مسئلہ نمبر 98
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں
کیا شریعت میں لائف انشورنس کرنا اور کروانا درست ہے
ہیلتھ انشورنس کروانا کیسا ہے ہیلتھ انشورنس میں سالانہ 3500 روپے جمع کرنا پڑتا ہے اور اس میں فیملی کے پانچھ افراد کا کام ہوتا ہے
حکومت کی طرف سے 5 افراد کے ہلتھ کارڈ دیا جاتا ہے اور اس ہیلتھ کارڈ کے ذریعہ سے ایک آدمی کا علاج 80 ہزار روپے کا مفت ہوتا ہے باقی جانچ اور دوائی ہیلتھ کارڈ کے علاوہ سے خریدنا پڑتا ہے 80 ہزار سے زائد روپے خرچ ہو تو ان چاروں افراد کے ہیلتھ کارڈ کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے ہیلتھ کارڈ کے ذریعے چار لاکھ تک کا علاج مفت کیا جاتا ہے، کیایہ شرعی اعتبار سے درست ہے
اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا علاج میں ماہانہ دس ہزار یا بارہ ہزار روپے خرچہ ہوتا ہے لیکن ہیلتھ انشورنس کی وجہ سے کم خرچ میں علاج ہو جاتا ہے
اگر کسی شخص کا مالی حالت ٹھیک نہیں ہے اور اس کا ماہانہ دس یا بارہ ہزار روپے علاج میں خرچ ہوتا ہے لیکن وہ اپنے علاج پر قادر نہیں ہے تو ایسا شخص ہیلتھ انشورنس کے ذریعے اپنا علاج کروا سکتا ہے.
قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب مرحمت فرمائیں(المستفی:اصغر علی،امام جامع مسجد جھیلی سیئری نیپال)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق
حامداً ومصلیا اما بعد
فقہاء علیہ الرحمہ کی تصریحات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جس طرح لائف انشورنس (زنگی کا بیمہ) کرنا اور کروانا درست نہیں ہے اسی طرح ہیلتھ انشورنس کروانا بھی درست نہیں ہے چاہے تنگدست ہو یا مالدار اسمیں دونوں کا حکم برابر ہے کیوں کہ اس میں ایک تو سودی معاملہ ہے اور دوسرے جوا اور قمار بھی ہے اور یہ دونوں چیزیں اسلام میں سخت حرام و ناجائز ہیں ؛اس لیے جو معاملہ ان دونوں سے مرکب ہو، وہ بہ درجۂ اولی حرام و ناجائز ہوگا،البتہ وہ ممالک جہاں ہیلتھ انشورنس قانوناً لاگو ہے اور وہاں کے شہریوں یا واردین و صادرین کیلئے لازم کردیا گیا ہے ،وہاں مجبوری کی وجہ سے ہیلتھ انشورنس کرانے کی گنجائش ہو گا ؛اس لیے نہیں کہ یہ جائز ہے ؛بل کہ اس لیے کہ وہ مجبور ہیں اور اس سے بچنا بس میں نہیں ہے، اسلئے صرف ان حضرات کیلئے ہیلتھ انشورنس کروانے کی گنجائش ہے، لیکن ایک بات یاد رکھے کہ ان حضرات کو بھی صرف اپنی جمع شدہ رقم سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہے، زائد جو کچھ کمپنی کی طرف سے ملیگا ،وہ بلا نیتِ ثواب غرباء پر صدقہ کرنا ہوگا۔(مستفاد:نفائس الفقہ ٢٣٦/١تا٢٤٦،مروجہ انشورنس پالیسی اور اسلام،مکتبه مسیح الامت،دیوبند و بنگلور)(جدید فقہی مباحث ج۲۵/ص ۱۶تا۲۵۱،ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی پاکستان)
عبارت ملاحظہ فرمائیں
عن علي امير المؤمنين مرفوعا كل قرض جر منفعة فهو ربا(إعلاء السنن ٥١٢/١٤،باب كل قرض جر منفعة فهو ربا،ادارة القرآن والعلوم الإسلامية كراتشي باكستان)
وأما الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن قرض جر نفعا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب۔(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ۵۹٧/١٠تا٥٩٨،کتاب القرض،فصل فی الشروط، دارالکتب العلمیة بیروت لبنان)
ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار، قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار، وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحاً إلى أن ورد تحريمه.(أحکام القرآن للجصاص ٣٩٨/١ باب تحریم المیسر، سورۃ البقرۃ، ط:دارالکتب العلمیة بیروت لبنان)
وقال قوم من أهل العلم: القمار كله من المیسر، وأصله من تيسير أمر الجزور بالاجتماع على القمار فيه وهو السهام التي يجيلونها فمن خرج سهمه استحق منه ما توجبه علامة السهم فربما أخفق بعضهم حتى لايخطئ بشيء وينجح البعض فيحظى بالسهم الوافر وحقيقته تمليك المال على المخاطرة. (أحکام القرآن للجصاص ۱۲۷/۴، سورۃ المائدۃ، باب تحریم الخمر،داراحیاء التراث العربی بیروت)(اسلام اور جدید معاشی مسائل ٣٠٧/٣تا٣٠٨،خريد فروخت کے جدید طریقے،ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور پاکستان)(فتاویٰ عثمانی۳۴۱/۳ کتاب الربا والقمار والتامین،مکتبہ معارف القرآن کراچی)جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن فتوی نمبر:١٤٤٠٠١۲۰٠٧٥٩)دار الافتاء دارالعلوم دیوبند جواب نمبر:٣٦٨٦٦)
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الہند
٦،صفر المظفر ۱۴۴۳ھ م ١٤،ستمبر ۲۰۲۱ء بروز منگل
تائید کنندگان
مولوی عبد الرحمن انصاری غفرلہ
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ