مصنوعی دانت کا حکم

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

مسئلہ نمبر:5

عورت کو حیض کی حالت میں مصنوعی دانت لگانا شرعا کیسا ہےمدلل جواب مطلوب ہے؟
_———————————————_

آپ کے مسئلہ کا تعلق نیچے کی عبارت سے ہیں۔

حالت حائض میں جو دانت لگوایا وہ دانت حائض کے بند ہونے کے بعد پاک یونے کیلئے (وضو و غسل)نکالی جائیگی یا نہیں. اور اصل مسئلہ بھی یہی ہے۔

تو اس کی دو صورتیں ہیں۔

*قسمِ اول:*
یہ دانت اس طرح فٹ ہوتے ہیں کہ بلا مشقتِ شدیدہ ان کو نکالنا ممکن نہیں ہوتا، ان دانتوں کا حکمِ حقیقی دانتوں کا حکم ہے یعنی وضوء میں ان تک پانی پہنچانا مستحب اور غسل میں واجب ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک وضوء اور غسل دونوں میں ان کو نکالنے کی ضرورت نہیں ہے۔

*قسمِ ثانی:*
وہ دانت جو بوقتِ ضرورت ہی استعمال ہوتے ہیں اور ان کو نکالنے میں حرج و مشقت نہیں ہوتی، ان کا حکمِ شیٔ زائد کی طرح ہے،یعنی وضوء میں ان کو نکال کر جسمِ حقیقی تک پانی پہنچانا مستحب اور غسل میں واجب ہے ،اگر کوئی شخص غسل میں ان کو نکال کر جسمِ حقیقی تک پانی نہ پہنچائے تو اس کا غسل صحیح نہیں ہوگا۔

———————————————————-
ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘: {وما جعل علیکم في الدین من حرج}۔ ( سورۃ الحج :۷۸)

ما في ’’الموسوعۃ الفقہیۃ‘‘: قال الحنفیۃ : یجب غسل کل ما یمکن بلا حرج ولا یجب غسل ما فیہ حرج کعین وثقب انضم بعد نزع القرط وصار بحال إن أمر الماء علیہ یدخلہ وإن غفل لا ۔ فلا بد من إمرارہ ولا یتکلف لغیر الإمرار من إدخال عود ونحوہ فإن الحرج مدفوع۔
(۳۱/۲۰۸ ، غسل)

وما في ’’البحر الرائق‘‘: الغسل ھو تطھیر جمیع البدن وإسم البدن یقع علی الظاھر والباطن إلا أن ما یتعذر إیصال الماء إلیہ خارج عن قضیۃ النص وکذا ما یتعسرلأن المتعسر منفي کالمتعذر کداخل العینین فإن في غسلھما حرج۔ (۱/ ۸۷، کتاب الطھارۃ ، فصل في الغسل)

ما في ’’ الشامیۃ ‘‘: إن الغسل في الاصطلاح غسل البدن وإسم البدن یقع علی الظاھر والباطن إلا ما یتعذر إیصال الماء أو یتعسر کما في البحر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رکن الغسل وھو إسالۃ الماء علی جمیع ما یمکن إسالتہ علیہ من البدن من غیر حرج۔
(۱/۲۸۴ ، مطلب في أبحاث الغسل)

وما في ’’الشامیۃ ‘‘: وإن انضم الثقب بعد نزع القرط وصار بحیث لا یدخل فیہ من غیر تکلف أمرہ علیہ من غیر تکلف ولا یتکلف بادخال شيء فیہ سوی الماء من خشب ونحوہ لإیصال الماء۔ 
(۱/۲۸۳ ، مطلب في أبحاث الغسل ، السعایۃ في کشف ما في شرح الوقایۃ :۱/۲۸۳)

ما في ’’السعایۃ‘‘: قال في الخلاصۃ:
إن کان کثیراً یستبین للناظر کما في سقوط السن یجب إیصال الماء إلیہ وإن کان قلیلاً فھو عفو وإن کان في طواحنہ ثقب فیھا شيء یجب إیصال الماء إلیہ۔ وقال بعضھم : إن کان صلباً ممضوغاً مضغاً متأکداً بحیث تداخلت أجزاء ہ وصارت لہ لزوجۃ وعلاکۃ کالعجین ۔
(۲/۲۸۰، حلبي کبیر :ص۴۹، منیۃ المصلي مع حاشیۃ :ص۱۳، فتح القدیر :۱/۶۰، فصل في الغسل) (فتاوی عثمانی :۱/۳۱۴ ، فتاوی حقانیہ :۲/ ۲۲ ۵) 

ما في ’’نوازل فقھیۃ معاصرۃ‘‘: الأسنان الصناعیۃ التي تستعمل عامۃ ھي تکون علی نوعین : أحدھا تستقر کلیاً بحیث لا یمکن نزعھا إلا بمشقۃ شدیدۃ ، والثاني ما یستعمل عند الحاجۃ فقط۔
ففي الصورۃ الأولی تعتبر الأسنان الصناعیۃ کالأسنان الحقیقۃ ویکون حکمھا کحکمھا، فإیصال الماء إلی الأسنان یستحب في الوضوء ویجب في الغسل، ولا حاجۃ إلی نزعھا علی قول أبي حنیفۃ في الغسل والوضوء جمیعاً۔

وفي الصورۃ الثانیۃ: إذا أمکن انتزاعھا بدون مشقۃ وحرج فھي تنزل بمنزلۃ الشيء الزائد فلا یصح الاغتسال إلا بإیصال الماء في الجسد الحقیقي بعد انتزاعہا۔ (۱/۲۳)

واللہ اعلم۔

المسـائــل المـھـــة٢

محمد امیر الدین حنفی دیوبندی

جمع شدہ فتاوی مسلک دارالعلوم دیوبند
https://t.me/jamashuda
+917086592261

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے