کیا سیلفی لینا جائز ہے

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

جاندار کی تصویر کشی جائز ہے

مسئلہ نمبر76

سوال:
کیا ڈیجیٹل تصویر عورت نکال سکتی ہے؟
مستفتی: اہلیہ خرم صاحبہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب و باللہ التوفیق:

ڈیجیٹل فوٹو(عکسبندی) کی اجازت جہاد کی حد تک ہے.پوری دنیا میں میڈیا کا رواج عام ہوچکا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت سارا میڈیا اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے میں مگن ہے اور اسلام و مسلمان کو بدنام کرنے کی ناپاک سازشیں کر رہا ہے.

اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے لوگوں کو اسلام کی اصل تصویر دکھلانا ناگزیر ہوگیا تو مجاھدین اسلام کے لیے اضطراری طور پر جواز کا کہا گیا کہ وہ اس میڈیا کے منفی پروپیگنڈے کا جواب دیں تاکہ اس میڈیا کے ذریعے کوئی مسلمان بدظن ہوکر اسلام سے نہ نکلے اور دیگر اقوام کے لیے اسلام قبول کرنے میں کوئی چیز مانع نہ بنے.

اسی میڈیا کے زور پر اسلام کو پوری دنیا میں ختم کیے جانے کا زور لگایا گیا اور لوگوں کو باور کروانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ اسلام اب دنیا سے ختم ہورہا ہے تو اس کے مقابل اسلام و مسلمان کے وجود کے اثبات کے لیے میڈیا کا سہارا لینا پڑا.

افسوس ہے کہ مقصد اسلامی کو چھوڑ کر لوگ اپنی اپنی عکس بندیاں کرنے پر لگ گئے اور اس کے لیے شریعت کے قوانین کو پامال کیا جانے لگا. یہاں تک کہ مرد و عورت کی تفریق کیے بنا سب مرد و زن اس چیز میں بلاضرورت مبتلا ہو چلے.
واضح رہے کہ لڑکیوں اور عورتوں کے لیے اور اسی طرح لڑکوں اور مردوں کے لیے اس عکس بندی (ڈیجیٹل فوٹو) کے ذریعے سیلفیاں بنانے کے جواز کا فتوی کسی نے نہیں دیا. ان کے لیے مطلقا ناجائز ہے کہ اس سے عجب و تکبر کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں حالانکہ عجب و تکبر کو ختم کرنا فرض عین ہے.

عبارت ملاحظہ فرمائیں 

الضرورات تبيح المحظورات:
قاعدة أصولية مأخوذة من النص وهو قوله تعالى: {إلا ما اضطررتم إليه}والاضطرار: الحاجة الشديدة، والمحظور المنهي عن فعله، يعني أن الممنوع شرعا يباح عند الضرورة(الموسوعة الفقهية الكويتية٢٠٦/٢٨،ضرورة،ضروريات،ط:وزارۃ الاوقاف)

والتصوير…[لغۃً]:صنع الصورة التي هي تمثال الشيء، أي: ما يماثل الشيء ويحكي هيئته التي هو عليها، سواء كانت الصورة مجسمة أو غير مجسمة، أو كما يعبر بعض الفقهاء: ذات ظل أو غير ذات ظل. والمراد بالصورة المجسمة أو ذات الظل ما كانت ذات ثلاثة أبعاد، أي لها حجم، بحيث تكون أعضاؤها نافرة يمكن أن تتميز باللمس، بالإضافة إلى تميزها بالنظر..
وأما غير المجسمة، أو التي ليس لها ظل، فهي المسطحة، أو ذات البعدين، وتتميز أعضاؤها بالنظر فقط، دون اللمس؛ لأنها ليست نافرة، كالصور التي على الورق، أو القماش، أو السطوح الملساء…والتصوير والصورة في اصطلاح الفقهاء يجري على ما جرى عليه في اللغة.”(الموسوعة الفقهية الكويتية،٩٣/١٢تصویر،التعریف،ط:وزارۃ الاوقاف )

فأما صورة ما لا حياة له كالشجر ونحو ذلك فلايوجب الكراهة؛ لأن عبدة الصور لايعبدون تمثال ما ليس بذي روح، فلا يحصل التشبه بهم، وكذا النهي إنما جاء عن تصوير ذي الروح لما روي عن علي – رضي الله عنه – أنه قال: من صور تمثال ذي الروح كلف يوم القيامة أن ينفخ فيه الروح، وليس بنافخ………الخ”(بدائع الصنائع١١٥/١، کتاب الصلاۃ ،فصل شرائط ارکان الصلاۃ،ط: دار الكتب العلمية)

واللہ اعلم بالصواب
✍🏻: محمد شاھد جمال عفا اللہ عنہ
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الہند

الجواب صحیح:
مفتی مرغوب الرحمن صاحب
امیر الدین حنفی صاحب
مفتی محمد اویس قاسمی صاحب

مفتی محمد زبیر بجنوری صاحب زید مجدھم

۱۱ ذوالحجہ ۱۴۴۲ھ بمطابق: ۲۲ جولائی۲۰۲۱ء

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے