کیا تصویر والے کھلونے استعمال کرنا جائز ہے

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

تصویر والے کھلونے کا حکم

مسئلہ نمبر79

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت وہ کھیلنے یا گاڑیاں جو انسان یا کسی جاندار کی مشابہت رکھتی ہیں کیا بچّوں کو ایسے کھلونے سے کھیلنے دیں یا ایسے چیز گھر میں نہ لائیں۔۔۔
برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں
جزاک اللہ خیرا کثیرا

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب وباللہ التوفیق
حامداومصلیاامابعد:

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ رحمت کے فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا جان دار کی تصویریں ہوں۔
دینِ اسلام میں تصویر سازی اور مجسمہ سازی منع ہے۔

ایک اور حدیث میں حضرت امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم گھر میں کوئی ایسی چیز دیکھتے جس میں جان دار کی تصاویر ہوں تو اسے توڑ دیتے تھے۔ 

اگر گڑیا اور گاڑیاں وغیرہ جان دار  کی صورت والے ہوں ، یا ان میں جان دار کی تصویر ہو  (جیساکہ عموماً  گڑیا اور کھلونے ہوتے ہیں ) تو ایسے کھلونے بچوں کو کھیلنے دینا ، گھر یا دکان میں رکھنا، ان کی تجارت کرنا، ایسے کھلونے بنانا یا بنوانا سب ناجائز ہے۔

اور اگر وہ جان دار کی صورت والے نہ ہوں تو مضائقہ نہیں ہے۔

عن ابن عباس، عن أبي طلحة، رضي الله عنهم قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا تدخل الملائكة بيتاً فيه كلب ولا تصاوير»(صحيح البخاري۱۶۷/۷)

عن عمران بن حطان، أن عائشة، رضي الله عنها حدثته: أن النبي صلى الله عليه وسلم «لم يكن يترك في بيته شيئاً فيه تصاليب إلا نقضه»(صحيح البخاري۱۶۷/۷)

عن نافع، أن عبد الله بن عمر، رضي الله عنهما أخبره: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” إن الذين يصنعون هذه الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: ” أحيوا ما خلقتم”. أیضاً.

عن مسلم، قال: كنا مع مسروق، في دار يسار بن نمير، فرأى في صفته تماثيل، فقال: سمعت عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون» أیضاً”.

 فقط واللہ تعالٰی اعلم
محمد زکریا اچلپوری الحسینی
دارالافتاء المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ

—————————————————————————–
الجواب صحیحٌ
واضح رہے کہ بعض کھلونے جیسے گاڑی وغیرہ، ان پر بعض دفعہ جاندار کی تصاویر نقش ہوتی ہیں، اگر ان چیزوں پر بنی ہوئی تصاویر مقصود کے درجہ میں نہ ہوں تو اصل مصنوعات کے تابع ہوکر ان کی خرید وفروخت جائز ہوجائے گی، البتہ خریدنے والا یا تو اس پر بنی ہوئی تصویر کو مٹادے یا پامالی اور تذلیل کے انداز پر رکھے، حرمت وعزت کے ساتھ رکھنا اور ان کا استعمال کرنا جائز نہیں ہو گا۔

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ قَالَ: الصُّورَةُ الرَّأْسُ , فَکُلُّ شَیْءٍ لَیْسَ لَہُ رَأْسٌ , فَلَیْسَ بِصُورَةٍ․(شرح معانی الآثار۲۸۷/۴،ط:عالم الکتب)

وقید بالرأس؛ لأنہ لا اعتبار بإزالة الحاجبین أو العینین؛ لأنہا تعبد بدونہا، وکذا لا اعتبار بقطع الیدین أو الرجلین۔
(شامی۴۱۸/۲،کتاب الصلاة، باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیہا.(دار الکتب العلمیہ بیروت)(تفصیل کیلیے دیکھیے:دار الافتاء دارالعلوم دیوبند جواب نمبر۱۶۰۸۱۸)(جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن فتوی نمبر۱۴۴۰۱۰۲۰۱۲۲۲)

فقط واللہ اعلم
محمدمرغوب الرّحمٰن القاسمِی غُفرلہ
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے