اگر بیع سلم میں مسلم فیہ کسی آفات کی وجہ نایاب ہو جائے تو کیا حکم ہے

شیر کریں اور علم دین کو عام کریں
مسئلہ نمبر 53
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حضرات مفتیان کرام ایک بہت ہی اہم مسئلہ درپیش ہے:- ہمارے یہاں مساجد کے فنڈ میں جو پیسے ہوتے ہیں ان پیسوں سے ہر سال مسجد کے کمیٹی گاؤں کے لوگوں سے فصل (دھان) کی بیع سلم کرتے ہیں۔
 جس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ مسجد کمیٹی کے لوگ کسانوں کو اس حساب سے پیسہ دیتے ہیں کہ تمام لوگ مل کر فصل (دھان) کی ایک قسم کو طے کر لیتے ہیں پھر اس کے تمام صفات کو طے کیا جاتا ہے اس کے بعد اس کی قیمت طے کی جاتی ہے
 پھر اسی حساب سے کسانوں کو پیسہ دیا جاتا ہے اور سال پورا ہو جانے کے بعد کسان اسی طے شدہ شرائط کے مطابق مسجد میں طے شدہ مقدار میں فصل (دھان) دے دیتے ہیں جس سے مسجد کی کچھ آمدنی ہو جاتی ہے۔ 
لیکن اس سال  باڑھ (پانی) آنے کی وجہ سے فصل بہت خراب ہو گئی ہے اور لوگوں کے پاس فصل کی کمی ہوگئی ہے اب مسجد کے کمیٹی کے لوگ اس معاملے میں دو طرح کے رائے پیش کر رہے ہیں۔
۔(1) فصل کی جو مقدار طے کی گئی تھی اس سے کچھ کم لے کر کے معاملہ کو ختم کر دیا جائے۔ جبکہ بہت سے کسانوں کے پاس فصل یاتو بالکل نہیں ہے یا پھر بہت کم ہے۔
۔(2) فصل (دھان) کی جو مقدار معاملہ کے وقت طے کیا گیاتھا اس کو اگر بازار میں بیچا جائے تو ہزار روپے کے بدلہ میں جتنی مقدار فصل حاصل ہوئی ہیں اس کو بارہ سو روپے میں بیچا جا سکتا ہے یعنی دو سو روپیہ مسجد کو نفع ہوگا۔
 اب جن لوگوں کے ساتھ معاملہ کیا گیا تھا ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ فصل کی جو قیمت بازار میں ہے اسی حساب سے  آپ وہ فصل ہمارے پاس بیچ دو اور جو نفع ہوتا ہے وہ ہم سے لے لو  باقی بچے اصل ہزار روپیہ سے دوبارہ ہمارے ساتھ بیع سلم کر لو۔ جب کے بہت سے لوگوں کے پاس فصل (دھان) موجود ہی نہیں وہ صرف حساب لگا کر نفع والا حصہ مسجد میں دے دینگے۔
اب مفتیان کرام سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ پر براہ کرم مفصل ومدلل جواب مرحمت فرمائیں۔(مستفتی: شریف  احمد چاپرموکھ ، نوگاؤں،آسام
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق
فقہاء نے لکھا ہے کہ بیع سلم کے صحیح ہونے کے لئے مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:۔
۔(۱) غلہ کی جنس بیان کردی جائے کہ گیہوں ہے یا جو۔
۔(۲) نوع بیان کردی جائے کہ غلہ کس قسم کی زمین کا ہوگا۔(۳) صفت بیان کردی جائے کہ عمدہ ہوگا یا گھٹیا۔
۔(۴) مقدار بیان کردی جائے کہ کتنا غلہ لینا ہے۔(۵) مدت معین کرلی جائے۔(۶) جس قدر غلہ لینا ہو اس کی پوری قیمت کا روپیہ جو ان کے باہمی طے شدہ نرخ سے متعین ہوتا ہے، پہلے ہی یعنی بوقت عقد دے دیا جائے۔(۷) غلہ کس جگہ پر حوالہ کیا جائے گا اس کو بھی معین کر لیا جائے۔ اور جس قسم کے غلہ کی بات چیت ہوتی ہے، اس کو ’’مسلم فیہ‘‘ کہتے ہیں ، اس کا مارکیٹ میں یا علاقہ میں پوری مدت کے زمانہ میں کہیں نہ کہیں دستیاب ہونا ضروری ہے۔اگر مذکورہ علاقے کے لوگوں نے ان شرائط کو مدِنظر رکھتے ہوئے بیع سلم کی ہےتو یہ بیع صحیح ہو جائیگی ہے لہذا ادائیگی کا وقت آنے پر اگر مسلم فیہ  دستیاب نہ ہو،یعنی وہ سامان کسی آفات کی وجہ سے تباہ ہوجائے اور ادائیگی کا وقت آنے پر مسلم فیہ کی جنس منقطع اور نایاب ہو جائے اور اس کو فراہم کرنا ناممکن ہو جائے تو حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ وہ عقد باطل ہے،اسلئے کہ حنفیہ کے یہاں عقد سلم صحیح ہونے کیلئے شرط ہے کہ مسلم فیہ عقد کے وقت اور ادائیگی کے وقت اور ان دونوں کے درمیان جو وقفہ ہے اس میں بھی دستیاب ہو۔
لیکن جمہور کے نزدیک راجح یہ ہے کہ یہ عقد صحیح ہے اور عقد سلم کرنے والے مشتری کو اختیار ہے اسلئے کہ مسلم فیہ بائع کے ذمہ سے وابستہ ہے،لہذا اسکی مثال ایسی ہے کہ مشتری اگر ثمن کی ادائیگی سے مفلس ہوجائے تو عقد فسخ نہیں ہوتا ہے بلکہ بائع کو اختیار ہوتا ہے۔ نیز عقد ایسی چیز میں ہو جو بظاھر قدرت میں ہو اور مقدور پر عقد کا منعقد ہونا عقد کے صحیح ہونے کے مقتضی ہے اور عارضی انقطاع ایسا ہے جیسا کہ غلام کا بھاگ جانا اور یہ چیز صرف اختیار کی متقاضی ہے۔
امام زفر کے سوا تمام حنفیوں نے جمہور کی موافقت کی ہے اور لکھا ہے کہ جب مسلم فیہ کا انقطاع ادائیگی وقت آنے کے بعد اور سپردگی سے پہلے ہوا ہو، تو عقد باطل نہیں ہوگا،اور مالک کو اختیار ہوگا چاہے تو عقد کو فسخ کردے یا صبر کرے یا مال مسلم فیہ کے وجود کا انتظار کرے۔
لہذا صورت مسئولہ اگر بیع سلم کی مذکورہ شرائط کو مدِنظر رکھتے ہوئے عقد کیا گیا ہے تو یہ عقد صحیح ہے اور باڑھ آنے کی وجہ سے فصل میں جو نقصان ہوا ہے اس سے عقد پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے ،اسلئے کہ بیع سلم کے اندر فصل پر کمی زیادتی کی کوئی شرط نہیں ہے اسی طرح کھیت کا متعین نہ کرنا بھی شرط ہے،ہاں اگر فصل نایاب ہو جاتا تو یہ عقد باطل ہو جاتا اور صورت مذکورہ میں فصل دستیاب ہے اسلئے مسلم الیہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ مسلم فیہ کو مارکیٹ یا کہی سے خرید کر مسجد انتظامیہ کے سپرد کرے۔ مسلم فیہ کے سپرد کرے بغیر اضافی رقم دینا یا دوسری چیز کی لین دین درست نہیں ہے،ہاں اگر دوبارہ عقد کرنا چاہے تو مذکورہ عقد کو فسخ کردے یعنی رب السلم رأس المال پر قبضہ کرلے اور بعدہ از سر نو عقد کرلے تو یہ درست ہے۔

الحاصل:۔
صورت مذکورہ میں جن حضرات کے پاس بلکل دھان نہیں ہے یا دھان تو ہے لیکن کم ہے تو ان تمام کیلئے ضروری ہے کہ متعین شدہ دھان خرید کر مسجد انتظامیہ کے سپرد کرے یا رب السلم سے مہلت لےلیں اور دوسرے نمبر پر آپنے جو لکھا ہے کہ مسلم فیہ کے بجائے اضافی رقم دینا یہ بھی درست نہیں ہے اسلئے کہ یہ سود ہے، اسی طرح مسلم فیہ پر قبل القبضہ تصرف کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ احسن الفتاویٰ میں لکھتے ہیں
مدت معینہ تک اگر مسلم الیہ مسلم فیہ ادا نہ کرسکا تو اسکے عوض کوئی دوسری چیز لینا یا ثمن سے زیادہ لینا جائز نہیں ہے،لہذا مشتری کو چاہئے کہ یسر تک بائع کو مہلت دے یا اپنا ثمن واپس لے لے،بائع کی رضا سے بھی استبدال یا ثمن سے زائد لینا جائز نہیں۔(احسن الفتاوی۴۸۱/۶کتاب البیوع،ایچ ایم سعید)۔

عبارت ملاحظہ فرمائیں
ولا یصح السلم عند أبي حنیفة إلا بسبع شرائط: جنس معلوم، کقولنا: حنطة، أو شعیر، ونوع معلوم، کقولنا سقیة أو نجسیة، وصفة معلومة، کقولنا: جید أو ردي، ومقدار معلوم، کقولنا: کذا کیلا بمکیال معروف، أو کذا وزنا وأجل معلوم، ومعرفة مقدار رأس المال إذا کان یتعلق العقد علی مقدارہ کالمکیل والموزون والمعدود، وتسمیة المکان الذي یوفیه فیه إذا کان له حمل ومؤنة۔ (ہدایة، باب السلم، أشرفی دیوبند۹۵/۳،الجوہرۃ النیرۃ،إمدادیه ملتان۲۶۶/۱،دارالکتاب دیوبند۲۵۹/۱)
إذا لم يوجد المسلم فيه عند حلول الأجل، بأن أصابته عاهة أو جائحة فانقطع جنس المسلم فيه عند المحل ولم يمكن تحصيله، فالحنفية يرون أن العقد باطل، لأنهم يشترطون لصحة عقد المسلم وجود المسلم فيه عند العقد، وعند حلول الأجل، وفيما بينهما.۔
والجمهور يرجحون تخيير المسلم مع بقاء العقد صحيحا؛ لأن المسلم فيه يتعلق بالذمة، فأشبه ما إذا أفلس المشتري بالثمن لا ينفسخ العقد، ولكن للبائع الخيار.۔
وأيضا فإن العقد ورد على مقدور في الظاهر، وهذا يستوجب صحة العقد وعروض الانقطاع كإباق العبد، وذلك لا يقتضي إلا الخيار۔
وقد وافق الحنفية – غير زفر – الجمهور فيما إذا كان الانقطاع بعد حلول الأجل وقبل التسليم، فقالوا: لا يبطل العقد، والخيار لرب المال: إن شاء فسخ، وإن شاء صبر وانتظر وجوده.۔(الموسوعة الفقهية الكويتية٥٠٠/٢٩)۔
ولا یجوز التصرف في رأس مال المسلم والمسلم فیه قبل القبض، أما الأول فلما فیه من تفویت القبض المستحق بالعقد، وأما الثاني فلأن المسلم فیه مبیع والتصرف في المبیع قبل القبض لا یجوز۔ (شرح فتح القدیر۹۵/۷،کتاب البیوع،دار الکتاب العلمیہ بیروت)رد المحتار علی الدر المختار شرح تنویر الابصار۴۶۸/۷،کتاب البیوع/باب السلم،دار الکتاب العلمیہ بیروت)۔
وأما بیان ما یجوز من التصرف في المسلم فیه ومالا یجوز فنقول وباللّٰه التوفیق: لا یجوز استبدال المسلم فیه قبل قبضه، بأن یأخذ رب السلم مکانه من غیر جنسه لما ذکرنا أن المسلم فیه وإن کان دینا فهو مبیع، ولا یجوز بیع المبیع المنقول قبل القبض۔ (بدائع الصنائع٤٥١/٤زكريا،١٥٣/٧،كتاب البيوع،دار الکتاب العلمیہ بیروت)۔
 ولو انقطع بعد الاستحقاق خیر رب السلم بین انتظار وجودہ والفسخ واخذ رأس المال(رد المحتار علي الدر المختار٤٥٩/٧،کتاب البیوع/باب السلم،دار الکتاب العلمیہ بیروت)اللباب فی شرح الکتاب وھو شرح مختصر القدوری ۲۴۷/ ج۱-۴،کتاب البیوع/باب السلم،دار الکتاب العلمیہ بیروت)۔
ولایجوز ان یأخذ عوض رأس المال شیئاً مّن غیر جنسه فان اعطاہ من جنس اجود منه اواردا فی الصفة الخ۔(الفتاوٰی الھندیۃ۱۸۹/۳،کتاب البیوع/باب السلم،دار الکتاب العلمیہ بیروت) فتاویٰ دارالعلوم دیوبند۴۳۳/۱۴تا۴۴۰،خرید وفروخت کا بیان،دار الاشاعت کراچی)(جامع الفتاوی ۱۵۷/۶)(اسلام اور جدید معاشی مسائل ۱۴۸/۵تا۱۵۱)۔
واللہ اعلم بالصواب
محمد امیر الدین حنفی دیوبندی
احمد نگر ہوجائی آسام الھند
منتظم المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ الھند
۔۱۴ذوالقعدہ ۱۴۴۱؁ھ م ۶ جولائی ۰۲۰۲؁ء بروز پیر

تائید کنندہ
مفتی محمد امام الدین القاسمی 
مفتی مرغوب الرحمن القاسمی
مفتی عطاء الرحمن بڑودوی 
منتظم مجلس شوریٰ المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
Print Friendly, PDF & Email

1 Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے