بفہ سسٹم کھانے کا حکم

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

بفے سسٹم کھانا جائز ہے

مسئلہ نمبر77

سوال
آج کل بعض ہوٹلوں میں بفے سسٹم رکھا گیا ہے،جس میں مختلف قسم کے کھانے رکھ دئے جاتے ہیں،ہر کھانے والے کیلئے گنجائش ہوتی ہے کہ وہ اپنی خواہش اور ضرورت کے مطابق جو کھانا چاہے کھائے،وہ جو بھی کھائے ایک ہی اجرت مقرر ہوتی ہے اور اسی کے مطابق اجرت ادا کرنے ہوتے ہیں،کیا یہ صورت جائز ہے؟

بسم الله الرحمن الرحیم

الجواب وباللہ التوفیق
صورت مذکورہ میں شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ قیمت تو متعین ہے؛لیکن جو چیزیں بیچی جارہی ہے،یعنی مبیع وہ متعین نہیں ہے کہ کھانے والا شخص کیا کیا چیزیں کھائے گا اور کتنی مقدار کھائے گا؟عام طور پر ایسے ابہام کے ساتھ چیزوں کے خرید وفروخت کو منع کیا گیا ہے۔
لیکن دراصل اس طرح کے مسائل عرف و رواج پر مبنی ہوتا ہے،اور جب کوئی عمل معروف ومروج ہوجاتا ہے اسکا حکم بھی بدل جاتاہے، لہذا صورت مسئولہ میں عاقدین کی باہمی رضامندی سے اس طرح کے ہوٹلز پر کھانا کھانا درست ہے اسلئے کہ اسمیں جو نزاع تھا وہ عاقدین کی رضامندی و عرف تعامل کی وجہ سے دور ہوگیا ہے۔
نوٹ
بفے سسٹم“ (جس میں لوگ کھڑے کھڑے کھاتے ہیں) یہ یہود ونصاری فساق و فجار کا طریقہ ہے اس طور پر کھانا اسلامی طریقہ نہیں ہے جس تقریب میں اس طور پر کھانے کا انتظام ہو اس میں شرکت سے احتراز کرنا چاہئے۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں
وأجمعوا على جواز دخول الحمام بالأجرة مع اختلاف الناس في استعمالهم الماء وفي قدر مكثهم، وأجمعوا على جواز الشرب من السقاء بالعوض مع جهالة قدر المشروب واختلاف عادة الشاربين وعكس هذا.

قال العبد الضعيف عفا الله عنه:ويخرج على هذا كثير من المسائل في عصرنا فقد جرت العادة في بعض الفنادق الكبيرة أنهم يضعون أنواعًا من الأطعمة في قدور كبيرة، ويخيرون المشتري في أكل ما شاء بقدر ما شاء، ويأخذون ثمنًا واحدًا معينًا من كل أحد، فالقياس أن لايجوز البيع ؛ لجهالة الأطعمة المبيعة وقدرها، ولكنه يجوز ؛ لأن الجهالة يسيرة غير مفضية إلى النزاع، وقد جرى بها العرف والتعامل.(تكملة فتح الملهم بشرح صحيح مسلم٣١١/٧تا٣١٢،كتاب البيوع،باب بطلان بيع الحصاة،والبيع الذي فيه غرر،دار أحياء التراب العربي بيروت)

قال العلماء:مدار البطلان بسبب الغرر، والصحة مع وجوده، على ما ذكرناه،وهو أنه إن دعت حاجة إلى ارتكاب الغرر، ولا يمكن الاحتراز عنه، إلا بمشقة،وكان الغرر حقيرا٬جاز البيع،وإلا فلا،وما وقع في بعض مسائل الباب،من اختلاف العلماء في صحة البيع فيها،وفساده،کبيع العين الغائبة، مبني على هذه القاعدة، فبعضهم يرى أن الغرر حقير، فيجعله كالمعدوم ، فيصح البيع، وبعضهم يراه ليس بحقير ، فيبطل البيع.(شرح سنن النسائى٢٤٥/٣٤،كتاب البيوع،بيع الحصاة،المملكة العربية السعودية)فتح المنعم شرح صحيح مسلم١٩٥/٦،كتاب البيوع،باب بيع الملامسة،والمنابذة والحصاة،وحبل الحبلة،وبيع الغرر، دار الشروف)(مستفاد:جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن،فتوی نمبر:١٤٤٢٠١٢٠١٣٢٢)تحرير خالد سيف الله رحماني حفظه الله)دار الافتاء دار العلوم ديوبند جواب نمبر:١٤٨٣٧٠)

واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الہند
۱۲ذی الحجہ ۱۴۴۲ھ م ٢۳ جولائی ۲۰۲۱ء بروز جمعہ

تائید کنندگان
مفتی شہاب الدین القاسمی غفرلہ
مفتی محمد امام الدین القاسمی غفرلہ
مفتی مرغوب الرحمن القاسمی غفرلہ
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے