ایک خصیہ و خنثیٰ جانور کی قربانی کا حکم۔

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں

مسئلہ نمبر 55
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کسی جانور کا ایک خصیہ نہ ہو تو کیا اسکی قربانی درست ہوگی؟اسی طرح خنثیٰ جانور کا کیا حکم ہے؟ مکمل و مدلل جواب کی امید کرتا ہوں،جزاک اللہ خیراً۔(المستفتی:ماسٹر علی اصغر،مہتمم دندوا حافظہ و قاریانہ مدرسہ،مریگاوں آسام الھند)۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب وبہ التوفیق
فقہاء نے لکھا ہے کہ جس جانور کا ایک خصیہ یا دونوں خصیہ نہ ہو ایسے جانور کی قربانی درست ہے جیسا کہ خصی ،بیل کی قربانی درست ہوتی ہے۔اسی طرح خنثیٰ جانور کی قربانی بھی جائز ہے،البتہ خنثیٰ مشکل جانور کی قربانی درست نہیں ہے اسلئے کہ اسکا گوشت پکنے میں گلتا نہیں ہے ہاں اگر کسی نے خنثی مشکل جانور کی قربانی کر ڈالی اور اسکا گوشت اچھی طرح پک گیا ہے تو پھر اسکی قربانی بھی درست ہو جائیگی اسلئے کہ فقہاء نے خنثی مشکل جانور کی قربانی نہ ہونے کی علت اسکا گوشت نہ گلنا لکھا ہے جب علت فوت ہوگئی ہے تو پھر حکم بھی بدل جائے گا۔لہذا صورت مسئولہ میں ایک خصیہ اور خنثیٰ جانور کی قربانی کرنا درست ہے، اور خنثیٰ مشکل جانور کی قربانی کرنا درست نہیں ہے ہاں اگر کسی نے قربانی کردی اور اسکا گوشت گل گیا ہو تو اسکی قربانی درست ہوگی ورنہ دوبارہ قربانی کرنا ضروری ہوگا۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں
کل عیب یزیل المنفعۃ علی الکمال أو الجمال علی الکمال یمنع الأضحیۃ ومالایکون بہذہ الصفۃ لایمنع۔ (ہندیہ،٣٦٩/٥
 کتاب الأضحیۃ/باب بیان محل الاقامۃ الواجب،دار الکتاب العلمیہ بیروت،زکریا قدیم٢٩٩/٥،جدید٣٤٥/٥المحیط البرہانی٩٣/٦کتاب الاضحیۃ،دار الکتاب العلمیہ بیروت)(تاتارخانیۃ زکریا دیوبند٤٣١/١٧،رقم: ۲۷۷۳۳)۔
ویضحی بالجماء والخصی۔ (شامی،٤٦٧/٩کتاب الأضحیۃ،دار الکتاب العلمیہ بیروت ،کراچی٣٢٦/٦)البحر الرائق١٧٦/٨ کوئٹہ،زکریا٣٢٣/٨)۔
والخصی أفضل من الفحل لأنہ أطیب لحما۔ (ہندیہ٣٧٠/٥کتاب الأضحیۃ/باب بیان محل الاقامۃ الواجب،دار الکتاب العلمیہ بیروت، زکریا قدیم٣٩٩/٥، جدید٣٤٥/٥)تاتارخانیۃ زکریا٤٣٤/١٧،رقم: ۲۷۷۴۳)۔
ولا بالخنثیٰ لأن لحمہا لاینضج شرح وہبانیۃ، وتحتہ فی الشامیۃ وبہذا التعلیل اندفع ما أوردہ ابن وہبان من أنہا لاتخلو إما أن تکون ذکرا أو أنثیٰ وعلی کل تجوز۔ (در مختار مع الشامی،٤٧٠/٩کتاب الأضحیۃ،دار الکتاب العلمیہ بیروت، کراچی٣٢٥/٦)ہندیہ ٣٦٩/٥کتاب الأضحیۃ/باب بیان محل الاقامۃ الواجب،دار الکتاب العلمیہ بیروت)۔
لاتجوز التضحیۃ بالشاۃ الخنثیٰ لأن لحمہا لاینضج ۔ (ہندیہ، کتاب الأضحیۃ، الباب الخامس فی بیان محل إقامۃ الواجب، زکریا قدیم۲۹۹/۵،جدید۳۴۵/۵)(مجمع الأنہر،دار الکتب العلمیۃ بیروت١٧٢/٤)۔
من المسلّم لدی الفقہاء إن الحکم یدور علی العلۃ وجودا و عدما فإن وجدت العلۃ ثبت الحکم وإن انعدمت العلۃ انتفی الحکم۔ (المصباح فی رسم المفتی ص:٤٩٥،المبحث الأول، تغیر الحکم بتغیر العلۃ، مکتبہ اتحاد دیوبند)۔
  متی لم تکن العلۃ لم یکن الحکم‘‘۔ انتفاء العلۃ لانتفاء الحکم.(موسوعۃ مصطلحات أصول الفقہ عند المسلمین،٩٥٨/١تا٩٧٦،باب العلۃ)(مستفاد:فتاویٰ قاسمیہ٤٠٣/٢٢تا٤٠٥و٤٣٨تا٤٤٠)(المسائل المہمہ١٨٠/٩)امداد الاحکام٢٧٠/٤)۔
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام الھند
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الھند
۔۲ذوالحجہ ۱۴۴۱؁ھ م ۲۴ جولائی ۰۲۰۲؁ء بروز جمعہ

تائید کنندہ
مفتی سعود مرشد القاسمی بانکوی غفرلہ
مفتی محمد زبیر بجنوری غفرلہ
منتظم مجلس شوریٰ المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے