقم وصول کرنا جو رقم اس معذور کے لئے ادا کرنا باعث مشقت ہو، یا کوئی رقم جھاڑ پھونک یا تعویذ کے لئے متعین کردیا ہو، کہ اگر جھاڑ پھونک یا تعویذ اس وجہ سے ہے، تو اتنی رقم، اور اگر اس وجہ سے ہے تو اتنی رقم ادا کرنی ضروری ہے، اور یہ رقم زبردستی وصول کرنے کے بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا فرمان ہے، باحوالہ جواب مرحمت فرماکر صراط مستقیم پر چلنے میں رہنمائی فرمائیں۔

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: معتبر کلمات سے جھاڑ پھونک اور تعویذ بھی علاج ہی کی ایک قسم ہے؛ لہٰذا اگر کوئی شخص اس عمل پر متعین اُجرت لیتا ہے، تو شرعاً اُس میں کوئی حرج نہیں ہے، اگر کسی شخص کو وہ اُجرت زیادہ معلوم ہوتی ہو تو وہ اس سے علاج نہ کرائے، اس میں زبردستی کی کیا بات ہے؛ تاہم مقتدیٰ حضرات کے لئے مناسب اور بہتر یہی ہے کہ وہ تعویذ کو آمدنی کا پیشہ نہ بنائیں؛ کیوںکہ اس میں تجربہ سے بہت سے مفاسد پائے گئے ہیں۔(کتاب النوازل۴۵۱/۱۲)
وأما الرقي بآیات القرآن وبالأذکار المعروفۃ فلا نہي فیہ۔ (شرح النووي ۲؍۲۱۹)
لأن المتقدمین المانعین الاستئجار مطلقًا جوّزوا الرقیۃ بالأجرۃ، ولو بالقرآن۔ (شامي / باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار ۹؍۷۸ زکریا)
وفي الحدیث: أعظم دلیل علی أن یجوّزوا الأجرۃ علی الرقي والطب کما قالہ الشافعي ومالک وأبوحنیفۃ وأحمد رحمہم اللّٰہ۔ (بذل المجہود ۱۱؍۶۲۸ دار البشائر)
فقط وﷲ تعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_ #منتظم_المسائل_الشرعیہ_الحنفیہ

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے