مسافر کے پیچھے مقیم مسبوق کس طرح نماز پوری کرے

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
سوال:
امام مسافر ہے اور مقتدی مقیم اورنماز چار رکعت والی ہے، اگر مقتدی مذکور امام مذکور کے ساتھ اول رکعت میں شریک ہوا ہو تو مقتدی اپنی نماز کس طرح پوری کرے، اور جو دوسری رکعت میں شریک ہوا ہو تو کس طرح نماز پوری کرے، اورجو التحیات میںملا ہو تو کس طرح اپنی نماز پوری کرے.
الجواب حامداًومصلیاًومسلماً
از حضرت اقدس مولانا الحاج خلیل احمد صاحب صدرالمدرسین مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور،

اس مسئلہ کی تحقیق اس پر منحصر ہے کہ پہلے یہ محقق ہوجائے کہ مقتدی کس وقت مدرک ہے اور کس وقت مسبوق، یالاحق مسبوق اور لاحق، پس واضح ہو کہ جس مقیم مقتدی نے پہلی رکعت میں امام مسافر کا اقتداء کیا ہے وہ لاحق ہے، چنانچہ ۱؎
درمختار کے اس قول کی شرح میں ومقیم ائتم بمسافرصاحب لکھتے ہیں ۔’’قولہ ومقیم ای فھو لاحق بالنظر للاخیر تین‘‘
اور نیز اس پر لاحق کی تعریف بھی صادر آتی ہے چنانچہ ۲؎ درمختار میں ہے ’’ واللاحق من فاتتہ الرکعات کلھا او بعضھا لکن بعد اقتدائہ ‘‘ تو یہ مقتدی جواب لاحق ہے تو امام کی نماز سے جدا ہوکر اپنی دوسری رکعت بلا قرأت ادا کرے چنانچہ ۳؎ درمختار میں ہے ’’وحکمہ موتم فلایاتی بقرائۃ ولاسھوالخ‘‘ بنائً علیہ یہ مقتدی جس نے پہلی رکعت میںامام کا اقتداء کیا ہے باعتبار آخیر کی دو رکعتوں کے صرف لاحق اور پچھلی دونوں صورتوں میں جبکہ اس نے دوسری رکعت میں اقتداء کی ہے یاتشہد میں اقتدا ء کیا ہے، ان دونوں صورتوں میں وہ مقتدی صرف مسبوق ہے، دوسری صورت میں تین رکعتوں میں مسبوق ہے ۔ اور تیسری صورت میں چاروں رکعات کا مسبوق ہے، چنانچہ اس پر مسبوق کی تعریف صادق آتی ہے۔ ’’والمسبوق من سبقہ الامام بھا او ببعضھا‘‘ ۴؎در مختار۔ لہٰذا یہ مقتدی اقتداء سے علیحدہ ہوکر منفرد ہوجائیگا ۔ اس کو چاہیے کہ پہلی رکعت ثناء اور تعوذاور قرأت فاتحہ وسورۃ کے ساتھ ادا کرے، اور اگر مسبوق تمام رکعات کا ہے تو دو رکعات فاتحہ وسورۃ کے ساتھ پڑھے اور دو رکعت باقی ماندہ خواہ مسبوق بثلاث رکعات ہو یا باربع رکعات ہو تو صرف فاتحہ پڑھے، ۱؎

درمختار میں ہے والمسبوق من سبقہ الامام بھا او ببعضھا وھو منفرد حتی یثنی ویتعوذ ویقرأوان قراء مع الامام لعدم الاعتداد بھا لکرا ھتھا مفتاح السعادۃ فیما یفضیہ ای بعد متابعۃ لامامہاور عالمگیر یہ میں ہے وتجیء الطائفۃ الثانیۃ الی مکان صلوٰ تھم فمن کان مسافراً یصلی رکعتہ بقراء ۃ لانہ مسبوق من کان مقیماً یصلی ثلاث رکعات الاولٰی بفاتحۃ الکتاب وسورۃ لانہ کان مسبوقا فیھا وفی الاخرین بفاتحۃ الکتاب علی الروایات کلھا ۲؎
واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم
حررہ خلیل احمد عفی عنہ
الجواب صحیح ،عنایت الہٰی عفی عنہ مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور

الجواب الثانی:
از حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب مفتی دارالعلوم دیو بند

کتب فقہ کی تفصیل کے موافق پہلا جواب صحیح ہے اور دوسرے اور تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں مقتدی لاحق ومسبوق ہے، اور حکم ایسے مقتدی کا یہ ہے کہ پہلے وہ رکعت بلاقرأت ادا کرے جس میں لاحق ہے اور پیچھے وہ رکعت ادا کرے جس میں مسبوق ہے۔ پس دوسری صورت میں پہلے دو رکعت بلاقرأت ادا کرے پھر تیسری رکعت قرأت کے ساتھ ادا کرے، اور تیسری صورت میں پہلے دو رکعت بلاقرأت ادا کرے اور پھر دو رکعت مع قرأت کے ادا کرے،
و مقیم ائتم بمسافر قولہ ومقیمای فھو لاحق بالنظر للاخیرین وقد یکون مسبوقا ایضاکما اذا قاتہ اول صلوۃ امامہ المسافر۔ شامی۔ وحکمہ کموتم فلایاتی بقرائۃ الخ ویبدء لقضاء مافاتہ عکس المسبوق الخ قولہ ثمہ ماسبق بہ بھا الخ ای ثم صلی اللاحق ماسبق بہ بقرائۃ ان کان مسبوقاً ایضاً الخ شامی۔
پس دوسری اور تیسری صورت میں مقتدی مقیم کو محض مسبوق قرار دینا تصریحات فقہاء کے خلاف ہے اور جملہ رکعات کو بقراءت ادا کرنا بھی خلاف ہے قاعدہ مقررہ فقہاء کے، فقط 
وﷲ اعلم 
الجواب صحیح ، بندہ محمود عفا اللہ عنہ
کتبہ عزیز الرحمن مفتی مدرسہ دیو بندالجواب صواب، محمود انور عفااللہ عنہ
۸ جمادی الاولی ۳۳؁ھ الجواب صحیح، اشرف علی تھانوی ۱۲ جِ ۱ ۳۳؁ھ 

جواب الجواب:
از حضرت اقدس مولانا خلیل احمد صاحب مدرسہ مظاہر علوم
دوسرے اور تیسرے سوال کے جواب میں باہم اختلاف واقع ہوا ہے، ان دونوں صورتوں میں حضرت مفتی(عزیز الرحمان) صاحب اور دیگر ۔۔۔۔مقتدی کو ازروئے عبارت فقہ لاحق مسبوق قرار دیتے ہیں، اور بندئہ ناچیز نے دونوں صورتوں میں مقتدی کو صرف مسبوق قرار دیا ہے۔ میں نے جو کچھ عرض کیا ہے اس کی مؤید صریح عبارت فقہ کی ہے، ۱؎
عالمگیریہ کی صلوٰۃ الخوف میں ہے ومن کان مقیما یصلی ثلاث رکعات الاولیٰ بفاتحۃ الکتاب وسورۃ لانہ کان مسبوقا فیھا وفی الاخریین بفاتحۃ الکتاب علی الروایات کلھا۔
اس عبارت سے صاف واضح ہے کہ فقہاء رحمہم اللہ نے مسبوق قرار دیا ہے۔ اسی طرح ہر جگہ مسافر امام کے پیچھے مقتدی مقیم جب دوسری رکعت میں اقتداء کریگامسبوق قرار دیا جائیگا۔ علی ہٰذا جو مقتدی مقیم امام مسافر کے پیچھے تشہد میں اقتدا ء کریگا وہ بالاولیٰ مسبوق ہوگا، ان دونوں کو اس روایت کے موافق لاحق نہیں قرار ددیا جائیگا، مسافر امام کے پیچھےمقیم مقتدی لاحق صرف ایک صورت میں ہوتا ہے جبکہ اس نے پہلی رکعت میں اقتداء کی ہو، چنانچہ درمختار اور شامی کی عبارت جس کو حضرت مفتی صاحب نے بھی نقل فرمایا ہے واضح دلیل ہے۔ ’’قولہ ومقیم ائتم بمسافرای فھولاحق بالنظر للاخرین‘‘ ۱؎ اس عبارت سے صاف واضح ہے کہ مقیم جب کہ مسافر کی اقتداء کرتا ہے وہ اخیر کی دو رکعتوں میں لاحق ہوتا ہے، یہ اس صورت میں حکم ہے جبکہ س نے اقتداء پہلی رکعت میں کی ہو، اور مذکورہ دونوں صورتوں میں یہ حکم نہیں ہے چنانچہ شامی کی عبارت فھو لاحق بالنظر للاخریین اس پر واضح دلیل ہے، کیونکہ حقیقتاً لاحق بالنظر للاخریین اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب کہ پہلی رکعت میں اقتداء کی ہو، اور جب کہ دوسری رکعت یا تشہد میں اقتداء کی ہو تو بالنظر للاخریین حقیقتاً لاحق نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر ان دونوں صورتوں میں لاحق للاخریین قرار دیا جائے تو یہ دونوں رکعتیں باعتبار لاحق ہونے کے مقدم اداکی جائیں گی، اور جس رکعت میں مسبوق ہے وہ حسب قاعدہ بعد میں ادا ہوگی تو حقیقتاًاخریین کا تحقق نہ ہوگا، فہو ظاہر البتہ شامی ۲؎ کی یہ عبارت وقد یکون مسبوقا ایضا موجب خلجان ہوسکتی ہے، مگر بعد غور واضح ہوجاتا ہے کہ لفظ یکون کی ضمیر مقیم کی طرف راجع ہے نہ لاحق کی طرف، اورلفظ ایضا سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ مصلی لاحق ومسبوق ایک حالت میں ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں
فھو ای المقیم کما انہ لاحق بالنظر للاخیر تین فی وقت مثلا اذا لم یفتہ اول صلوٰۃ امامہ المسافر قد یکون مسبوقاً ایضاً فی وقت کما اذا فاتہ اول صلوٰۃ امامہ المسافر۔
حاصل یہ کہ امام مسافر کامقتدی مقیم اگر اول صلوٰۃ میں مقتدی ہوا ہے تو اس وقت وہ مقیم صرف لاحق بالنظر للاخیرتین ہے اور اگر بعد فوت ہونے اول صلوٰۃ کے مقتدی ہوا ہے تو اس صورت میں صرف مسبوق ہوا اس عبارت کے موافق بھی لاحق نہ ہوگا، اور اس صورت میں فقہاء کی تمام عبارت موافق ہوجائیں گی، اور محتمل محکم کی طرف رد ہوجائیگا فقط، 
وﷲ اعلم بالصواب۔
املاہ خلیل احمد عفی عنہ
ماخذ فتاوی مظاہرالعلوم المعروف فتاوی خلیلیہ ص۵۸تا۶۱)
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے