محرم الحرام (عاشورہ)میں روزہ رکھنے کی فضیلت

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

عاشورہ کا روزہ رکھنا

مسئلہ نمبر88

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت ماہ محرم الحرام کے بارے کچھ رہنمائی کیجئے کہ اس مہینے میں کتنے روزے رکھنا ہے اور اسکی کیا فضیلت ہے،وغیرہ وغیرہ ۔(المستفتی:مولانا محمد زینل غفرلہ،مرکز روڈ،ہوجائی آسام الہند)

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق
حامداً ومصلیا اما بعد
حدیث شریف میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ رمضان المبارک کے بعد محرم کا روزه سب سے افضل ہے،اسلئے اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ عبادات کرنی چاہیے اور گناہوں سے بچنے کی دیگر مہینوں کے مقابل میں زیادہ کوشش کرنی چاہیے،اور اس میں مطلقاً روزہ رکھنے کی ترغیب وارد ہوئی ہے،اسی طرح ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے جو شخص محرم کے مہینہ میں ایک روزہ رکھے گا، اس کو ہر روزہ کے بدلہ میں تیس روزوں کا ثواب ملے گا.(سبحان اللہ) نیز یہ بھی وارد ہے کہ اگر کوئی شخص عاشورہ کا روزہ رکھے گا اسکا ایک سال کا گناہ معاف ہو جائے گا،البتہ تنہا عاشورہ کا روزہ نہ رکھا جائے بلکہ اسکے آگے پیچھے ایک روزہ کو ملا لینا چاہئے، ہاں اگر کوئی مجبوری ہے تو پھر کم از کم عاشورہ کا ایک ہی روزہ رکھ لینا چاہئے۔حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے العرف الشذی میں لکھا ہے کہ عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں: (۱)نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے،(۲)نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے(۳)صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔ ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے اسی کو فقہاء نے کراہتِ تنزیہی سے تعبیر کردیا ہے، ورنہ جس روزہ کو آپ ﷺ نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے۔

دار الافتاء دارالعلوم دیوبند میں لکھا ہے کہ آج کل صرف دسویں محرم کا روزہ مکروہ تو نہیں ہے؛ البتہ دسویں کے ساتھ نویں یا گیارہویں کا بھی رکھ لینا بہتر ہے۔(جواب نمبر:١٦٥٧٧٥)

معارف الحدیث میں حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ لکھتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں چوں کہ یہود و نصاریٰ وغیرہ یوم عاشورہ (دسویں محرم)کو روزہ نہیں رکھتے؛ بل کہ ان کا کوئی کام بھی قمری مہینوں کے حساب سے نہیں ہوتا، اس لیے اب کسی اشتراک اور تشابہ کا سوال ہی نہیں رہا، لہٰذا فی زماننا رفع تشابہ کے لیے نویں یا گیارہویں کا روزہ رکھنے کی ضرورت نہ ہونی چاہیے۔واللہ اعلم۔(معارف الحدیث ۳۸۷/۴، کتاب الصوم،یوم عاشورہ کا روزہ اور اس کی تاریخی اہمیت،ط:دار الاشاعت کراچی)

کتاب الفتاوی میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم عالیہ لکھتے ہیں کہ فی زمانہ جب کہ یہود اس دن روزہ نہیں رکھتے خیال ہوتا ہے کہ صرف ۱۰؍محرم کو بھی روزہ رکھ لیا جائے، تو قباحت نہیں، ہاں احتیاط دو روزے رکھنے میں ہے۔(کتاب الفتاویٰ ۴۴۶/۳,نفل روزے، ط: نعیمیہ دیوبند)

عبارت ملاحظہ فرمائیں
عن أبي ہریرۃ رضي الله عنه قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أفضل الصيام بعد رمضان شهر الله المحرم وافضل الصلاة بعد الفريضة صلاة الليل.(الترغیب والترهيب،٦٩/٢،الترغيب في صيام شهر الله المحرم،كتاب الصوم،دارالكتب العلمية بيروت)(الصحيح لمسلم ٥٨٣/٣،كتاب الصيام،باب فضل صوم المحرم،مكتبة البشرى)

عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلی الله عليه وسلم: من صام يوم عرفة كان له كفارة سنتين ومن صام يوما من المحرم فله بكل يوم ثلاثون يوما.(موسوعة الحافظ ابن حجر العسقلاني الحديثية٤٠٩/٢،كتاب الصيام،باب صيام يوم عرفة)(الترغیب والترهيب،٧٠/٢،الترغيب في صيام شهر الله المحرم،كتاب الصوم،دارالكتب العلمية بيروت)

عن أبي قَتادة رضي الله تعالى عنه أن رسول الله صلّى الله عليه وسلّم قال سئل عن صيام يوم عاشوراء فقال يكفر السنة الماضية. رواہ مسلم وغیرہ وابن ماجة ولفظه قال: صيام يوم عاشوراء اني أحتسب على اللَّه أن يكفر السّنة التي قبله.(الترغیب والترهيب،٧٠/٢،الترغيب في صوم يوم عاشوراء،والتوسيع فيه على العيال،كتاب الصوم،دارالكتب العلمية بيروت)الصحيح لمسلم ٥٧٨/٣،كتاب الصيام،باب استحباب صيام ثلاثة أيام من كل شهر وصوم يوم عرفة وعاشوراء،مكتبة البشرى)السنن لابن ماجه ٢٣٨/٢ابواب ما جاء في الصيام،باب صيام عاشوراء،مركز البحوث وتقنية المعلومات،دارالتاصيد)

وحاصل الشريعة:أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم يوم قبله وبعده، ثم الأدون منه صوم عاشوراء مع صوم يوم قبله أو بعده، ثم الأدون صوم يوم عاشوراء فقط. والثلاثة عبادات عظمى، وأما ما في الدر المختار من كراهة صوم عاشوراء منفرداً تنزيهاً، فلا بد من التأويل فيه أي أنها عبادة مفضولة من القسمين الباقيين، ولا يحكم بكراهة؛ فإنه عليه الصلاة والسلام صام مدة عمره صوم عاشوراء منفرداً، وتمنى أن لو بقي إلى المستقبل صام يوماً معه.(العرف الشذي شرح سنن الترمذي١٧٧/٢ كتاب الصوم،باب ما جاء في البحث على صوم يوم عاشوراء،داراحياء التراث العربي بيروت)

وكره بعضهم صوم يوم عاشوراء وحده لمكان التشبه باليهود، ولم يكرهه عامتهم؛ لأنه من الأيام الفاضلة، فيستحب استدراك فضيلتها بالصوم.(بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع ۵۶۵/۲، کتاب الصوم، فصل شرائط أنواع الصيام،دار الکتب العلمية بیروت)(جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن:فتوی نمبر:١٤٤٠٠١٢٠٠٢٣١)کتاب النوازل۳۲۴/۶)

واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الہند
۱۰،محر الحرام ۱۴۴۳ھ م ۲۰، اگست ۲۰۲۱ء بروز جمعہ

تائید کنندگان
مفتی شہاب الدین القاسمی غفرلہ
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ
مفتی محمد اشراق القاسمی غفرلہ

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے