کیا نمازِ عید کے بعد تکبیرِ تشریق کہنا واجب ہے۔

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

نماز عید کے بعد تکبیر تشریق کہنے کا حکم

مسئلہ نمبر75

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں تکبیرِ تشریق ۹ ذی الحجہ کی فجر کی نماز سے لےکر ۱۳ ذی الحجہ کی عصر تک ہر مسلمان عاقل مرد و عورت پر فرض نماز بعد فوراً ایک مرتبہ پانچ دن میں کل ۲۳ فرض نماز بعد کہنی واجب ہے،،،،جبکہ عید الاضحی میں بھی تکبیر پڑھی جاتی ہے،،،تو کیا تکبیر تشریق صرف فرض نمازوں کے بعد ہی پڑھنا واجب ہے؟واجب نمازوں کے متعلق کیا حکم ہے؟(المستفتی:سید اعظم علی،بھوپال انڈیا)

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق

فقہاء علیہ الرحمہ نے تصریح کی ہے کہ تکبیر تشریق نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد مرد کیلئے بآواز بلند اور عورت کیلئے ایک مرتبہ سرا پڑھنا واجب ہے، چاہے جماعت سے پڑھی جائے یا تنہا، چاہے مسبوق ہو یا مدرک، ہر عاقل بالغ مرد و عورت مسافر مقیم سب پر تکبیر تشریق پڑھنا واجب ہے،اب رہی بات کہ نماز عید کے بعد تکبیر تشریق پڑھنا واجب ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ،بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ نماز عید کے واجب ہونے کی وجہ سے تکبیر تشریق نہیں پڑھی جائیگی، تاہم مشائخ کے عمل اور توارث مسلمین کی وجہ سے تکبیر تشریق پڑھنا مناسب معلوم ہوتا ہے اوریہی قول راجح ہے۔حاصل کلام یہ ہے کہ فرض نماز کیلئے تکبیر تشریق کہنا واجب ہے اور نماز عید کے بعد امت کا عمل ہونے کی وجہ سے مستحب ہے اور دیگر واجب نماز میں پڑھنا نہیں چاہئے۔

فتاویٰ رحیمیہ میں لکھا ہوا ہے کہ نماز عید الاضحی کے بعد تکبیر تشریق کہنا مستحب ہے فتاویٰ رحیمیہ میں آخری عبارتوں میں ’’ لاباس به‘‘ کا لفظ ہے، اس مقام پر اس سے مراد استحباب ہے ۔ مفید المفتی میں ہے لفظ لا بأس کا استعمال ترک اولیٰ کے واسطی مطرد نہیں ہے بلکہ مندوب میں بھی یہ استعمال کیا جاتا ہے ،لفظ لا بأس دلیل اس پر ہے کہ اس کاغیر مستحب ہے یعنی مدخول علیہ لا بأس مستحب نہیں ہے اس واسطے کہ بأس کے معنی شدت ہے اور مندوب میں لفظ لا بأس کا جو استعمال ہوتاہے تو یہ وہیں ہوگا جہاں بأس اور شدت کا توہم ہو مثلاً وضو موجود رہنے پر پھر دوبارہ وضو کرے تو یہ فعل مستحب ہے اور "وانه نور علي نور” آیا ہے اور یہاں کہیں "الوضؤ علی الوضوء لا بأس به” تو مطلب اس کا یہ ہوگا کہ یہ مستحب ہے مکروہ نہیں اگرچہ اس کا زیادہ استعمال ترک اولی کی محل پر ہوتا ہے ، لیکن مندوب اور مستحب میں بھی استعمال کرلیا جاتا ہے ،اسی طرح فقہاء کہتے ہیں ’’ لابأس بتکبیر التشریق عقب العید ‘‘ تویہاں اس سے مراد استحباب ہے اس واسطے کہ مسلمانوں کا اس پر توارث اور تعامل ہے یعنی علماء وفقہاء کا ہمیشہ سے اس پر عمل در آمد ہے تو ان کی اتباع و پیروی واجب ہے ، تنویر الا بصار اور درمختار اور بحر الرائق اور رد المختار کے مضمون کا خلاصہ یہ ہے اس کو یاد رکھنا چاہئے.(فتاوی رحیمیہ ۱۸۱/۶تا۱۸۲باب الجمعۃ والعیدین،دار الاشاعت کراچی)

عبارت ملاحظہ فرمائیں:

عن علي بن ابي طالب وعمار بن ياسر انهما سمعا رسول الله صلي الله عليه وسلم……….. ويكبر في دبر الصلاة المكتوبات من قبل صلاة الفجر غداة عرفة الي صلاة العصر آخر أيام التشريق يوم دفعة الناس العظمي.(سنن الدارقطني٣٧/٢کتاب العیدین، دار الکتب العلمیۃ بیروت)کتاب الاحکام۱۰۳/۳دارطیبة)

ووجوبه على إمام مقيم بمصر و على مقتد مسافر أو قروي أو امرأة بالتبعية لكن المرأة تخافت ويجب على مقيم اقتدى بمسافر وقالا بوجوبه فور كل فرض مطلقا ولو منفردا أو مسافرا أو امرأة لأنه تبع للمكتوبة إلى عصر اليوم الخامس آخر أيام التشريق وعليه الاعتماد والعمل والفتوى في عامة الأمصار وكافة الأعصار.(در مختار مع الشامي٦٤/٣کتاب الصلاۃ، باب العیدین، دارالكتب العلمية بيروت)

يجب على كل من تجب عليه الصلاة المكتوبة في أيام التشريق، الرستاقي والبلدي والمسافر والمقيم والذي يصلي وحده والذي يصلي بجماعة سواء.(الفتاوی التاتار خانیۃ٥٦٩/١کتاب الصلاۃ، الفصل السابع والعشرون في تکبیرات أیام التشریق، دار الكتب العلمية بيروت)المحيط البرهاني١١٨/٢كتاب الصلاة،دار الكتب العلمية بيروت)

قوله عقب كل فرض عيني ) شمل الجمعة . وخرج به الواجب كالوتر والعيدين والنفل.وعند البلخيين يكبرون عقب صلاة العيد لأدائها بجماعة كالجمعة وعليه توارث المسلمين فوجب اتباعه . (شامي٦٣/٣کتاب الصلاۃ، باب العیدین دار الكتب العلمية بيروت)

ولا بأس به عقب العيد لأن المسلمين توارثوه فوجب اتباعهم، وعليه البلخيون.(قوله ولا بأس إلخ) كلمة لا بأس قد تستعمل في المندوب كما في البحر من الجنائز والجهاد ومنه هذا الموضع لقوله فوجب اتباعهم (قوله فوجب) الظاهر أن المراد بالوجوب الثبوت لا الوجوب المصطلح عليه، وفي البحر عن المجتبى: والبلخيون يكبرون عقب صلاة العيد لأنها تؤدى بجماعة فأشبهت الجمعة اهـ وهو يفيد الوجوب المصطلح عليه ط.(در مختار مع الشامي٦٥/٣کتاب الصلاۃ، باب العیدین، دارالكتب العلمية بيروت)(مستفاد:فتاویٰ قاسمیہ۴۹۶/۹تا۵۰۰)(کفایت المفتی ۳۰۶/۳،دار الاشاعت کراچی)(فتاویٰ حقانیہ ۴۱۲/۳)(خیر الفتاوی۱۲۵/۳،مکتبہ امدادیہ ملتان).(فتاوی رحیمیہ ۱۷۷/۶باب الجمعۃ والعیدین،دار الاشاعت کراچی) فتاویٰ فلاحیہ۷۸۹/۲باب العیدین)

واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الہند
۱۱ذی الحجہ ۱۴۴۲ھ م ٢۲ جولائی ۲۰۲۱ء بروز جمعرات

تائید کنندگان
مفتی محمد ابرہیم علیانی غفرلہ
مفتی مرغوب الرحمن القاسمی غفرلہ
مفتی شہاب الدین القاسمی غفرلہ
مفتی محمد زکریا الحسینی غفرلہ
مفتی شاہد جمال پشاوری غفرلہ
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے