ماسک پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

مسئلہ نمبر 45
السلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ
حضرات علمائے کرام و مفتیان شرع دین متین۔
آج کل کرونا وائرس کی وجہ سے میڈیکل کی طرف سے جو احتیاطی تدابیر اختیار کیا گیا ہے اس میں ایک تدبیر ماسک کا استعمال کرنا ہے۔ جو استعمال کرنا لازمی ہے۔
کیا دوران نماز ماسک جو کہ ناک کے اوپر تک رہتا ہے حالت سجود میں ناک کو سجدے میں رکھنے میں بیچ میں ماسک حایل ہونے میں سجدہ یا نماز میں کوئی کراہت وغیرہ ہوگا؟براہ مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
المستفتی:ولی الرحمن بن شفیق الرحمن غفر لھما
ہوجائی آسام،الھند)۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب وبہ التوفیق
فقہاء نے لکھا ہے کہ بلا عذر ناک ومنہ کسی کپڑے وغیرہ سے چھپا کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے،ہاں اگر کوئی عذر ہو تو کوئی حرج نہیں ہے،نیز یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص عذر کے وقت صرف پیشانی پر سجدہ کرے تب بھی بلا کراہت نماز درست ہو جاتی ہے،ہاں بلا عذر صرف پیشانی پر سجدہ کرنا مکروہ تحریمی ہے،لہذا صورت مسئولہ میں کرونا وائرس کی وجہ سے ماسک پہن کر نماز پڑھنے سے بلا کراہت نماز درست ہو جائے گی،اور ماسک کی وجہ سے سجدہ میں کوئی فرق نہیں پڑیگا،عام حالت میں جیسے سجدہ میں ناک کو دبا کر رکھنا چاہیے ماسک پہننے کی حالت میں بھی ناک کو دبا کر رکھیں۔

دارالافتاء دارالعلوم دیوبند میں ہے کہ
عام حالات میں ناک اور منہ کسی کپڑے وغیرہ میں لپیٹ کر نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے ؛البتہ اگر کسی عذر کی وجہ سے نماز میں ناک یا منہ ڈھانپا جائے تو نماز بلا کراہت درست ہو جاتی ہے ؛ لہٰذا جہاں خطرہ کا اندیشہ ہو وہاں وائرس سے بچاؤ کی تدبیر کے طور پر احتیاطاً اگر ماسک پہن کر نماز پڑھی جائے تو نماز بلاکراہت درست ہوجائے گی۔(فتوی نمبر :177822)۔

دارالافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ 
علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی میں ہے کہ
موجودہ وبائی صورتِ حال میں ماسک  لگاکر نماز ادا کرنے کی اجازت ہوگی، تاہم عام حالات میں نماز کے دوران ماسک لگانا مکروہ ہے۔(فتوی نمبر :144107200976)۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں
ذهب جمهور الفقهاء إلى كراهة النقاب في الصلاة، وكرهه المالكية مطلقا في الصلاة وفي غيرها
قال الحنفية: ويكره التلثم وهو تغطية الأنف والفم في الصلاة لأنه يشبه فعل المجوس حال عبادتهم النيران، وهو عند الحنفية مكروه تحريما(الموسوعة الفقهیة الكويتية،٢٦١/٤١)۔
يكره اشتمال الصماء والاعتجار والتلثم والتنخم وكل عمل قليل بلا عذر”.الدر المختار(قوله: والتلثم) وهو تغطية الأنف والفم في الصلاة؛ لأنه يشبه فعل المجوس حال عبادتهم النيران، زيلعي. ونقل ط عن أبي السعود: أنها تحريميۃ(شامی ۶۵۲/۱،سعید کراچی،۴۲۳/۲تا۴۲۴،دارالکتاب العلمیۃ، باب ما یفسد الصلوۃ وما یکرہ فیہا)۔
ویکره الاقتصار علی الجبهة فی السجود بلاعذر تحریماً۔ (مراقی الفلاح ۱۹۶، حاشیۃ الطحطاوي ۳۵۶)۔
وإن وضع جبہتہ دون أنفہ جاز سجودہ بالإجماع۔ (حلبي کبیر ۲۸۲، بدائع الصنائع ۲؍۲۸۳)(نماز کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا۱۵۷/۴) فتاویٰ محمودیہ ۶۶۴/۶ باب ما یفسد الصلوۃ وما یکرہ فیہا،مکتبہ فاروقیہ کراچی) فتاویٰ حقانیہ۲۰۱/۳)۔
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام الھند
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
۔۵شوال المکرم ۱۴۴۱؁ھ م ۲۹ مئی ۲۰۲۰؁ء بروز جمعہ

الجواب صحیح
مفتی محمد سرفراز رحمانی غفرلہ 
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ
مفتی محمد شہاب الدین القاسمی غفرلہ
مفتی محمد عطاء الرحمن غفرلہ بڑودوی
مفتی محمد مرغوب الرحمن القاسمی غفرلہ
منتظم :مجلس شوریٰ المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الھند
Print Friendly, PDF & Email

1 Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے