مسئلہ نمبر 87
سوال: 1 کیا کھیت کی فصل کا بیمہ کروانا صحیح ہے؟
کھیت لگنے سے پہلے کچھ رقم بیمہ کے طور پر جمع کرائی جاتی ہے کہ اگر کھیت کی فصل کسی سال خراب ہوجائے تو اس کے کچھ روپے مل جاتے ہیں مثلا 30 ہزار کے نقصان پر 20 ہزار یا 10 ہزار بیمہ چارج کے مطابق۔ مفصل و مدلل جواب دیں۔
2 اور یہ بھی بتادیجیے کہ اگر کسی کو یہ روپئے مل جائے تو اب وہ ان روپوں کا کیا حکم ہے۔؟سائل ارمان
بسم الله الرحمٰن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق
حامداومصلیاامابعد:
(۱) مروجہ بیمہ (انشورنس) کی تمام کمپنیوں کا معاملہ بھی بینک کے کاروبار کی طرح ایک سودی معاملہ ہے، دونوں میں صرف شکل وصورت کا فرق ہے، نیز انشورنس کے اندر "سود” کے ساتھ ” جوا” بھی پایا جاتا ہے، اور اسلام میں یہ دونوں حرام ہیں، ان کی حرمت قرآنِ کریم کی واضح اور قطعی نصوص سے ثابت ہے، کسی زمانے کی کوئی مصلحت اس حرام کو حلال نہیں کرسکتی۔
انشورنس میں”سود” اس اعتبار سے ہے کہ حادثہ کی صورت میں جمع شدہ رقم سے زائد رقم ملتی ہے اور زائد رقم سود ہے، اور "جوا” اس اعتبار سے ہے کہ بعض صورتوں میں اگر حادثہ وغیرہ نہ ہو تو جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی، انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے۔
اسی طرح اس میں جہالت اور غرر ( دھوکا) بھی پایا جاتا ہے، اور جہالت اور غرر والے معاملہ کو شریعت نے فاسد قرار دیا ہے، لہذا انشورنس کرنا اور کرانا اور انشورنس کمپنی کا ممبر بننا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔
﴿يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾[المائدة:٩٠]
عن عمرو بن حارثة يحدث عن عمرو بن يثربي الضمري قال: شهدت خطبة النبي بمنی فكان فيما خطب به أن قال «ولا يحل لامرئ من مال أخيه إلا ما طابت به نفسه)
قال: فلما سمعت ذلك قلت: يا رسول الله أرأيت لو لقيت غنم ابن عمي فأخذت منها شاة فاجتزرتها على في ذلك شيء؟ قال «إن لقيتها نعجة تحمل شفرة وازنادا فلا تمسها.(المسند للإمام أحمد ٤٠٠/١٥،دارالحديث،القاهرة)
عن جابر رضي الله عنه قال لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه،قال:هم سواء.(الصحيح لمسلم١٢٧/٤،كتاب المساقاة والمزارعة، باب لعن اكل الربا وموكله،مكتبة البشرى)۔(مرقاة المفتاح شرح مشكاة المصاليح ٤٣/٦،كتاب البيوع/باب الربا،الفصل الأول،دارالكتب العلمية بيروت)
عن عاصم عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر.(المصنف لابن أبي شيبة٤٢٦/١١، کتاب البیوع والاقضیہ،البيض الذي يقامر به،دارالقبلة للثقافة الإسلامية،المملكة العربية السعودية)تفسير الطبري٣٢٣/٤،سورة البقرو،٢١٩،مكتبة ابن تيمية،القاهرة)
قوله:(لأنه يصير قمارا) لان القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لان كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، ولا كذلك إذا شرط من جانب واحد، لان الزيادة والنقصان لا تمكن فيهما، بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلا تكون مقامرة لأنها مفاعلة منه.(رد المحتار على الدر المختار٥٧٧/٩تا٥٧٨،كتاب الحظر والإباحة/باب الاستبراء وغيره،دارالكتب العلمية بيروت)مستفاد:جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن،فتوی نمبر:١٤٤١٠٧٢٠٠٨٢٥)
(٢) اس بارے میں شرعی حکم یہی ہے کہ جتنی رقم آپ نے انشورنس ادارے میں جمع کروائی ہے، وہ رقم آپ استعمال کرسکتے ہیں اور جو رقم آپ کو آپ کی اصل رقم پر زائد ملی ہے وہ سود ہے، جسے ادارے کو واپس کرنا لازم ہے، اگر واپسی ممکن نہ ہو تو کسی مستحقِ زکاۃ شخص کو بغیر ثواب کی نیت کے دے دی جائے۔
فقط واللہ اعلم
عاجز: محمد زکریّا اچلپوری الحسینی
دارالافتاء المسائل الشرعیة الحنفية
تائید کنندگان
مفتی عبد اللہ محی الدین القاسمی غفرلہ
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ
مفتی محمد امام الدین القاسمی غفرلہ
مفتی مرغوب الرحمن القاسمی غفرلہ
مولانا امیر الدین (حنفی دیوبندی) غفرلہ
۶،محر الحرام ۱۴۴۳ھ م ۱۶، اگست ۲۰۲۱ء بروز پیر