مرد اور عورت کے ستر عورت کی تفصیلی جواب ملاحظہ فرمائیں

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
مسٹلہ نمبر:12
حضرت کتابوں میں آتا ہے کہ کہ اگر نماز میں چوتھائی عضو کھلا رہا تو نماز نہیں ہوتی   
حضرت اس میں پورا پیر پورا ہاتھ ایک عضو ہے یا کچھ اور برائے مہربانی عضووں کی تفصیل ہو تو ارسال کریں کہ یہ عضو الگ ہے یہ عضو الگ ہے.؟(المستفتی:شاہ فہد,اڑیشا)
الجواب وباللہ التوفیق:
عام حالات میں جس طرح ستر عورت ضروری ہے اسی طرح دوران نماز بھی ستر عورت کا چھپانا ضروری ہے٬مرد اور عورت کے لئے نماز میں جن اعضاء مستورہ کو چھپانا ضروری ہے، اُن میں سے اگر کسی ایک عضو (مثلاً ایک ران یا ایک کولہے) کا ایک چوتھائی حصہ بھی نماز کے کسی رکن میں تین مرتبہ (رکوع یا سجدہ والی) تسبیح پڑھنے کے بقدر خود بخود کھل جائے تو نماز فاسد ہو جائے گی٬اسی طرح کوئی شخص جان بوجھ کر ایک سکنڈ کے لئے بھی اعضاء مستورہ میں سے کوئی عضو چوتھائی کے بقدر کھول دے، تو فوراً نماز فاسد ہو جائے گی، تین تسبیح کے بقدر بھی مہلت نہ ہوگی۔اور اگر شروع نماز میں یہ کیفیت ہو تو نماز شروع ہی نہ ہوگی۔(موسوعہ فقہیہ اردو, اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا,۱۶۱/۲۲)و۱۵۹/۲۷)

اب ستر کی تفصیل حسب ذیل ہیں»
دوران نماز مردوں کیلئے آٹھ اعضاء کا چھپانا لازمی ہے:
(۱) پیشاب کا مقام اور اس کے اردگرد (۲) خصیتین اور اس کے ارد گرد (۳) پائخانہ کا مقام اور اس کے آس پاس (۴-۵) دونوں کولہے (۶-۷) دونوں رانیں گھٹنے سمیت (۸) ناف سے لے کر زیر ناف بالوں اور ان کے مقابل میں کوکھ پیٹ اور پیٹھ کا حصہ۔
دوران نماز آزاد عورت کیلئے چوبیس اعضاء کا چھپانا فرض ہے :
(۱) پیشاب کا مقام (۲) پاخانہ کا مقام (۳-۴) دونوں کولہے (۵-۶) دونوں رانیں گھٹنوں سمیت (۷) پیٹ (۸) پیٹھ (دونوں پہلؤوں سمیت) (۹-۱۰) دونوں پنڈلیاں (ٹخنوں سمیت) (۱۱-۱۲) دونوں ابھرے ہوئے پستان (۱۳-۱۴) دونوں کان (۱۵-۱۶) دونوں بازو (کہنیوں سمیت) (۱۷-۱۸) دونوں کلائیاں (گٹوں سمیت) (۱۹) سینہ (۲۰) سر (۲۱) سر کے بال (۲۲) گردن (۲۳-۲۴) دونوں مونڈھے (بعض حضرات نے عورت کی دونوں ہتھیلیوں کے ظاہری حصہ اور دونوں قدموں کے نچلے حصہ کو بھی اس کے ستر میں داخل کیا ہے، مگر اکثر فقہاء کے نزدیک یہ اعضاء ستر میں داخل نہیں)

عبارت ملاحظہ فرمائیں:
ویمنع کشف ربع عضو قدر أداء رکن بلا صنعہ۔ (درمختار) قال شارحہا: وذلک قدر ثلث تسبیحات الخ۔ قال ح: واعلم أن ہذا التفصیل في الإنکشاف الحادث في أثناء الصلوٰۃ، أما المقارن لابتدائہا فإنہ یمنع انعقادہا مطلقاً اتفاقاً بعد أن یکون المکشوف ربع العضو۔ (درمختار مع الشامي / باب شروط الصلاۃ، مطلب: في النظر إلی وجہ الأمرد ۲؍۷۴-۷۵ بیروت، شامي ۲؍۸۲ زکریا، نورالایضاح ۶۸، البحر الرائق ۱؍۴۷۱ زکریا، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۲۳ رقم: ۱۵۴۷ زکریا، ہدایۃ ۱؍۱۷۳ کراچی) 
قولہ بلا صنعہ فلو بہ فسدت في الحال عند ہم، قنیۃ۔ قال ح: أي وإن کان أقل من أداء رکن۔ (شامي ۲؍۷۵ بیروت، ۲؍۸۲ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۵۸)
أعضاء عورۃ الرجل ثمانیۃ: الأول: الذکر وماحولہ، الثانی: الأنثیان وماحولہ، الثالث: الدبر وماحولہ، الرابع والخامس: الإلیتان، السادس والسابع: الفخذان مع الرکبتین، الثامن: ما بین السرۃ الی العانۃ، مع ما یحاذي ذلک من الجنبین والظہر والبطن۔ (شامی ۲؍ ۸۲ زکریا)
وفی الأمۃ ثمانیۃ أیضا: الفخذان مع الرکبتین والإلیتان والقبل مع ماحولہ والدبر کذٰلک والبطن والظہر مع ما یلیہما من الجنبین وفی الحرۃ ہذہ الثمانیۃ ویزاد فیہا ستۃ عشر: الساقان مع الکعبین والثدیان المنکسران والأذنان والعضدان مع المرفقین والذراعان مع الرسغین والصدر والرأس والشعر والعنق وظہر الکفین وینبغی أن یزاد فیہ الکتفان۔ (شامی بیروت ۲؍۷۵، زکریا ۲؍۸۳)
وفی التنویر: وللحرۃ جمیع بدنہا خلا الوجہ والکفین والقدمین۔ (التنویر مع الشامی بیروت ۲؍۷۱، شامی زکریا ۲؍۷۸) فظہر الکف عورۃ علی المذہب۔ (درمختار) وفی الشامی: أی ظاہر الروایۃ وفي مختلفات قاضیخان وغیرہا أنہ لیس بعورۃ وأیدہ فی شرح المنیۃ بثلاثۃ أوجہ وقال فکان ہو الأصح وإن کان غیر ظاہرالروایۃ۔ (شامی بیروت ۲؍۷۱)
 وفی المنیۃ وإلا قدمیہا أیضا فأنہما لیسا بعورۃ ولکن فی القدمین اختلاف المشائخ، وذکر فی الحیط: أن الأصح أنہما لیسا بعورۃ۔ (غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلی ۲۱۰، البحر الرائق زکریا ۱؍۴۶۹، تاترخانیۃ قدیم ۱؍۴۱۴، زکریا ۲؍۲۳ رقم: ۱۵۴۶)(مستفاد:کتاب النوازل۴۱۴/۳تا۴۱۶)(کتاب المسائل۲۵۹/۲)(فتاویٰ محمودیہ, مکتبہ:دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی پاکستان,۲۵۶/۶تا۲۵۷)
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
۱۵,شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ۔ ۱۰,اپریل ۲۰۲۰ء۔بروز جمعہ
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے