کیا روزے کی حالت میں سینیٹائزر کا استعمال جائز ہے

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

مسئلہ نمبر 115

روزے کی حالت میں سینیٹائزر استعمال کرنے کا حکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مفتی صاحب روزہ میں Hand Sanitizer استعمال کرسکتے ہے کیا اس کی تھوڑی Smell بھی ناک میں جاتی ہے اور اس میں الکحل ملا ہوا ہوتا ہے تو اس کے لیے کیا حکم ہے۔(حفظان خان اچلپور الہند)

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب وباللہ التوفیق
حامداومصلیاامابعد:
الکحل کئی قسم کا ہوتا ہے، بعض پاک اور بعض ناپاک، لہذا الکحل اگر منقی، انگور یا کھجور سے کشید کرکے بنایا گیا ہو تو وہ ناپاک اور حرام ہے اس کااستعمال درست نہیں۔
اور اگر ان کے علاوہ کسی اور چیز سے بنایا گیا ہے تو اس کا اتنا استعمال جائز ہے جو نشے کی حد تک نہ پہنچتا ہو۔
آج کل زیادہ تر الکحل انگور اور کھجور کے علاوہ اور چیزوں جیسے آلو، ہری سبزیوں،گنے اور پٹرول وغیرہ سے بنایا جاتا ہے، ان چیزوں سے تیار کردہ ”الکوحل“ امام ابوحنیفہ کے اصول کے مطابق ناپاک نہیں ہے، اور عموم بلوی کی وجہ سے متأخرین نے اسی پر فتوی دیا ہے؛ اس لیے اگر ایسی سینیٹائزر یا خوشبو، اسپرے، ہینڈ واش میں الکحل ملا ہوا ہو تو ان کا استعمال جائز ہے ۔
عام طور پر ادویات، پرفیوم، عطر، توتھ پیسٹ، ہینڈ واش اور دیگر مرکبات میں جو الکحل استعمال ہوتی ہے وہ انگور یا کھجور وغیرہ سے حاصل نہیں کی جاتی، بلکہ دیگر اشیاء سے بنائی جاتی ہے۔
بس اتنا جان لیجئے کہ روزہ کی حالت میں سینیٹائزر کا استعمال درست ہے لیکن عبادت کے وقت دھو لینا بہتر ہے۔

والدليل على ما قلنا
(وأما) المزر والجعة والبتع وما يتخذ من السكر والتين ونحو ذلك فيحل شربه عند أبي حنيفة – رضي الله عنه – قليلا كان أو كثيرا، مطبوخا كان أو نيئا، ولا يحد شاربه وإن سكر.(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع٤٧٥/٦ كتاب الاشربة،دارالكتب العلمية بيروت)

وما عدا المسمي بالخمر من الاشربة فهي في حكم الثلاثة الأخيرة (عصير العنب المسمي بالطلاء ونقيع الزبيب ونقيع التمر) في الحرمه والنجاسه وعند ابي حنيفه وابي يوسف يحرم منها القدر المسكر واما القدر الغير المسكر فحلال الا للهو وكلها طاهر………. وظاهر ان الاحوط قول محمد فلذا افتى المتاخرون به سدا لباب الفتنه لكن في زماننا فقد عارضه عموم البلوي في شراب يقال له "اسپريٹ” فالاحوط في زماننا عسى ان يؤدي الى الجرأه في الاثم اذا لم ير الناس منه خلاصا كما لا يخفى فالاولى ان لا يتعرض للمبتلي به شيئ،نعم من قدر على الاحتراز منه فليتحرز ما شاء كما قال العلامه التهانوي.(اختري بهشتي زيور ١٠٢/٩جمادات کا بیان)

وإن معظم الحکول التي تستعمل اليوم في الأودية و العطور وغيرهما لاتتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول و غيره، كما ذكرنا في باب بيوع الخمر من كتاب البيوع.(كتاب الأشربة، حكم الكحول المسكرة، ٣/ ٦٠٨، ط: مكتبة دار العلوم)(تکملة فتح الملهم: ۹/۳۴۳، کتاب الاشربة، حکم الکحول المسکرة، ط: اشرفی دیوبند)

وبه علم أن المراد الأشربة المائعة، وأن البنج ونحوه من الجامدات إنما يحرم إذا أراد به السكر وهو الكثير منه، دون القليل المراد به التداوي ونحوه كالتطيب بالعنبر وجوزة الطيب، ونظير ذلك ما كان سميًا قتالًا كالمحمودة وهي السقمونيا ونحوها من الأدوية السمية فإن استعمال القليل منها جائز، بخلاف القدر المضر فإنه يحرم.(رد المحتار على الدر المختار۷۸/۶ كتاب الحدود/باب حد الشرب المحرم،دارالكتب العلمية بيروت)

فقط واللہ تعالٰی اعلم
كتبه العبد محمد زکریا اچلپوری الحسینی
دارالافتاء المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
تاریخ 08/04/2022

الجواب صحیح
مفتی مرغوب الرحمٰن القاسمی
مفتی شہاب الدین القاسمی
مفتی اسحاق شریف قاسمی
مولانا امیر الدین غفرلہ
دارالافتاء المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے