کیا ہمارے زمانے میں عاشورہ کا ایک روزہ رکھنا مکروہ ہے؟

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
سوال:
عاشورہ کے روزہ کے متعلق رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اس میں تم یہودکی مخالفت کرو یعنی یہود ایکروزہ رکھتے ہیں لہٰذا تم دوروزے رکھو یعنی نو اور دس تاریخ یادس اور گیارہ تاریخ کاروزہ رکھو ، توسوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تنہاعاشورہ کا روزہ رکھے ، تو اس میں کوئی کراہیت ہے یانہیں ؟ 
’’ خطبۂ موعظت ‘‘ میں عاشورہ کے فضائل سے قبل محرم کاجوخطبہ ہے ، اس میں لکھا ہے کہ ہمارے فقہاء احناف کا بھی یہی مسلک ہے کہ تنہا عاشورہ کاروزہ رکھنا مکروہ ہے ، آپ شریعت کی رو سے تحقیقی جواب دے کر مہربانی فرمائیں ۔ 

الجواب حامداً ومصلیاً : 
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دسویں محرم ( عاشورہ ) کاروزہ رکھا تھا ۔ ( ۱ ) 
بدائع الصنائع میں لکھا ہے کہ فقط دسویں کاروزہ رکھنا مکروہ نہیں ہے ۔ ( ۲ ) 
البتہ سب سے افضل وبہتر یہ ہے کہ نو دس اور گیارہ ( ۹ – ۱۰ – ۱۱ ) تین دن کے روزے رکھے جائیں ۔ ( ۳ ) اور درمیانی راہ یہ ہے کہ نو ، دس ( ۹ – ۱۰ ) یادس ، گیارہ ( ۱۰ – ۱۱ ) کاروزہ رکھے ، کیوں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے قبل ارشاد فرمایاتھا کہ یہود کی مخالفت کرتے ہوئے دس تاریخ سے پہلے یابعد میں بھی روزہ رکھ لیاکرو ۔ ( ۴ ) 

پس تنہا عاشورہ کاروزہ مکروہ نہیں ہے ، اور آپ نے سوال میں جو حوالہ بیان کیا ہے ، اس میں کراہت سے مراد کراہت تنزیہی ہے ، جو مستحب کے مقابل میں ہے ؛ اس لئے جوحضرات تنہاعاشورہ کاروزہ رکھتے ہیں ان پر نکیر نہیں کرنی چاہئے ۔ ( ٭٭٭ )
(۱)عن ابن عباس رضي اللہ عنهما، أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قدم المدينة فوجد اليهود صياما، يوم عاشوراء، فقال لهم رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: ما هذا اليوم الذي تصومونه؟ فقالوا: هذا يوم عظيم، أنجى اللہ فيه موسى وقومه، وغرق فرعون وقومه، فصامه موسى شكرا، فنحن نصومه، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: فنحن أحق وأولى بموسى منكم، فصامه رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم، وأمر بصيامه.(صحیح البخاري:۱؍۴۸۱، رقم الحدیث: ۳۳۹۷، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالى: {وهل أتاك حديث موسى} [طه:۹]{وكلم اللہ موسى تكليما} ، ط: دیوبند ٭ الصحیح لمسلم:۱؍۳۵۹ ، رقم الحدیث:۱۲۸-(۱۱۳۰)،کتاب الصیام، باب صوم يوم عاشوراء، ط: دیوبند، واللفظ لمسلم)
(۲)وكره بعضهم صوم يوم عاشوراء وحده لمكان التشبه باليهود، ولم يكرهه عامتهم؛ لأنه من الأيام الفاضلة، فيستحب استدراك فضيلتها بالصوم.(بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع:۲؍۷۹، کتاب الصوم، فصل شرائط أنواع الصيام،ط: دار الکتب العلمیۃ- بیروت)
(۳)عن ابن عباس، رضي اللہ عنهما، عن رسول اللہ-صلى اللہ عليه وسلم- أنه قال في صوم عاشوراء: صوموه وخالفوا فيه اليهود، وصوموا قبله يوما، وبعده يوما. (مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار-أبو بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق بن خلاد بن عبيد اللہ العتكي المعروف بـ’البزار‘ (م:۲۹۲هـ):۱۱؍۳۹۹، رقم الحدیث:۵۲۳۸، مسند ابن عباس رضي اللہ عنهما، ط: مكتبة العلوم والحكم – المدينة المنورة٭الفوائد، المعروف بـ ’ فوائد تمام‘-أبو القاسم تمام بن محمد بن عبد الله بن جعفر،البجلي الرازي ثم الدمشقي (م:۴۱۴هـ):۱؍۴۷،رقم الحدیث:۹۴، ت: حمدي عبد المجيد السلفي،ط: مكتبة الرشد – الرياض٭السنن الكبرى-أبو بكر البيهقي (م:۴۵۸هـ):۴؍۴۷۵، رقم الحدیث:۸۴۰۶، کتاب الصیام، باب صوم يوم التاسع،ت: محمد عبد القادر عطا، ط: دار الكتب العلمية- بيروت٭شعب الإيمان-أبو بكر البيهقي:۵؍۳۳۰، رقم الحدیث:۳۵۱۱،الصیام، صوم التاسع مع العاشر،ط: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض بالتعاون مع الدار السلفية ببومباي بالهند)
(۴)عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنهما، يقول: حين صام رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه قالوا: يا رسول اللہ إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: فإذا كان العام المقبل إن شاء اللہ صمنا اليوم التاسع، قال: فلم يأت العام المقبل، حتى توفي رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم.(الصحیح لمسلم: ۱؍۳۵۹، رقم الحدیث:۱۳۳-(۱۱۳۴)،کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء، ط: دیوبند)
"وأما” القسم الثالث وهو "المسنون فهو صوم عاشوراء” فإنه يكفر السنة الماضية "مع” صوم "التاسع” لصومه صلى اللہ عليه وسلم العاشر وقال: "لئن بقيت إلى قابل لأصومن التاسع”.(مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح – حسن بن عمار بن علي الشرنبلالي المصري الحنفي (م:۱۰۶۹هـ)،ص:۲۳۵، کتاب الصوم، فصل في صفة الصوم وتقسيمه،ت: نعيم زرزور،ط: المكتبة العصرية ٭ الفتاوی الھندیۃ:۱؍۲۰۲، کتاب الصوم، المرغوبات من الصیام ، قبیل الباب الرابع، ط: دار الفکر٭ فتح القدیر:۴؍۲۵۹، کتاب الصوم)
______________________________
(٭٭٭)حاشیہ نمبر ۲ ملاحظہ کریں۔
حضرت مولانا محمدمنظورنعمانیؒ فرماتے ہیں:ہمارے زمانے میں چوں کہ یہود و نصاریٰ وغیرہ یوم عاشورہ (دسویں محرم)کو روزہ نہیں  رکھتے؛ بل کہ ان کا کوئی کام بھی قمری مہینوں کے حساب سے نہیں ہوتا، اس لیے اب کسی اشتراک اور تشابہ کا سوال ہی نہیں رہا، لہٰذا فی زماننارفع تشابہ کے لیے نویں یا گیارہویں کا روزہ رکھنے کی ضرورت نہ ہونی چاہیے۔واللہ اعلم۔(معارف الحدیث-محمد منظور نعمانی (م:)۴؍۳۸۷، کتاب الصوم،یوم عاشورہ کا روزہ اور اس کی تاریخی اہمیت،ط:دار الاشاعت-کراچی)
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم فرماتے ہیں:فی زمانہ-جب کہ یہود اس دن روزہ نہیں رکھتے- خیال ہوتا ہے کہ صرف ۱۰؍محرم کو بھی روزہ رکھ لیا جائے، تو قباحت نہیں، ہاں احتیاط دو روزے رکھنے میں ہے۔(کتاب الفتاویٰ:۳؍۴۴۸، نقل روزے، ط: نعیمیہ- دیوبند)

(۲)عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنهما، يقول: حين صام رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه قالوا: يا رسول اللہ إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: فإذا كان العام المقبل إن شاء اللہ صمنا اليوم التاسع. قال: فلم يأت العام المقبل، حتى توفي رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم. (الصحیح  لمسلم:۱؍۳۵۹، رقم الحدیث:۱۳۳-(۱۱۳۴)کتاب الصیام،باب صوم يوم عاشوراء، ط: دیوبند )
ملا علی قاری اس حدیث کی شرح میں علامہ تورپشتی کے حوالے سےتحریر فرماتے ہیں:
قال التوربشتي: قيل: أريد بذلك أن يضم إليه يوما آخر، فيكون هديه مخالفا لأهل الكتاب، وهذا هو الوجه؛ لأنه وقع موقع الجواب لقولهم إنه يوم يعظمه اليهود، وروي عن ابن عباس أنه قال: صوموا التاسع والعاشر، وخالفوا اليهود، وإليه ذهب الشافعي، وبعضهم إلى أن المستحب صوم التاسع فقط، وقال ابن الهمام: يستحب صوم يوم عاشوراء، ويستحب أن يصوم قبله يوما أو بعده يوما، فإن أفرده فهو مكروه للتشبه باليهود اهـ وروى أحمد خبر ’’صوموا يوم عاشوراء، وخالفوا اليهود، وصوموا قبله يوما وبعده يوما‘‘ وظاهره أن الواو بمعنى أو؛ لأن المخالفة تحصل بأحدهما، وأخذ الشافعي بظاهر الحديث فيجمعون بين الثلاثة، واللہ أعلم.(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح-علي بن (سلطان) محمد، أبو الحسن نور الدين الملا الهروي القاري (م:۱۰۱۴هـ):۴؍۱۴۱۲، رقم الحدیث:۲۰۴۱، کتاب الصوم، باب صيام التطوع،الفصل الأول،ط: دار الفكر- بيروت )(فتاوی فلاحیہ۱۸۲/۴تا

واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے