کیا گیم بنانا جائز ہے

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

گیم بنانے کا حکم

مسئلہ نمبر78

کیا کارٹون کی شکل والی گیم بنانا جائز ہے ۔تفصیلی جواب مطلوب ہے۔(المستفتی محمد اویس مہاراشٹرا انڈیا)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق
فقہاء علیہ الرحمہ کی تصریحات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ گیم بنانا یہ ایک لا یعنی اور عبث کام ہے اس سے خود بھی بچے اور دوسروں کو بھی بچائے گیم میں اگر جاندار کی تصویر ہو تو یہ تصویر کی وجہ سے گیم بنانا بھی حرام ہوگا اور اس سے ملنے والی آمدنی بھی حرام ہوگی اور اگر جاندار کی تصویر نہ بھی ہو تو بھی عبث و لایعنی کام کی وجہ سے اسے بنانا اور اسکے ذریعہ پیسے کمانا کراہت سے خالی نہیں ہے،اسلئے آپ کسی صاف ستھرے کام کی تلاش کرے اللہ تعالیٰ نے آپ کو معلومات دی ہے اسے اچھے اچھے کاموں میں صرف کریں اور آخرت کی فکر میں لگے رہے ایک بات یاد رکھے کہ ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے بارگاہ میں حاضری دینا ہے اسلئے میرے بھائی لایعنی اور عبث کاموں سے خود بھی بچے اور دوسروں کو بھی بچائے،نیز حدیث شریف میں رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس چیز کو چھوڑ دے جو بے فائدہ ہو۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں
وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراماً لا مكروهاً إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره…(شامي ٤١٦/٢،كتاب الصلاة/باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها،دار الكتب العلمية بيروت)

فيحرم أن ينشغل المرء باللعب إذا كان في ذلك تضييع لواجب شرعي۔(الألعاب الریاضیۃ،ص/۳۲۰،المبحث الأول، المسائل والضوابط المتعلقۃ بالوقت،اجتناب تضییع الواجبات،دار النفائس الأردن)

وعلى هذا يخرج الاستئجار على المعاصي أنه لا يصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعًا كاستئجار الإنسان للعب واللهو، وكاستئجار المغنية، والنائحة للغناء، والنوح … وكذا لو استأجر رجلا ليقتل له رجلا أو ليسجنه أو ليضربه ظلما وكذا كل إجارة وقعت لمظلمة؛ لأنه استئجار لفعل المعصية فلا يكون المعقود عليه مقدور الاستيفاء شرعا، فإن كان ذلك بحق بأن استأجر إنسانا لقطع عضو جاز.(بدائع الصنائع٥٦٢/٥,كتاب الإجارة،فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة.دار الكتب العلمية)

لا تجوز الإجارة على شيء من اللهو والمزامير والطبل وغيره؛ لأنها معصية والإجارة على المعصية باطلة؛ ولأن الأجير مع المستأجر يشتركان في منفعة ذلك فتكون هذه الإجارة واقعة على عمل هو فيه شريك.(المحيط البرهاني٤٨٢/٧ كتاب الإجارات، الفصل الخامس عشر: في بيان ما يجوز من الإجارات، وما لا يجوز.(دار الكتب العلمية بيروت) ذخيرة البرهانية المسمى ذخيرة الفتاوى في الفقه على المذهب الحنفي٥٢٨/١١الفصل التاسع،مالا يجوز من الاجارة ومالا يجوز،دار الكتب العلمية بيروت)

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من حسن اسلام المرء تركه ما لايعنيه.(سنن الترمذي، أبواب الزهد/باب ما جاء من تکلّم بالکلمة لیضحک الناس٥٨/٢رقم: ۲۲۱۷) مستفاد:جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن فتوی نمبر:١٤٣٩٠٢٢٠٠٠٣٦)دار الافتاء دار العلوم ديوبند جواب٦٠٢٨٧)كتاب النوازل٥٤٢/١٦)دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن فتوی نمبر:١٢٣٩٠١٢٠٠٠٥٦)

واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الہند
۱٦ذی الحجہ ۱۴۴۲ھ م ٢٧ جولائی ۲۰۲۱ء بروز منگل

تائید کنندگان
مفتی محمد زکریا الحسینی اچلپوری غفرلہ
مفتی مرغوب الرحمن القاسمی غفرلہ
مولوی عبد الرحمن غفرلہ
مفتی شاہد جمال پشاوری غفرلہ
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے