نفل نماز ایک ساتھ کتنی رکعت پڑھنا افضل ہے۔؟آیا دو رکعت یا چار رکعت یا زیادہ۔

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
مسئلہ نمبر 25
دن اور رات میں نفل نماز دو دو کرکے پڑھیں یا چار ایک سلام سے ۔مفصل ومدلل جواب مطلوب ہے۔(المستفتی:محمد شاہ فہد میرٹھی،یو پی،الھند)
:الجواب وبہ التوفیق
عام نفل نماز جن کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صراحت منقول نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کتنی رکعت ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے؟ان میں ایک سلام سے دو پڑھنا افضل ہے یا چار؟اس سلسلے میں قدرے اختلاف ہے۔ امام صاحب کے نزدیک دن ہو یا رات چار چار رکعت ایک ساتھ پڑھنا افضل ہے،اور امام ابو یوسف ومحمد کے نزدیک دن میں چار اوررات میں دو رکعت کی نیت افضل ہے،علامہ حصکفی رح نے اسی قول پر فتاویٰ دیا ہے۔بعض فقہاء نے اسی کو اختیار کیا ہے۔دن میں چار سے زائد ایک سلام سے پڑھنا مکروہ ہے،اور رات میں آٹھ تک کی اجازت ہے۔قول فیصل یہ ہے کہ دن میں ایک سلام سے چار رکعت پڑھنا افضل ہے اور رات میں دو دو کرکے افضل ہے۔واضح رہے کہ دن اور رات میں ہر طرح اختیار ہے چاہے ایک ساتھ چار کی نیت باندھے یا دو کی ،یہ مسئلہ افضلیت وعدم افضلیت کا ہے،جواز وعدم جواز کا نہیں۔(فتاوی محمودیہ ،فاروقیہ،۲۱۸/۷) قاموس الفقہ،۲۸۲/۴تا۲۸۳) (موسوعہ فقہیہ اردو،۱۸۸/۲۷تا۱۸۹)

عبارت ملاحظہ فرمائیں
عن ابی سلمۃ بن عبد الرحمن انہ سأل عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کیف کانت صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان؟قالت:ماکان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ!احدی عشر رکعۃ یصلی اربعا فلا تسأل عن حسنھن وطولھن،ثم یصلی اربعا فلا تسأل عن حسنھن وطولھن،ثم یصلی ثلاثا،فقالت عائشۃ رضی اللہ عنہا:قالت:یا رسول اللہ!اتنام قبل ان توتر؟فقال یا عائشۃ:ان عینی تنامان والا ینام قلبی۔(الصحیح للامام مسلم، باب صلوۃ اللیل وعدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وسلم،۲۵۴/۱,قدیمی)
ان عبداللہ بن عمر قال:ان رجلا قال:یا رسول اللہ؟کیف صلوۃ اللیل؟قال:مثنی مثنی،فاذا خفت الصحبح فاوتر بواحدۃ،(الصحیح البخاری،کتاب التہجد،باب کیف صلوۃ اللیل وکیف کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم،۱۵۳/۱,قدیمی)
(وتکرہ الزیادۃ علی اربع فی نفل النہار،وعلی ثمان لیلا بتسلیمۃ)،لانہ لم یرد،(والافضل فیھما الارباع بتسلیمۃ)،وقالا: فی اللیل المثنی افضل،قیل: وبہ یفتی٬٬(الدر المختار،باب الوتر والنوافل,۱۵/۲تا۱۶،سعید)وکذا فی البحر الرائق،کتاب الصلٰوۃ ،باب الوتر والنوافل،۹۳/۲, رشیدیہ)
أَفْضَل التَّطَوُّعِ فِي النَّهَارِ أَرْبَعٌ أَرْبَعٌ فِي قَوْل الْحَنَفِيَّةِ، فَقَدْ صَلَّى ابْنُ عُمَرَ صَلاَةَ التَّطَوُّعِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ بِالنَّهَارِ؛ لِمَا رُوِيَ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَال: أَرْبَعٌ قَبْل الظُّهْرِ لَيْسَ فِيهِنَّ تَسْلِيمٌ، تُفْتَحُ لَهُنَّ أَبْوَابُ السَّمَاءِ۔ وَلأَِنَّ مَفْهُومَ قَوْل النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَلاَةُ اللَّيْل مَثْنَى مَثْنَى أَنَّ صَلاَةَ النَّهَارِ رُبَاعِيَّةٌ جَوَازًا لاَ تَفْضِيلاً۔
وَقَدْ قَال أَبُو يُوسُفَ وَمُحَمَّدٌ فِي صَلاَةِ اللَّيْل: إِنَّهَا مَثْنَى. . مَثْنَى.
وَصَلاَةُ اللَّيْل – عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ – أَرْبَعٌ، احْتِجَاجًا بِمَا وَرَدَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا سُئِلَتْ عَنْ قِيَامِ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ فَقَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ، وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسْأَل عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلاَ تسْأَل عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا وَكَلِمَةُ: (كَانَ) عِبَارَةٌ عَنِ الْعَادَةِ وَالْمُوَاظَبَةِ، وَمَا كَانَ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوَاظِبُ إِلاَّ عَلَى أَفْضَل الأَْعْمَال، وَأَحَبَّهَا إِلَى اللَّهِ۔(مستفاد:الموسوعة الفقهیة الکویتیة،۳۰۶/۲۷تا۳۰۸)
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام (الھند)
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
4رمضان المبارک 1441ھ 28اپریل 2020ء
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے