ایک دکان دار کا دوسرے دکان دار سے کم قیمت میں سامان فروخت کرنا جائز ہے؟

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
سوال
ایک چیز سامنے کی دکان والا سوعدد خرید کر پانچ روپے فی عدد فائدے سے بیچتا ہے٬اسی کو میں ایک ہزار خرید کر دو روپئے فی عدد فائدے سے فروخت کروں؛تاکہ کم منافع پر بیچنے سے زیادہ فروخت ہوجائے؛لیکن اسکی وجہ سے ظاہر ہے کہ سامنے والے شخص کی فروخت پر اثر پڑیگا٬کیا ایسا کرنا درست ہے۔؟

الجواب حامدا ومصلیا ومسلما؛
تجارت کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ آدمی کم نفع لے کر فروخت کرے٬اس میں اسکا بھی فائدہ ہے اور خریدار کا بھی؛اسلئے اسلام نے تجارت کو کھلا رکھا ہے اور اس میں کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ نفع کو تحدید نہیں کی گئی ہے؛تاکہ تجارت میں مسابقت باقی رہے اور اس سے صارفین کو فائدہ ہو؛اسلئے جو صورت آپ نے لکھی ہے٬وہ جائز ہے؛البتہ آپ سامنے والے دکاندار پر جانے والے گاہک کو اپنی طرف نہ بلائیں٬نیز آپ کی نیت خود نفع حاصل کرنے کی ہونی چاہئے نہ کہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کی٬یہی اسلامی اخلاق کا تقاضہ ہے۔(آپ کے شرعی مسائل مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی۔(سن شمارہ۔۲۰۱۸/۱۰/۵) فتاویٰ دینیہ ۴۰/۴تا۴۴)محقق و مدلل جدید مسائل۳۱۷/۱) فتاویٰ قاسمیہ ۵۲۹/۲۹تا۵۳۱)

عبارت ملاحظہ فرمائیں:
الثمن المسمی: ہو الثمن الذي یسمیہ ویعینہ العاقدان وقت البیعبالتراضي، سواء کان مطابقا لقیمتہ الحقیقیۃ، أو ناقصا عنہا، أو زائدا علیہا۔ (شرح المجلۃ رستم، مکتبہ اتحاد دیوبند ۱/ ۷۳، رقم المادۃ: ۱۵۳)

یجوز للمشتري أن یزید في الثمن، ویجوز للبائع أن یحط من الثمن، وأن یزید في المبیع ویلتحق بأصل العقد، ویتعلق الاستحقاق بجمیع ذلک۔ (تبیین الحقائق، کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ، زکریا ۴/ ۴۴۲، إمدادیہ ملتان ۴/ ۸۳، ہدایۃ، أشرفي ۳/ ۷۵، مختصر القدوري، ص: ۸۱، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۹/ ۲۹)

واللہ اعلم بالصواب
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی #احمد_نگر_ہوجائی_آسام
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے